گنگا ہائی جیکنگ: جب دو کشمیری نوجوان انڈین طیارہ اغوا کر کے لاہور لے آئے


جنوری کی ایک سرد صبح ہے اور پورا شہر برف میں لپٹا ہوا ہے۔ دو کم عمر نوجوان ایک بریف کیس ہاتھ میں لیے 26 دیگر مسافروں سمیت ایک چھوٹے فوکر طیارے میں سوار ہوتے ہیں اور کچھ ہی دیر میں یہ طیارہ فضا میں بلند ہو جانب منزل گامزن ہو جاتا ہے۔

طیارے میں ساتھ ساتھ بیٹھے اِن دونوں نوجوانوں کا سفر بے چینی کے عالم میں گزر رہا ہے، مگر اس بے چینی کے باوجود وہ آپس میں محو گفتگو ہیں۔ طیارہ اب اپنی منزل کے انتہائی قریب ہے اور لینڈنگ سے چند ہی لمحے قبل ایئر ہوسٹس تمام مسافروں سے سیٹ بیلٹ باندھنے کی گزارش کرتی ہے۔

مگر اسی اثنا میں ان میں سے ایک نوجوان دوڑتا ہوا کاک پٹ میں داخل ہوتا ہے اور کپتان کی کنپٹی پر پستول رکھ کر طیارے کا رُخ کسی اور ملک کی طرف موڑنے کو کہتا ہے۔

اسی دوران دوسرا نوجوان ہینڈ گرنیڈ ہاتھ میں تھام کر مسافروں کی جانب متوجہ ہو جاتا ہے اور انھیں تنبیہہ کرتا ہے اگر کسی نے چالاکی دکھانے کی کوشش کی تو وہ ہینڈ گرنیڈ چلانے سے گریز نہیں کرے گا۔

بظاہر یہ دونوں نوجوان ایک کھلونا پستول اور لکڑی سے بنے ہینڈ گرنیڈ کی مدد سے طیارے کو ہائی جیک کر لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور اسے زبردستی ایک پڑوسی ملک لے جاتے ہیں جہاں وہ جیلوں میں قید اپنے کچھ ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔

آپ سوچ رہے ہوں گے یہ مناظر ہالی وڈ کی کسی ایکشن تھرلر فلم کے ہیں لیکن ایسا نہیں کیونکہ یہ مناظر آج سے 50 برس قبل پیش آنے والے طیارہ ہائی جیکنگ کی اُس واردات کے ہیں جس کے متعلق بہت سے سوالات اور ابہام کئی دہائیاں گزر جانے کے باوجود آج بھی جواب طلب ہیں۔

50 سال قبل یعنی 30 جنوری 1971 کو دو کشمیری نوجوانوں، چیئرمین جموں کشمیر ڈیموکریٹک لبریشن پارٹی محمد ہاشم قریشی اور ان کے دور کے رشتہ دار اشرف قریشی، نے ایک انڈین فرینڈشپ فوکر طیارہ ‘گنگا’ کو سرینگر ایئرپورٹ سے جموں جاتے ہوئے ہائی جیک کر لیا اور بعد میں اسے زبردستی پاکستان کے شہر لاہور لے گئے۔

ہاشم قریشی کی عمر اس وقت فقط ساڑھے 17 سال جبکہ اشرف قریشی کی عمر 19 سال تھی۔

گنگا جہاز سروس سے ریٹائر ہو چکا تھا لیکن ہائی جیکنگ کی اس واردات سے محض چند ہفتے قبل اچانک اسے دوبارہ اڑان بھرنے کی اجازت دی گئی تھی۔

طیارہ ہائی جیکنگ کی اس واردات کے پیچھے ممکنہ عوامل اور اس ہائی جیکنگ کے مستقبل پر اثرات کی تفصیل میں جانے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ہائی جیکنگ کا یہ منصوبہ کب اور کیسے بنا؟

انڈین طیارہ

طیارہ ہائی جیکنگ کا منصوبہ کب اور کس نے بنایا؟

سنہ 1968 میں جب جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین اور کشمیر کی آزادی کے لیے چلائی جانے والی مسلح تحریک کے روح رواں مقبول بھٹ کو انڈیا کے ایک افسر امر چند کے قتل کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی تو وہ جیل توڑ کر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر بھاگ آئے۔

