روداد سفر حجاز(قسط سوم)


ویسے تو 9 ذو ا لحج کو میدانِ عرفات میں پہنچنا ہوتا ہے، لیکن منتظمینِ مکتب نے یہ فیصلہ کیا کہ 5 نمازیں منٰی میں ادا کرنا ضروری ہوتا ہے، وہ پوری ہو چکی ہیں اس لئےرات کو ہی ہم عرفات روانہ ہو جائیں گے۔ لہٰذا ہمیں بسوں میں بٹھا کر رات کو ہی میدان عرفات میں پہنچا دیا گیا۔ دن کی بارش کی وجہ سے ( جو کہ اب تھم چکی تھی) خیموں کی چھت ٹپک رہی تھی، قالین بھی گیلے ہو چکے تھے۔ یہاں گدے نہیں تھے، اللہ کا نام لے کر ہم نے گیلے قالینوں پر اپنی اپنی چٹائیاں بچھا لیں۔ ایک ہی بہت بڑا سا خیمہ تھا جس میں لمبی سی رسی باندھ کر، اوپر چادریں ڈال کر اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔

ایک طرف مرد تھے اور دوسری طرف عورتیں تھیں۔ اس میدان میں آ کر ایک نیا احساس جاگا، ڈر لگ رہا تھا، دل دھڑک رہا تھا۔ کیونکہ یہ وہ میدان ہے جہاں سے ہمیں حشر کے دن دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جائے گا۔ یا اللہ! ہم احرام پہنے ہوئے (جو کہ کفن ہی کی ایک شکل ہے)، میدان حشر میں تیرے حضور حاضر ہو گئے ہیں۔ کچھ ہی دیر آرام کرنے کے بعد ہم لوگ تہجد کے لئے اٹھ گئے۔ تہجد، صلوٰ اۃ ا لتسبیح، نوافل اور اذکار کے بعد فجر کی نماز با جماعت ادا کی گئی۔

منٰی اور عرفات میں اگلی جانب مردوں کا خیمہ اور پچھلی جانب عوتوں کا خیمہ اس ترتیب سے رکھا جاتا تھا کہ جب نماز کے لئے صفیں بنائی جائیں تو مرد حضرات کی صفیں آگے اور عورتوں کی پیچھے رہیں۔ اشراق کی نماز کے بعد ہمیں ناشتہ دیا گیا۔ اس کے بعد جو لوگ آرام کرنا چاہتے تھے وہ تھوڑی دیر کے لئے لیٹ گئے اور کچھ لوگ باہر کا جائزہ لینے کے لئے نکل گئے۔ تھوڑا سا آرام کرنے کے بعد ظہر کی تیاری شروع ہو گئی۔ میدان عرفات میں ظہر اور عصر کی نمازیں اکٹھی پڑھی جاتی ہیں، اس کے بعد وقوف عرفات شروع ہوا۔

کچھ لوگ خیموں کے اندر رہے کچھ باہر، کھلے آسمان کے نیچے آ گئے۔ خدا بہت قریب محسوس ہو رہا تھا، ہر کوئی رو رہا تھا، اعتراف جرم کر رہا تھا، گڑ گڑا رہا تھا، اللہ سے معافیاں مانگ رہا تھا۔ دعائیں، استغفار، اشکباری کا سلسلہ سورج ڈھلنے تک جاری رہا۔ ایک بے قراری تھی کہ وقت ہمارے ہاتھوں سے پھسل رہا ہے، سورج ڈھلنے سے پہلے اہنے رب کو کسی بھی طرح آج راضی کر لو، منا لو، اپنے گناہ بخشوا لو، کسی دوسرے کا کوئی ہوش نہ تھا، ہر کسی کو اپنی پڑی تھی، کچھ لوگ دل میں دعائیں مانگنے میں مصروف تھے اور کچھ با آواز بلند اپنے اللہ سے ہمکلام تھے۔ وہ سب کو دیکھ رہا تھا، سب کو سن رہا تھا۔ اوراس کی رحمتیں، برکتیں سب پر برس رہی تھیں یہ کیفیت صرف محسوس کی جا سکتی ہے، بیان کرنا آسان نہیں۔ میرے رب کا وعدہ ہے کہ وہ اس دن اپنے حضور میں حاضر ہونے والے ہر بندے کو ایسے گناہوں سے پاک کر دیتا ہے جیسے نو مولود بچہ۔

