بڈو


دوسرے دن صبح کو میں اپنا بستہ اٹھا کر اسکول جانے کے لئے نکلا تو رات کی بچی ہوئی ایک روٹی بھی میرے پاس تھی۔ میں پہلے پل کے سامنے زاہد کے پلاٹ پر گیا تھا، بڈو کو روٹی کھلائی، پھر اسکول روانہ ہو گیا تھا۔ وہ اپنی کٹی ہوئی دم ہلاتا ہوا میرے ساتھ ساتھ گیا تھا۔

پھر نہ جانے کیسے آہستہ آہستہ یہ معمول سا بن گیا تھا کہ میں جیسے ہی گھر سے نکلتا تھا تو بڈو سامنے موجود ہوتا۔ میں اسے باسی روٹی یا گوشت کا کوئی ٹکڑا دیتا تھا جسے وہ کھا کر دم ہلاتا ہوا میرے ساتھ ساتھ چلتا تھا اور جب میں روڈ پار کرنے لگتا تھا تو وہ پلاٹ کی طرف چلا جاتا۔ دو بجے جب میں اسکول سے آتا تھا تو وہ مجھے روڈ کے کنارے ہی مل جاتا تھا۔ میرے آگے پیچھے اچھلتا کودتا ہوا مجھے میرے گھر تک چھوڑنے آتا۔

اسی قسم کے والہانہ پن کا اظہار وہ زاہد کے ساتھ بھی کرتا تھا۔ زاہد تو اس کا مالک بھی تھا اور شاید اس کی جان بچانے والا بھی۔ زاہد بھی اس کے ساتھ بہت مانوس ہو گیا تھا۔ میں اکثر دیکھتا تھا کہ وہ پلاٹ کے گیٹ پر کھڑا رہتا تھا اور پلاٹ کی طرف رخ کرنے والوں پر بے تحاشا بھونکنے لگتا تھا یہاں تک کہ زاہد کو باہر آنا پڑتا تھا۔ زاہد اسے پیار سے ڈانٹ کر بولتا تھا۔ ”بڈو چپ ہو جا، بیٹھ جا“ اور بڈو دم ہلاتا ہوا کونے میں ساکت ہو کر بیٹھ جایا کرتا تھا۔ وقفے وقفے سے اس کی کٹی ہوئی دم ہلتی تھی اور آنکھوں میں بے تحاشا تشکر کے جذبات ہوتے تھے۔ نہ جانے کتوں میں وفاداری کہاں سے آئی تھی۔ قدرت نے انسان کو زبان دے کر وفا چھین لی اور کتے سے زبان لے کر وفا دے دی۔ قدرت کا نظام قدرت ہی سمجھے۔

زاہد عجیب سا لا ابالی انسان تھا، کسی کو کچھ پتا نہیں تھا کہ وہ اس پلاٹ پر کیسے رہ رہا ہے، یہ کس کا پلاٹ ہے، وہ کیا کرتا ہے اور اس پلاٹ پر کیا ہو گا؟ پلاٹ پر بنے ہوئے ایک کمرے میں اس کی رہائش تھی اور محلے کے دوسرے لا ابالی نوجوان وہاں جمع رہتے تھے۔ وہ سب سگریٹ پیتے تھے، تاش کھیلتے تھے اور زور زور سے ہنستے رہتے تھے۔ ان کی بہت ساری باتیں اس وقت میری سمجھ سے بالاتر تھیں مگر اب مجھے سمجھ میں آتا ہے کہ وہاں کیا ہوتا تھا۔

وہ لوگ وہاں چرس بھی پیتے تھے اور شاید زاہد ہی چرس بیچنے کا ذمہ دار بھی تھا۔ محلے کے جرائم پیشہ نوجوان وہاں آتے جاتے رہتے تھے۔ آہستہ آہستہ مجھے پتا لگ گیا تھا کہ کوئی بھی انہیں پسند نہیں کرتا ہے۔ ایک دفعہ میں نے مسجد میں یہ بات چیت بھی سنی تھی جس میں منظور صاحب رضی صاحب کو کہہ رہے تھے کہ ”پتا کرنا چاہیے کہ یہ پلاٹ ہے کس کا اور ان لوگوں کو بتانا چاہیے کہ زاہد کی سرگرمیاں کیا ہیں۔“