اس واقعے کے کچھ عرصہ بعد 16سال کا ایک نوجوان ہاشم قریشی بھی اپنے قریبی رشتہ داروں کو ملنے پاکستان آیا۔

پشاور میں اپنے قیام کے دوران ہاشم قریشی کی ملاقات مقبول بھٹ سے ہوئی۔ مقبول بھٹ سے متاثر ہو کر ہاشم نے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ میں باقاعدہ شمولیت اختیار کر لی۔ اس تنظیم کا مقصد کشمیر کو پاکستان اور انڈیا دونوں سے آزاد کروانا تھا۔

اس جماعت کے پیغام کو عام کرنے کے لیے یہ نوجوان انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے سرینگر واپس چلا گیا۔ کچھ ماہ بعد یہ نوجوان سیالکوٹ کے راستے دوبارہ پاکستان آیا لیکن اس مرتبہ پاکستان میں داخل ہونے کا جو اس نے طریقہ اپنایا وہ غیر قانونی تھا جس میں معاونت خود انڈیا کی بارڈر سکیورٹی فورس (بی ایس ایف) کے ایک اہلکار نے کی، جو ہاشم قریشی کو لال چوک سرینگر میں ملا اور بارڈر پار کروانے کے بدلے میں مقبول بھٹ کے متعلق معلومات لینا چاہتا تھا۔

بی ایس ایف کی مدد سے بارڈر عبور کرنے کے بعد ہاشم قریشی مقبول بھٹ سے ملے اور آئندہ کا لائحہ عمل طے ہونے لگا۔

18 جون 1969 کو مقبول بھٹ، ہاشم قریشی اور امان اﷲ خان ڈاکٹر فاروق حیدر کے گھر راولپنڈی میں کھانے کی میز پر جمع تھے کہ اچانک ریڈیو پر خبر نشر ہوئی کہ اریٹریا کی آزادی کی جنگ لڑنے والے تین نوجوانوں نے ایتھوپیا کے مسافر طیارے پر ہینڈ گرنیڈ اور ٹائم بمبوں سے حملہ کر دیا ہے کیونکہ ایتھوپیا نے اس وقت اریٹریا پر قبضہ کیا ہوا تھا اور وہاں آزادی کی مسلح تحریک چل رہی تھی۔

وہیں بیٹھے بیٹھے مقبول بھٹ کے ذہن میں بھی یہ خیال آیا کہ انھیں بھی اپنی ‘آزادی’ کی آواز پوری دنیا میں پہنچانے کے لیے کچھ ایسا ہی منصوبہ بنانا چاہیے اور ایک طیارہ اغوا کرنا چاہیے۔

سرینگر میں موجود ہاشم قریشی نے بی بی سی کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا چونکہ اُس مجلس میں موجود چار لوگوں میں سب سے کم عمر اور نوجوان وہ تھے اس لیے مقبول بھٹ نے انھیں دیکھتے ہوئے پوچھاکہ ہاشم کیا تم یہ کر لو گے؟

‘کیوں نہیں، میں کشمیر کی آزادی کے لیے اپنی جان تک قربان کر سکتا ہوں’ ہاشم قریشی کے اس جواب پر اسے خوب داد ملی جس کے بعد طیارہ ہائی جیک کرنے کا منصوبہ ترتیب پانے لگا۔

جب منصوبہ بن گیا تو ہاشم قریشی کو طیارہ ہائی جیک کرنے کی تربیت دینے کے لیے ڈاکٹر فاروق حیدر کے برادر نسبتی جاوید منٹو کا انتخاب ہوا جو ایک سابقہ پائلٹ تھے۔

جاوید منٹو فوکر جہاز کے متعلق تمام معلومات دینے کے لیے، یعنی پائلٹ کہاں بیٹھتا ہے، کاک پٹ میں پائلٹ کو قابو کیسے کرنا ہے اور جہاز پر سوار مسافروں کو کیسے ڈیل کرنا ہے، ہاشم قریشی کو چکلالہ ایئرپورٹ راولپنڈی اپنے ساتھ لے جاتے رہے۔