نکلنے کا اعلان ہو گیا۔ یہ بھی حکم خدا وندی ہے کہ 9 ذو ا لحج کو مغرب اور عشا کی نمازیں مزدلفہ پہنچ کر اکٹھی ادا کی جائیں گی۔ ہم تو بسوں میں بیٹھ گئے مگر بہت سارے لوگ پیدل چل پڑے۔ سڑکوں پر بہت زیادہ رش تھا، ٹریفک جام ہو چکی تھی، مزدلفہ پہنچنے میں دو گھنٹے لگ گئے۔ ننگی زمیں پر، کھلے آسمان تلے، لوگ اپنی اپنی چٹائیاں بچھا کر وضو کرنے لگے۔ منٰی، عرفات اور مزدلفہ، تینوں جگہوں پر سب سے بڑا مسئلہ طہارت خانوں کا تھا۔

لمبی لمبی قطاروں میں لگ کر بہت دیر کے بعد باری آتی تھی۔ یہی حال وضو کرتے ہوئے ہوتا تھا۔ خیر جیسے تیسے یہ مرحلہ طے کر کے مغرب اور عشا ٔ کی نمازیں ادا ا کی گئیں۔ مزدلفہ سے ہر حاجی نے اپنے لئے 70 کنکریاں اکٹھی کیں جو کہ واپس منٰی جا کر رمی کرتے ہوئے شیطان کو مارنی تھیں، ہم نے ان کنکریوں کو دھو کر سنبھال لیا۔ مزدلفہ میں گزرنے والی رات لیلۃ القدر سے بھی افضل بتائی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جو دعائیں عرفات میں قبولیت سے رہ جائیں وہ یہاں قبول ہو جاتی ہیں۔

ہم نے ابتدائی رات میں ایک، دو گھنٹے آرام کیا، نیند تو آ ہی نہیں رہی تھی، بس ذرا کمر سیدھی کر لی۔ پھر اٹھ کر وضو تازہ کیا اور اپنے رب کے حضور کھڑے ہو گئے، اشکباری میں رات گزر گئی۔ عجیب دن اور راتیں تھیں کہ دنیا داری کا کوئی خیال قریب نہ پھٹکتا تھا۔ بہت اچھا موسم تھا، تازہ ہوا چل رہی ے تھی، نہ زیادہ سردی اور نہ زیادہ گرمی۔ آسمان کی طرف دیکھو تو لگتا تھا کہ جیسے سامنے اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے، ہماری دعائیں سن رہا ہے۔

ہم خدا سے بہت قریب تھے۔ فجر کی نماز کے بعد ہم نے وقوف کیا۔ کھڑے ہو کر، ہاتھ اٹھا کر، آسمان پر نظریں گاڑ ہ کر، ہر بندہ خدا سے ہمکلام تھا، دعائیں مانگ رہا تھا، سب کی جھولیاں پھیلی ہوئی تھیں، اپنے اللہ کے حضور اشکوں کے نذرانے پیش کیے جا رہے تھے۔ ایسی ہی کیفیت کے ساتھ مزدلفہ سے منٰی کی طرف پیدل سفر شروع کیا۔ مزدلفہ کی آخری حد کے قریب پہنچ کر ہم رک گئے کیونکہ ابھی سورج طلوع نہیں ہوا تھا۔ سورج طلوع ہونے کے بعد ہی مزدلفہ کو چھوڑ سکتے ہیں۔