وقت گزرتا گیا۔ میں اسکول کے آخری سال میں پہنچ گیا تھا اور بڈو چھوٹے پلے سے بڑا ہو کر پورا کتا بن گیا تھا۔ زاہد جتنا بھی برا تھا محلے والے جتنے بھی اس سے ناخوش تھے وہ اپنی جگہ پر مگر اس نے بڈو کا بڑا خیال کیا تھا۔ دم کٹا بڈو زاہد کے آگے پیچھے اس طرح سے گھومتا تھا جیسے کسی حکم کا منتظر ہو اور زاہد کی مرضی کے بغیر بڈو کسی کو بھی پلاٹ میں گھسنے نہیں دیتا تھا۔

پھر چند عجیب و غریب باتیں ہوئی تھیں جن کا بظاہر تو کوئی واسطہ نہیں تھا اور اس وقت میں سمجھا بھی نہیں تھا مگر اب کئی سال کے بعد آہستہ آہستہ دماغ میں یہ واقعات ریل کی طرح گاہے بہ گاہے چلتے ہیں اور ایک دوسرے سے منسلک ہوتے جاتے ہیں اور ایک مکمل تصویر بن جاتی ہے، بہت صاف ستھری اور واضح۔ میں تو بہت نادان تھا، بہت ناسمجھ، ابن صفی کی ناولیں پڑھنے کے باوجود۔

ایک روز اے ایریا کی مارکیٹ جاتے ہوئے بڈو کو باسی روٹی کے ٹکڑے دینے رکا تھا تو میری نظر اس پاگل عورت پر پڑی تھی جو زاہد کے کے کمرے کے سامنے ایک سیمنٹ کے بلاک پر بیٹھی ہوئی تھی۔ زاہد کمرے سے پلیٹ میں کوئی چیز لے کر آیا مگر مجھے دیکھتے ہی واپس چلا گیا۔ میں بڈو کے سامنے روٹیاں ڈال کر نکل گیا تھا۔ یہ تو وہی پاگل عورت تھی جو کبھی کالا بورڈ پر، کبھی اے ایریا کی مارکیٹ میں، کبھی پندرہ نمبر کے اسٹاپ پر ہاتھ میں پتھر لے کر گھوما کرتی تھی۔ میری سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ وہ اس پلاٹ پر کیا کر رہی تھی۔ وہ مجھے پہلے کبھی وہاں نظر نہیں آئی تھی۔ کر رہی ہوگی کچھ، میں نے دماغ سے جھٹک دیا تھا۔

پھر وہ مجھے کئی دفعہ نظر آئی۔ مجھے ایسا لگا تھا جیسے وہ کچھ بدل رہی ہے۔ میں اس وقت نہیں سمجھ سکا تھا کہ وہ کیوں بدل رہی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ کالا بورڈ پر ایرانی ہوٹل کے سامنے پان کی دکان پر محلے کے کچھ لوگوں کو میں نے یہ بھی کہتے ہوئے سنا تھا کہ پتا نہیں کون جانور ہے جس نے اس پاگل کو بھی نہیں چھوڑا ہے، پتا نہیں اب کیا ہو گا۔