اس کے علاوہ ہاشم قریشی کو ہینڈ گرنیڈ چلانے اور بم بنانے کی تربیت بھی دی گئی۔ ٹریننگ مکمل ہو جانے کے بعد منصوبے کے مطابق انھیں ایک ہینڈ گرنیڈ اور پستول کے ساتھ واپس سرینگر روانہ کر دیا گیا۔

ہاشم قریشی نے سرینگر واپسی کے لیے پھر سیالکوٹ بارڈر کا انتخاب کیا جہاں پر بی ایس ایف نے انھیں پکڑ لیا اور ان کے قبضے سے پستول اور ہینڈ گرنیڈ برآمد کر لیے۔ دوران حراست ہاشم قریشی نے بی ایس ایف اہلکاروں کو مقبول بھٹ کے منصوبے کے متعلق آگاہ کر دیا کہ اسے کس طرح پاکستان میں ایک انڈین طیارہ ہائی جیک کرنے کی تربیت دی گئی ہے اور اس مشن میں سرینگر سے دو اور لوگ بھی اس کا ساتھ دیں گے۔

ہاشم قریشی کے مطابق ‘اصل میں سرینگر واپسی کے وقت مقبول بھٹ نے بتایا تھا کہ اگر بارڈر پر پکڑا جاؤں تو انھیں اپنے مشن کے متعلق بتا دوں اور کہوں کہ میرے ساتھ دو اور لوگ بھی شامل ہیں جو سرینگر میں ہیں، اس طرح بی ایس ایس والے اسے ماریں گے نہیں بلکہ باقی لوگوں کا کھوج لگانے کے لیے اس کے ساتھ نرمی برتیں گے۔’

ہاشم قریشی

ہاشم قریشی بتاتے ہیں کہ بالکل ویسے ہی ہوا اور بی ایس ایف کے لیے کام کرنے پر آمادگی ظاہر کرنے کے بعد نہ صرف انھیں چھوڑ دیا گیا بلکہ انھیں یہ بھی بتایا گیا کہ انھیں بی ایس ایف میں بطور سب انسپکٹر بھرتی بھی کر لیا گیا۔

ان کے بقول یقیناً وہ (بی ایس ایف میں بھرتی) سب جعلی تھا لیکن بی ایس ایف نے دونوں مشتبہ ہائی جیکروں کی شناخت کے لیے انھیں سرینگر ایئر پورٹ پر تعینات بھی کیا جہاں وہ تسلسل کے ساتھ جاتے رہے اور جہاز میں سوار ہونے کے بارے میں مسلسل ریکی کرتے رہے تاکہ اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنا سکیں۔

دوسری طرف رہائی کے فوری بعد ہاشم قریشی نے اپنے دور کے رشتہ دار اشرف قریشی کو سارے منصوبے کے متعلق نہ صرف آگاہ کیا بلکہ روزانہ ورزش کے بہانے قلعہ ہاری پربت پر طیارہ ہائی جیکنگ کی تربیت بھی دیتے رہے۔

ابھی ایک اور مشکل تھی کہ چونکہ پستول اور ہینڈ گرنیڈ تو بی ایس ایف نے قبضے میں لے لیے تھے اور مقبول بھٹ سے بھی دوبارہ اسلحہ نہیں پہنچ سکا تھا اس لیے اسلحے کا انتظام کیسے کیا جائے اس کے لیے ہاشم قریشی نے ایک اور منصوبہ بنایا۔

ان دنوں سرینگر میں اخبارات میں ایک اشتہار آتا تھا کہ چور اور ڈاکوؤں سے بچنے کے لیے اصل جیسی نظر آنے والی پستول خریدیں۔

ہاشم قریشی بتاتے ہیں کہ اخبار میں اشتہار پر دیے گئے پتہ پر انھوں نے ایک پستول کا آرڈر دے دیا اور قریبی ایک دکان کا پتہ لکھوا کر وہاں منگوا لیا۔ دس بارہ دن بعد وہ نقلی پستول موصول ہوگئی جس پر جب کالا رنگ کیا گیا تو وہ ایسے ہی نظر آنے لگی جیسے اصلی ریوالور ہو۔