لوگ انتظار کر رہے تھے۔ اس دوران زباں پر دعائیں بھی جاری تھیں۔ سورج طلوع ہونے کے بعد ایک گولہ چھوڑا گیا۔ گولے کی آواز سنتے ہی لوگ مزدلفہ سے نکلنا شروع ہو گئے۔ ہجوم بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے 6 یا 7 کلو میٹر کا سفر تقریباً 2 گھنٹوں میں طے ہوا۔ صرف لوگوں کے پاؤں گھسیٹنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ زیادہ تر لوگ سیدھے جمرات جا کر فوراً رمی کرنا چاہتے تھے مگر ہم لوگ پہلے خیمے میں آ گئے کیونکہ مائک پر اعلان ہو رہا تھا کہ سب لوگ ایک دم جمرات نہ جائیں بلکہ تھوڑے تھوڑے کر کے جائیں۔ رش زیادہ ہونے کی وجہ سے وہاں حادثات ہونے کا بھی خدشہ تھا۔ اس دوران تلبیہ اور تکبیر تشریق زبان پر جاری رہی۔

اکٹھے ادا کیے۔ جمرات تک کا فاصلہ 6 سے 7 کلو میٹر ہے جو ہم نے پیدل طے کیا۔ جمرات مشائر اللہ میں سے ہیں، اس مقام پر شیطان کی علامت کے طور پر تین عدد ستون تعمیر کیے گئے ہیں جن کو جمرۃ الاولٰی، جمرۃ ا لوسطٰی اور جمرۃ ا لاخرٰی یا جمرۃ العقبہ کہا جاتا ہے۔ عقبہ بمعنی عقب یعنی پیچھے ہے۔ دسویں ذی ا لحجہ کو صرف جمرۃ ا لعقبٰی ( یعنی بڑے شیطان ) کو ہی کنکریاں ماری جاتی ہیں۔ رمی در اصل اس واقعہ کی یاد میں کی جاتی ہے جب حضرت ابراہیم ؑ اللہ کے حکم کو بجا لاتے ہوئے اپنے بیٹے حضرت اسمٰعیل کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے لے جا رہے تھے، سعادت مند بیٹے نے اللہ کے حکم پر لبیک کہا مگر شیطان ان کو بہکانے اور حکم کی تعمیل کرنے سے روکنے کے لئے آ گیا۔

اس نے تین بار کوشش کی اور حضرت ابرا ہیم ؑ نے اس کو بھگانے کے لئے کنکریاں ماریں، رمی اسی سنت ابراہیمی کی پیروی میں کی جاتی ہے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو رش کافی حد تک کم ہو چکا تھا۔ ہم نے کافی سہولت سے کنکریاں ماریں اور واپسی پر مسجد خیف میں رکنے کا ارادہ کیا۔ جمرۃ ا لعقبہ کو کنکریاں مارنے کے بعد تلبیہ پڑھنا بند کر دیا جاتا ہے البتہ تکبیر تشریق کا ورد جاری رہتا ہے۔ مسجد خیف ایک مقدس مقام ہے۔ ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ مسجد خیف میں 70 نبیوں نے نماز پڑھی۔

آپﷺ نے بھی حج کے دوران یہاں قیام کیا اور نماز پڑھی۔ جب ہم وہاں پہنچے تو رش بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے وقتی طور پر ہم نے اندر جانے کا ارادہ موقوف کر دیا۔ اس کے بعد قربانی کا مرحلہ تھا۔ اس میں بھی نمبر لگے ہوئے تھے، ہماری باری مغرب کے قریب آئی۔ اس معاملے کو میرا بیٹا منصور دیکھ رہا تھا۔ ہمیں مغر ب کی نماز پڑھنے کے بعد اطلاع ملی۔ مردوں نے حلق کروایا، ہم عورتوں نے قینچی سے خود ہی ایک دوسرے کے بال کاٹے۔ سب نے ایک دوسرے کو مبارک باد دی۔