لیکن ایک بات جو کسی کو بھی پتا نہیں ہے صرف میں جانتا تھا لیکن بہت دنوں بعد سمجھا تھا۔ سردیوں کی ایک رات کے بعد صبح منہ اندھیرے فجر کی اذان کے فوراً بعد جب میں نماز پڑھنے مسجد جا رہا تھا تو میں نے بڈو کو دور سے پہچان لیا تھا جو تیزی سے گزرتی ہوئی ٹرین کے بعد نظر آیا تھا، میں جھک کر دیکھ ہی رہا تھا کہ پھر مجھے زاہد نظر آیا جو دوڑتا ہوا پلاٹ میں گھس گیا تھا۔ بڈو پھر میرے پاس آیا اور میرے ساتھ ساتھ مسجد کے قریب تک جا کر بھونکتا ہوا واپس چلا گیا۔ وہ کبھی بھی مسجد کے پاس نہیں آتا تھا کیونکہ نمازی پتھر مار کر اسے بھگا دیا کرتے تھے۔ وہ آہستہ آہستہ سمجھ گیا تھا کہ مسجد کے قریب نہیں جانا ہے۔

میں اسکول سے واپس آیا تھا تو مجھے پتا لگا تھا کہ صبح ٹرین کے نیچے آ کر کسی عورت نے جان دے دی ہے۔ پھر مجھے وہ پاگل عورت نظر نہیں آئی۔ نہ محلے میں نہ روڈ پر اور نہ ہی زاہد کے ٹھکانے پر۔ مجھے کچھ دنوں کے بعد پتا لگا تھا کہ ٹرین کے نیچے مرنے والی حاملہ عورت وہ پاگل عورت تھی۔ اس وقت بھی فجر کے وقت بڈو اور زاہد کا نظر آنا مجھے یاد نہیں آیا تھا۔

مجھے دو چار دفعہ زاہد نظر آیا تھا دوپہر کو اسکول سے واپسی یا شام کو کبھی کبھار بڈو کو کھانا دینے کے وقت مگر مجھے وہ اداس سا لگا تھا۔ بجھا بجھا، جیسے کچھ پریشان ہو۔ اس کے اڈے پر لوگ بھی نہیں تھے۔ اس دن وہ بے چینی سے چاروں طرف گھوم رہا تھا۔ وہ عام طور پر مجھ سے بات چیت نہیں کرتا تھا مگر نہ جانے کیوں میرے قریب آ گیا تھا۔ بڈو اپنی کٹی ہوئی دم ہلا ہلا کر میرے پیروں میں مچل رہا تھا۔ زاہد نے بہت غور سے اسے دیکھا تھا، پھر مجھ سے بولا۔ ”بابو میاں میں اگر کہیں چلا جاؤں تو آپ بڈو کو کھانا تو کھلا دو گے نا؟“

میں نے کہا، ”ضرور، کیوں نہیں۔ پابندی کے ساتھ، لیکن تم جا کہا رہے ہو؟“

”نہیں، کہیں بھی نہیں۔ ایسے ہی پوچھ رہا ہوں۔“ پھر وہ سوچتا ہوا اپنے کمرے کی طرف چلا گیا تھا۔ میں بڈو سے کھیل ہی رہا تھا کہ گلو آیا تھا۔ بڈو اسے دیکھ کر بھونکا مگر زاہد باہر آ کر گلو کو اپنے ساتھ اندر لے کر چلا گیا تھا۔ تھوڑی دیر میں وہ دونوں ساتھ ہی باہر آئے تھے۔ گلو مسکرا کر رہا تھا اور زاہد مجھے اور بھی پریشان سا لگ رہا تھا۔ گلو کے جانے کے بعد زاہد بے چینی سے ادھر ادھر گھومتا رہا، پھر جا کر اسی سیمنٹ کے بلاک پر بیٹھ گیا تھا جہاں میں نے اس پاگل عورت کو بیٹھا ہوا دیکھا تھا۔ مجھے ایسا لگا تھا جیسے وہ کسی کرب سے گزر رہا ہے، اندر سے کوئی چیز ہے جو اسے مارے ڈال رہی ہے۔ اس وقت میں نہیں سمجھ سکا تھا کہ وہ کیوں پریشان ہے، وہ کیا سوچ رہا ہے، کیوں مجھ سے بڈو کو کھانا کھلانے کے وعدے لے رہا ہے، کون سا احساس جرم ہے جو اسے کچوکے لگا رہا ہے؟