اب ہینڈ گرنیڈ کا کیا کیا جائے۔ اس کے لیے ہاشم قریشی نے کاغذ پر اشرف قریشی کو ہینڈ گرنیڈ کی تصاویر بنا کر دکھائیں کہ وہ کس طرح کا دکھائی دیتا ہے جس پر اشرف قریشی کہنے لگے کہ یہ تو لکڑی کے ‘بیئر مگ’ جیسا ہے، اسے ہم خود بنا لیں گے، ذرا بھی مشکل نہیں ہوگی۔

چند دنوں میں ہی لکڑی کا ہینڈ گرنیڈ بھی بن گیا اور تین سے چار مختلف رنگ ملا کر لوہے کا رنگ بن گیا جسے اس کے اوپر چڑھایا گیا تووہ بالکل اصلی ہینڈ گرنیڈ نظر آنے لگا۔

ان دنوں انڈیا کی اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی کے صاحبزادے راجیو گاندھی بھی بطور پائلٹ سرینگر آتے جاتے رہتے تھے اور کچھ ایسی اطلاعات تھیں کہ راجیو گاندھی بطور پائلٹ 30 جنوری کو سرینگر آ رہے ہیں۔

بقول ہاشم قریشی انھوں نے بھی 30 جنوری کا دن ہی ہائی جیکنگ کے لیے مختص کر لیا تاکہ اسی جہاز کو وہ ہائی جیک کریں جس کے پائلٹ راجیو گاندھی ہوں۔ وہ مزید بتاتے ہیں چونکہ بی ایس ایف ان پر مسلسل نظر رکھے ہوئے تھی اس لیے انھیں چکما دینے کے لیے جہاز میں سوار ہونے کا طریقہ یہ نکالا کہ ان کے لیے ٹکٹ اشرف نے محمد حسین کے نام سے جبکہ اشرف کے لیے ٹکٹ خود انھوں نے خریدا۔

30 جنوری 1971 کو ہفتہ کا دن تھا اور یہ دونوں نوجوان تیار ہو کر ایئرپورٹ آ گئے لیکن انھیں یہ جان کر مایوسی ہوئی کہ راجیو گاندھی کسی وجہ سے نہیں آ سکے لیکن منصوبے کے مطابق وہ دستیاب جہاز میں سوار ہوگئے۔

اشرف کے پاس ایک بریف کیس تھا جس میں نقلی ہینڈ گرنیڈ اور پستول تھی اور وہ ان چیزوں کے ساتھ بھی باآسانی جہاز میں سوار ہوگیا کیونکہ ہاشم قریشی پہلے ہی یہ ریکی کر چکے تھے کہ مسافروں کی جہاز میں سوار ہوتے وقت کوئی خاص چیکنگ نہیں ہوتی۔

جہاز تقریباً ساڑھے گیارہ بجے سرینگر ایئر پورٹ سے جموں کے لیے اڑان بھر گیا۔ چونکہ ان دنوں سرینگر اور جموں کے درمیان آدھے، پونے گھنٹے کی فلائٹ تھی اور جیسے ہی ایئرہوسٹس نے یہ اعلان کیا کہ مسافر سیٹ بیلٹ باندھ لیں جہاز تھوڑی دیر میں جموں اترنے والا ہے توہاشم قریشی تیزی سے سیٹ سے اٹھ کر کاک پٹ میں چلے گئے اور جا کر نقلی پستول بائیں طرف بیٹھے ہوئے جہاز کے کپتان کیپٹن ایم کے کاچرو کے سر پر رکھ دی اور اسے کہا کہ جہاز کو پاکستان لے چلے۔

پائلٹ اوبرائے دائیں طرف بیٹھے تھے اور وہ بالکل بھی دیکھ نہ سکے کہ پستول اصلی ہے یا نقلی۔

جہاز اب اپنی نئی منزل کی جانب مڑ چکا تھا۔

ہاشم قریشی بتاتے ہیں کہ میرے کاک پٹ میں داخل ہوتے ساتھ ہی اشرف بھی اپنی سیٹ سے اٹھے اور ہینڈ گرنیڈ ہاتھ میں تھامے کاک پٹ کے دروازے پر چلے آئے جہاں ہم دونوں کی کمر ایک دوسرے کی طرف تھی تاکہ وہ پائلٹس کو کنٹرول کر سکیں اور اشرف سارے مسافروں کو۔