ہم احرام کی پابندی سے آزاد ہو چکے تھے۔ اب طواف زیارت باقی تھا۔ ہمارا اردہ تو اسی دن طواف زیارت کرنے کا تھا مگر قربانی دیر سے ہونے کی وجہ سے یہ ارادہ ترک کرنا پڑا کیونکہ منٰی سے مکہ پیدل ہی جانا تھا، اس لئے اگلے دن جانے کا پروگرام بنایا۔ اگلے دن 11 ذی الحج تھا۔ صبح ناشتے کے بعد ہم ایک گروپ کی شکل میں طواف زیارت کے ارادے سے نکلے۔ پہلے تو یہ کوشش کی کہ کوئی سواری مل جائے مگر ناکامی ہوئی۔ سواریاں کم اور سوار بے حد زیادہ تھے، فیصلہ یہ ہوا کہ پیدل مکہ جایا جائے۔

8۔ 9 کلو میٹر کا فاصلہ پیدل طے کیا گیا۔ ہمارے گروپ میں ایک خاتون اور ایک بزرگ جو اس خاتون کے سسر تھے، بیمار تھے جنہیں ویل چئیر پر بٹھا دیا گیا تھا۔ میرے بیٹے منصو ر نے بزرگ کی چئیر کو اور خاتون کے شوہر نے ان کی چئیر کو دھکیلا۔ مردوں کی رفتا ر تیز تھی، ا ن کا ساتھ دینے کے لئے ہمیں بھی تیز چلنا پڑ رہا تھا۔ میرے پاؤں کے تلووں اور انگلیوں کے نیچے آبلے بن گئے۔ مکہ پہنچ کر ہم پہلے اپنے ہوٹل کے کمرے میں گئے، غسل کر کے کپڑے تبدیل کیے ، پھر حرم کی طرف بھاگے۔ نماز ظہر با جماعت ادا کی، اس کے بعد طواف زیارت شروع کیا۔ طواف زیارت کے بغیر حج مکمل نہیں ہوتا۔

گئے، کیونکہ اگر ایک دوسرے کا دھیان رکھنے لگ جاؤ تو عبادت میں یکسوئی نہیں رہتی اور وقت بھی زیادہ لگتا ہے۔ میں نے طواف زیارت روتے ہوئے اور انبیائے کرام کی مانگی ہوئی دعائیں مانگتے ہوئے اور اللہ سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہوئے مکمل کیا۔ مقام ابراہیم پر نفل واجب ا لطواف پڑھے، آب زم زم پیا، دعا مانگی، نواں استلام کر کے سعی کے لئے روانہ ہوئی۔ حطیم میں داخل ہونے کا موقع نہ ملا، رش بہت زیادہ تھا۔ جب میں صفا پرگئی اور برآمدوں کی طرف نظر ڈالی تو انسانوں کا ایک سمندر نظر آیا، سوچا کہ آج سعی اوپر والی منزل پر کی جائے۔

اوپر جانے کے لئے راستہ ڈھونڈتے ہوئے ایک لڑکی سے مدد طلب کی جو تھوڑی بہت اردو جانتی تھی۔ جب ہم اوپر والی منزل پر پہنچے تو وہ لڑکی مجھ سے الگ ہو گئی اور میں شش و پنج میں پڑ گئی کہ صفا میرے دائیں جا نب ہے یا بائیں جانب۔ کیونکہ صفا پہاڑی سے ہی نیت کر کے سعی کا آغاز کرنا ہوتا ہے۔ سوچا کہ کسی سے پوچھ لوں۔ سعی کرنے والوں میں سے کسی نے میرے استفسار کرنے پر مجھے صفا کہہ کر مروہ کی طرف روانہ کر دیا۔ وہاں پہنچ کر جب میں نے تصدیق کرنی چاہی تو لوگوں نے بتایا کہ یہ صفا نہیں بلکہ آپ مروہ پر کھڑی ہیں۔

میں دوبارہ صفا کی جانب چل پڑی۔ میرا اپنا دماغ کام نہیں کر رہا تھا۔ صفا کی جانب جاتے ہوئے ایک لڑکا ملا اس نے انگریزی میں مجھے بتایا کہ صفا وہی ہے جدھر سے میں آ رہی ہوں، میں گھبرا کر پھر واپس مڑی جب پہاڑی پر پہنچی تو ایک بزرگ سے پوچھا کہ کیا ہم صفا پر کھڑے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں یہ تو مروہ ہے۔ دراصل نچلی منزل پر تو واضح طور پر پتہ چلتا ہے اور پہاڑی نظر آتی ہے مگر اوپر والی منزل پر سمجھ نہیں آتی۔