دو دن بعد زاہد نے خودکشی کر لی۔ بھوت والے پل کے اوپر صبح سویرے ایکسپریس ٹرین کے نیچے آ کر اس نے جان دے دی۔ اس وقت میں تانوں بانوں کو نہیں ملا سکا تھا مگر آج میں سوچتا ہوں کہ زاہد اس حاملہ پاگل عورت کو اپنا جرم چھپانے کے لئے ٹرین کے نیچے دھکا دے کر آرام سے نہیں بیٹھ سکا۔ وہ چرسی تھا اور چرس کے کاروبار میں تھا مگر احساس جرم اسے بے چین کیے رہا ہو گا۔ اس وقت کوئی بھی یہاں تک کہ میں بھی جس نے فجر کے وقت اس رات زاہد کو دیکھا تھا ٹرین کے سامنے ہونے والی دونوں موتوں کے درمیان کوئی تعلق نہ محسوس کر سکا تھا، نہ تلاش کر سکا تھا۔

بڈو نے ہی اپنے مالک کو ٹرین کے سامنے گرتے دیکھا تھا۔ بڈو ہی وہاں اس وقت تک بیٹھا رہا، جب تک پولیس والے لاش کو اٹھا کر نہیں لے گئے۔ پھر بڈو پلاٹ کے سامنے آ کر بیٹھ گیا تھا۔ زاہد کا پوسٹ مارٹم ہوا، محلے والوں نے مل کر اس کا جنازہ اٹھایا، اسے قبرستان لے جا کر دفن کر دیا۔ بڈو اس گیٹ کے سامنے سے نہیں ہٹتا تھا۔

میری باسی روٹیوں کے ٹکڑے وہاں جمع ہوتے رہے۔ میں نے بہت کوشش کی تھی کہ بڈو پانی پی لے، تھوڑی روٹی کھا لے۔ وہ مجھے دیکھتا تھا اور دھیرے دھیرے دم ہلاتا تھا مگر کھاتا تھا نہ پیتا تھا۔ وہ لاغر ہوتا چلا گیا تھا۔ محلے کے دوسرے کتے میرے رکھے ہوئے روٹی کے ٹکڑے اور چھیچھڑے کھا رہے تھے مگر بڈو اس بلاک پر جہاں زاہد بیٹھتا تھا، بیٹھا ہوا ٹکر ٹکر آسمان کی طرف دیکھتا رہتا تھا۔ مجھے اس کی آنکھیں یاد ہیں جو میں نے آخری دفعہ دیکھی تھیں۔ کھوئی کھوئی، ویران ویران سی آنکھیں۔ اس نے مجھے دیکھ کر زمین پر پڑے پڑے کوشش کی تھی کہ اپنی دم ہلائے، اپنی وفاداری کا یقین دلائے، میری روٹی کے احسان کا شکر گزار ہو، مگر وہ کچھ نہیں کر سکا تھا، مجھے ایسا لگا تھا جیسے کمزوری کی وجہ سے وہ اپنی آنکھیں تک نہیں کھول پا رہا ہے۔

میرا دل بھر آیا۔ میں گھبرا کر زمین پر بیٹھ گیا تھا، میں نے پورے خشوع و خضوع کے ساتھ دعا مانگی تھی میرے خدا، میرے اللہ میرے مالک، سارے جہانوں کے مالک، پہاڑوں کو بلندی دینے والے، آسمانوں کو بنانے والے، مردوں کو اٹھانے والے میری یہ دعا قبول کر لے۔ بڈو کو مار دے، اس کی روح کو کھینچ لے۔ یہ دعا مانگتے ہوئے میرے آنسو نکل آئے تھے۔

دوسرے دن اسکول جانے سے پہلے میں وہاں گیا تو میں نے دیکھا بڈو مر چکا تھا۔ شاید پہلی اور آخری دفعہ میں کسی کے مرنے پر بے انتہا خوش ہوا تھا۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2