ہاشم قریشی کے مطابق اشرف نے ہاتھ میں گرنیڈ تھامے سب مسافروں کو کہہ دیا کہ وہ ہاتھ اوپر کر لیں ورنہ وہ اسے چلا دیں گے۔

جہاز میں انڈین فوج کے ایک کپتان بھی بیٹھے ہوئے تھے جنھوں نے اشرف سے سوال کیا کہ یہ کون سا گرنیڈ ہے جس پر اشرف نے برجستہ کہا کہ ‘ابھی چلا کر دکھا دیتا ہوں پھر تمھیں خود ہی پتا چل جائے گا کہ کون سا ہینڈ گرنیڈ ہے جس پر وہ بھی ڈر گیا اور اس نے دوبارہ کوئی بات نہ کی۔’

‘میں جہاز کو جہلم کے اوپر سے راولپنڈی لے جانا چاہتا تھا لیکن انتہائی سرد موسم اور برف باری کی وجہ سے دریا دیکھ نہ سکا۔ میں نے پائلٹ کو کہا کہ جہاز راولپنڈی لے چلے جس پر اس نے کہا کہ پٹرول کم ہے اسے ہم لاہور تک لے جا سکتے ہیں کیونکہ وہ نزدیک ہے’ ہاشم قریشی کے مطابق وہ جہاز کو لاہور لے جانے پر مان گئے۔

ہاشم قریشی کے بقول ایک وقت آیا جب انھوں نے نیچے آبادی دیکھی تو پائلٹ سے پوچھا یہ کہاں لے جا رہے ہو تو وہ پنجابی میں کہنے لگا ‘منڈیا غصہ نہ کر میں توانوں دھوکہ نہیں دِتا، اسی لاہور ہی جاندے واں پے’ یعنی نوجوان غصہ نہ کرو تمھیں کوئی دھوکہ نہیں دیا گیا، آپ کو لاہور ہی لے کر جا رہے ہیں۔

جہاز چلتا رہا پھر کچھ دیر بعد کو پائلٹ اوبرائے نے وائرلیس پر کوڈ ورڈ کے ذریعے ایئر ٹریفک کنٹرولر کو پیغام بھیجا کہ لاہور، لاہور۔ لیکن دوسری طرف سے ایک سردار صاحب کی آواز آئی کہ نہیں یہ لاہور نہیں امرتسر ہے۔

ہاشم قریشی کہتے ہیں کہ اس چالاکی پر انھوں نے ایک زور دار تھپٹر اوبرائے کو جڑ دیا کیونکہ وہ جہاز کو دھوکے سے امرتسر لے جانا چاہ رہا تھا۔ ‘اس کے بعد میں نے اس سے واکی ٹاکی بھی چھین لی۔’

ہاشم قریشی کے بقول پھر جیسے ہی لاہور اترنے کے لیے پاکستان کے کنٹرول ٹاور سے رابطہ ہوا تو انھیں بتایا کہ ہم دو ‘کشمیری مجاہدین’ ہیں اور ہم نے انڈین جہاز کو ہائی جیک کر لیا ہے اور اس میں عملے کے علاوہ مسافر بھی ہیں اور ہمیں اترنے کی اجازت دی جائے۔

کنٹرول ٹاور نے متعلقہ حکام سے رابطے کے بعد اترنے کی اجازت دی اور جہاز تقریباً ڈیڑھ بجے دوپہر لاہور ایئر پورٹ پر اُتر گیا جہاں ہر طرف سکیورٹی کے لوگ تھے جنھوں نے جہاز کو گھیرے میں لے لیا۔

لاہور پولیس کے اس وقت کے ایس ایس پی عبدالوکیل خان اور ڈی ایس پی ناصر شاہ کے علاوہ سکیورٹی اور انتظامیہ کے دیگر لوگ بھی موقع پر پہنچ چکے تھے۔