اور بعض اوقات ویسے ہی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے، میرے ساتھ بھی شاید یہی ہوا۔ بہر حال وہ بزرگ حرم کے ایک ملازم کو پکڑ کر میرے پاس لائے اور میری تسلی کروا دی کہ ہم مروہ پہاڑی پر کھڑے ہیں۔ ان بھول بھلیوں میں میرے دو چکر ضائع ہو چکے تھے۔ میرا دل دکھی ہو گیا اور میں دوبارہ صفا کی طرف چل پڑی۔ پاؤں کے چھالے بہت تکلیف دے رہے تھے، قدم فرش پر رکھنے میں بہت تکلیف ہو رہی تھی۔ میں آہستہ قدموں اور بوجھل دل کے ساتھ دوبارہ صفا کی جانب چل رہی تھی، میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور میں اپنے اللہ سے ہمکلام ہو گئی۔

”اے میرے خدا! مٰن جو تکلیف تیری راہ میں اتھا رہی ہوں، قبول فرما لے اور میرے لئے آسان کر دے۔ اے میرے مالک! اماں حوا نے پریشانی کی حالت میں صفا اور مروہ کے درمیان جس طرح چکر لگائے تھے، آج میں بھی انہی کی طرح پریشانی میں بھٹک رہی ہوں۔ میرے مولا! میں اس وقت اپنے آپ کو بہت تنہا محسوس کر رہی ہوں، میری راہنمائی فرما اور مجھے میرے حج کی قبولیت کی سند عطا فرما“ ۔ بہتے آنسوؤں کے ساتھ اللہ سے باتیں کرتے ہوئے میں صفا کی جانب بڑھ رہی تھی، مجھے نہ بیٹا یاد تھا، نہ بہن۔

دفعتا ً میری نگاہ اٹھی اور نظر کے سامنے دائیں جانب خانہ کعبہ دھوپ میں جگمگا رہا تھا۔ میں وہاں کھڑی ہو گئی اور خانہ کعبہ کو محویت سے دیکھنے لگی۔ مجھے لگا کہ اللہ تعالٰی مسکرا رہا ہے اور فرما رہا ہے کہ پریشان کیوں ہو؟ ادھر دیکھو، میں تمہارا رب، تمہارے سامنے کھڑا ہوں۔ اور میری حالت ایسے تھی جیسے کوئی بچہ مدتوں سے اپنی ماں سے بچھڑا ہوا ہو اور چپکے چپکے رو رہا ہو۔ پھر اچانک ماں سامنے آ جائے تو اس کے اندر چھپا ہوا دکھ آنسوؤں کے راستے بہہ نکلتا ہے۔

میرے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے اور میں بلکنے لگی۔ نگاہیں خانہ کعبہ سے ہٹتی ہی نہ تھیں۔ میرا دماغ کا م کرنے لگا۔ مجھے یاد آیا کہ جب ہمارا رخ صفا کی جانب ہو تو خانہ کعبہ ہماری دائیں جانب ہوتا ہے، یہ بات مجھے پہلے کیوں یاد نہ آئی۔ کچھ دیر وہاں پر دعائیں مانگنے کے بعد میں صفا کی طرف بڑھی۔ صفا پر کھڑے ہو کر خانہ کعبہ واضح نظر آتا ہے اس کی طرف منہ کر کے سعی کی نیت کی۔ سعی کے دوران بھی آنسو نہ تھمے مگر دل میں سکینت اتر چکی تھی جیسے مجھے حج کی قبولیت کی سند مل گئی ہو۔