ہاشم قریشی بتاتے ہیں کہ سکیورٹی کے لوگوں میں سے کچھ ہمارے پاس آئے جن سے انھوں نے پوچھا کہ ‘کیا یہ لاہور ہی ہے؟’ انھوں نے کہا جی ہاں یہ لاہور ہی ہے۔ ‘میں نے کہا میں کیسے مان لوں کہ آپ لوگ سچ کہہ رہے ہیں؟’

اشرف قریشی کے بقول وہ اپنے سروس کارڈ دکھانے لگے اور پاکستان کا جھنڈا بھی دکھایا۔ ‘میں نے کہا یہ سب تو جعلی بھی بن سکتا ہے جس کے بعد وہ کلمہ پڑھ کر سنانے لگے جس کے بعد ہمیں یقین ہوگیا کہ ہم لاہور ہی میں اترے ہیں۔’

ہائی جیکروں سے مطالبات پوچھے گئے تو جواب ملا کہ انھوں نے یہ سب ‘کشمیر کی آزادی’ کے لیے کیا ہے اور ان کے کچھ ساتھی جو انڈیا کی قید میں ہیں انھیں مسافروں اور جہاز کو چھوڑنے کے بدلے رہا کروانا ہے۔

اشرف قریشی کہتے ہیں کہ ‘ہمیں کہا گیا کہ عورتوں اور بچوں کو چھوڑ دیں اور باقی لوگوں کو بیشک قید میں رکھیں جس پر میں نے جواب دیا کہ نہیں سب سے پہلے ان کی بات مقبول بھٹ سے کروائی جائے۔’

‘سکیورٹی والے مجھے لاؤنج میں لے گئے مگر مقبول بھٹ سے رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا جس کے بعد میری بات ڈاکٹر فاروق حیدر سے کروائی گئی جو اس وقت راولپنڈی میں تھے۔ میں نے انھیں بتایا کہ میں ‘فیروز’ ہوں اور ہم ‘پرندہ’ لے آئے ہیں آپ لاہور آ جائیں۔’

اشرف قریشی کا کوڈ نام فیروز تھا اور آپریشن کا کوڈ نام پرندہ تھا۔

طیارے کے اندر عورتیں ڈر جبکہ بچے بھوک اور پیاس کی وجہ سے رو رہے تھے۔ ہائی جیکروں کی درخواست پر انتظامیہ نے فوری پانی مہیا کیا جو مسافروں کو دیا گیا۔ ہاشم اور اشرف نے آپس میں مشورہ کر کے لینڈنگ کے دو گھنٹے کے اندر اندر عورتوں اور بچوں کو چھوڑ دیا۔

اشرف قریشی بتاتے ہیں کہ کوئی گھنٹے، ڈیڑھ گھنٹے بعد سکیورٹی کے لوگ دوبارہ آئے اور کہا کہ ڈاکٹر فاروق حیدرنے پیغام بھیجا ہے کہ باقی مسافروں کو بھی چھوڑ دیں اور جہاز پر قبضہ جمائے رکھیں۔

‘ہم نے اُن کی بات مان لی کہ یہ تو ہم سے دھوکہ نہیں کریں گے اور شام تک سب مسافروں کو چھوڑ دیا، اب ہمارے قبضے میں صرف گنگا جہاز رہ گیا تھا۔

ہاشم قریشی کے بقول ‘تمام مسافروں کو رہا کر کے صرف جہاز پر قبضہ رکھنا یقیناً ایک بچگانہ بات تھی جس سے ہماری سودے بازی کی پوزیشن کمزور ہوئی لیکن تب ہم بھی تو بچے ہی تھے نا۔’

تمام مسافروں کو سخت سکیورٹی کے حصار میں لاہور کے ایک ہوٹل میں لے جایا گیا جہاں وہ چند دن ٹھہرے اور پھر انھیں انڈیا بھیج دیا گیا۔

رات نو بجے کے آس پاس مقبول بھٹ، جاوید ساغر، کے خورشید اور دیگر بھی لاہور پہنچ گئے۔ ہاشم قریشی بتاتے ہیں کہ ایئر پورٹ پر اس قدر لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہو چکا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دو، تین مرتبہ لاٹھی چارج کرنا پڑا تاکہ لوگوں کو جہاز سے دور دھکیلا جا سکے۔

نامور قانون دان اور گنگا طیارہ کیس میں ہاشم قریشی کے وکیل عابد حسن منٹو نے بی بی سی کو بتایا کہ 30 جنوری کی شام تک ہی طیارہ ہائی جیکنگ کی خبر لاہور سمیت پورے پاکستان میں پھیل چکی تھی اور اگلی صبح تک پاکستان کے دور دراز علاقوں اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے بھی لوگ ایئرپورٹ پہنچ چکے تھے تاکہ ان نوجوانوں کو دیکھ سکیں جو انڈیا کا جہاز ہائی جیک کر کے لاہور لائے تھے۔

بھٹو

دو فروری 1971 کو جب ذوالفقار علی بھٹو ڈھاکہ سے واپس لاہور پہنچے توانھیں بتایا گیا کہ دو کشمیری نوجوان انڈیا کا طیارہ ہائی جیک کر کے لاہور لے آئے ہیں

عابد حسن منٹو کے مطابق ان کی دلچسپی اس لیے بھی اس معاملے میں زیادہ تھی کیونکہ ڈاکٹر فاروق حیدر کا نام بھی اس ہائی جیکنگ میں آ رہا تھا جو ان کی ایک کزن کے خاوند تھے۔

ہاشم قریشی یاد کرتے ہوئے دعوی کرتے ہیں کہ 31 جنوری کو پاکستانی حکام نے جاوید ساغر اور ہمارے ایک اور ساتھی کو بھی جہاز کے اندر آنے کی اجازت دے دی تاکہ ہم اگر رات کو سو بھی جائیں تو یہ لوگ جہاز پر قبضہ جمائے رکھیں۔

ہاشم کے مطابق 31 جنوری کو ہی پاکستان کی سکیورٹی ایجنسی کے لوگ آئے اور جہاز میں موجود ڈاک (خطوط) لے کر چلے گئے۔ کیونکہ یہ فلائٹ دہلی سے سرینگر تک چلتی تھی اسی لیے انڈین فوج کی ڈاک ترسیل بھی اسی فلائٹ سے ہوتی تھی اور ہاشم کے بقول وہ شاید ڈاک پڑھنا چاہ رہے تھے۔

ہاشم کے مطابق اگلے روز یعنی یکم فروری کو پاکستانی فوج کے دو افسران ڈاک لے کر واپس آ گئے اور کہنے لگے اس کی سیلیں صحیح بند نہیں ہوئیں اور باآسانی پتا چل جائے گا کہ یہ کھولی گئیں ہیں اس لیے آپ اسے جلا دیں جس کے بعد انھوں نے ڈاک کو جلا کر کشمیری ڈش ‘وازوان’ گرم کی جسے دونوں افسران سمیت ہائی جیکروں نے کھایا۔

ہاشم قریشی کے بقول اسی روز انھوں نے دو فوجی افسروں میں سے ایک کے پیٹ پر پستول رکھ کر مذاق مذاق میں کہا کہ ‘ہینڈز اپ’ تو انھوں نے ڈر کے مارے ہاتھ کھڑے کر دیے۔ ‘بعد میں میں نے انھیں بتایا کہ یار یہ نقلی ہے۔’

فوج کے افسر یہ سن کر حیران ہوئے اور پوچھنے لگے کہ ‘کیا واقعی یہ نقلی پستول ہے۔’ ہاشم قریشی کہتے ہیں اس روز پہلی بار انھوں نے خود پاکستانی سکیورٹی اداروں کو بتایا کہ گنگا ہائی جیکنگ نقلی پستول اور ہینڈ گرنیڈ سے کی گئی تھی، اس سے پہلے سب بے خبر ہی تھے۔’

انڈین طیارہ

دو فروری کو بڑے دلچسپ واقعات ہوئے

پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو جنھیں دسمبر 1970 کے الیکشن میں مغربی پاکستان سے اکثریت ملی تھی وہ عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب جنھیں مشرقی پاکستان سے اکثریت ملی تھی سے ملنے ڈھاکہ گئے ہوئے تھے تاکہ ممکنہ انتقال اقتدار پر بات کر سکیں۔

دو فروری 1971 کو جب ذوالفقار علی بھٹو ڈھاکہ سے واپس لاہور پہنچے توانھیں بتایا گیا کہ دو کشمیری نوجوان انڈیا کا طیارہ ہائی جیک کر کے لاہور لے آئے ہیں۔