سعی کے تین چکر اسی کیفیت میں گزر گئے۔ آتے اور جاتے ہوئے جب میں اس مقام پر پہنچتی جہاں سے خانہ کعبہ نظر آتا ہے، میری نظریں اس پر ٹک جاتیں اور آنسو تیزی سے بہنے لگتے۔ جب میں آگے نکل جاتی تو مڑ مڑ کر خانہ کعبہ کو دیکھتی جاتی حتٰی کہ وہ نظروں سے اوجھل ہو جاتا۔ اسی دوران صفا پر وہی لڑکا مجھے دوبارہ مل گیا جس نے مجھے غلط گائیڈ کیا تھا۔ اس نے مجھے روتا ہوا دیکھ لیا، لپک کر میرے پاس آیا اور معذرت کرنے لگا۔

اسے اپنی غلطی کا احساس ہو چکا تھا۔ میں اسے کیا کہتی، میں تو کسی اور ہی کیفیت میں تھی۔ چوتھے چکر میں مجھے کچھ قرار آیا اور میرے آنسو تھمے۔ سات چکر پورے ہوئے اور میں مروہ پر پہنچی تو عصر کی اذان ہو گئی۔ وہیں پر نفل اد ا کیے اور نماز عصر با جماعت ادا کی۔ پھر بہن اور بیٹے کو فون کر کے پوچھا کہ وہ لوگ کہاں پر ہیں۔ بہن تو فارغ ہو چکی تھی لیکن بیٹا ابھی سعی کر رہا تھا۔ ہم نے حرم سے باہر نکل کر بیٹے کا انتظار کیا لیکن میں نے اپنے ساتھ ہونے والا واقعہ کسی کو نہ بتایا۔ الحمد ا للہ ہما را حج آج مکمل ہو چکا تھا اور ہم احرام کی پابندیوں سے بھی آزاد ہو چکے تھے۔

ایک مزدا کروایا گیا، ڈرائیور ایک من موجی سا سیاہ فام لڑکا تھا۔ دو تین گاڑیوں کے ساتھ ٹکر مارتا ہوا نکل گیا، مختلف سڑکوں کی سیر کراتا ہوا مزدلفہ پہنچا۔ وہاں پولیس والوں نے راستہ بند کیا ہوا تھا اور گاڑیوں کو واپس بھیج رہے تھے۔ کافی بحث مباحثے کے بعد مجبوراً ہمیں نیچے اترنا پڑا۔ ہمیں مزید 5۔ 6 کلو میٹر ابھی پیدل چلنا تھا۔ میرے پاؤں کے چھالے اب مجھے با لکل چلنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ اب بزرگ بابا جی کے ساتھ دوسری ویل چئیر پر مجھے بٹھا دیا گیا اور منصور دھکیلنے لگا۔

ہمارا گروپ تین حصوں میں تقسیم ہو کر ادھر ادھر بھٹکنے لگا کیونکہ چاروں طرف ایک جیسے خیمے اور ایک جیسے راستے، پولیس والوں سے پوچھنے کے باوجود سمجھ نہ آتا تھا کہ کدھر جانا ہے۔ بہت دیر کے بعد گھومتے گھامتے ہم اپنے خیموں میں پہنچے۔ مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ منصور کے ہاتھ کرسی دھکیلتے ہوئے دکھ رہے تھے اور وہ ان پر رومال لپیٹ رہا تھا۔ میرے دل سے اس کے لئے بہت دعائیں نکلیں۔ اللہ اس کی اس خدمت کو قبول کرے، آمین۔

یہ 11 ذی الحج تھا اور اس دن کی رمی ابھی باقی تھی۔ خیموں میں پہنچ کر مردوں نے فیصلہ کیا کہ خواتین خیموں میں ہی ٹھہریں، ان کی کنکریاں بھی ہم مار آئیں گے۔ دل کو بہت بے چینی ہوئی، یہ کام تو خود کرنے کا تھا مگر خواتین میں مزید 5۔ 6 کلو میٹر پیدل چل کر جانے اور واپس آنے کی ہمت نہ تھی۔ محرم کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ با امر مجبوری کنکریاں خود مار لے۔ میں نے خیمے میں پہنچ کر پاؤں کے چھالوں پر دوائی لگائی جو ہم نے راستے میں سے ایک میڈیکل خیمے سے لے لی تھی۔ صبح تک کچھ آرام آ گیا۔ ( باقی آئندہ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).