نامور سینیئرصحافی خالد حسن نے اپریل 2003 میں ‘فرائیڈے ٹائمز’ میں چھپنے والے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ وہ اس وقت ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ تھے۔

خالد حسین کی تحریر کے مطابق جب وہ (بھٹو) لاہور پہنچے تو عوام کی ایک کثیر تعداد اُن کے استقبال کے لیے موجود تھی جو بار بار انھیں ہائی جیکروں سے ملنے پر اصرار کر رہی تھی۔

خالد حسن نے لکھا کہ بھٹو نے خود اُن سے کہا ‘کہ دیکھو خالد مجھے نہیں پتا کہ یہ سب کیا ہے اور یہ کون لوگ ہیں اس لیے میں کوئی بات نہیں کروں گا’ لیکن بھیڑ نے انھیں ہائی جیکروں کی طرف دھکیل دیا جہاں وہ ان سے ملے اور ان کا حال احوال بھی پوچھا۔

دو فروری کو بانی پاکستان کے سابق پرنسپل سیکریٹری کے ایچ خورشید، جو بعد میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے صدر بھی بنے، کو لاہور ایئر پورٹ بلایا گیا جہاں مقبول بھٹ سمیت وہ ہاشم قریشی سے ملے جنھوں نے بتایا کہ انھیں کہا جا رہا ہے کہ طیارے کو آگ لگا دیں۔

ہاشم قریشی
ہاشم قریشی کے بقول پاکستان کے ہر طبقہ فکر کے لوگ ان سے ملنے ہسپتال آتے رہے اور طیارہ ہائی جیک کرنے پہ شاباش دیتے رہے

اشرف قریشی کے بقول مقبول بھٹ نے انھیں مشورہ دیا کہ جہاز کے شیشے توڑ کر نیچے آ جائیں کیونکہ اس کی مرمت کو چار، پانچ روز لگ جائیں گے اور اتنے دنوں تک اس واردات کے ذریعے پبلیسٹی ملتی رہے گی۔

جیسے ہی وہ ملاقات ختم ہوئی اور وہ لوگ باہر نکلے ایس ایس پی لاہور عبد الوکیل اور دوسرے سکیورٹی اہلکار ہاشم قریشی کے پاس دوبارہ گئے اور کہا مقبول بھٹ نے پٹرول بھیجا ہے تاکہ طیارے کو آگ لگا دیں۔

ہاشم قریشی کے مطابق انھوں نے ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں سوچا تھا کہ یہ لوگ ان سے جھوٹ بول رہے تھے اور یوں 80 گھنٹے جہاز پر قبضہ رکھنے کے بعد انھوں نے جہاز کو آگ لگا دی۔

آگ لگانے کے عمل کے دوران اشرف قریشی کے ہاتھ جل گئے کیونکہ باہر نکلنے کا دروازہ وقت پر نہیں کھلا جبکہ ہاشم قریشی نے آگ سے بچنے کے لیے حہاز سے چھلانگ لگا دی۔ دونوں زخمی ہونے اور ہسپتال میں داخل بھی رہے۔

ان 80 گھنٹوں کی ہائی جیکنگ کے دوران پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں یا انتظامیہ نے ایک بار بھی ان ہائی جیکروں کو پکڑنے کی کوشش نہیں کی گئی۔

جیسے ہی طیارے کو آگ لگانے کے بعد یہ نوجوان ایئر پورٹ سے باہر نکلے ایک جم غفیر ان کے استقبال کے لیے لاہور کی سڑکوں پر تھا۔ ہر طرف خیر مقدمی بینرز لگے ہوئے تھے اور ان نوجوانوں کا جگہ جگہ استقبال پھولوں کی پتیوں اور ان کے حق میں نعروں سے کیا گیا ۔

پیپلز پارٹی کے ایم این اے احمد رضا قصوری اور دیگر قائدین بھی مخصوص ٹرک پر سوار تھے اور ان نوجوانوں کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔

احمد رضا قصوری نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں پارٹی قیادت نے بھیجا تھا تاکہ ان ہائی جیکروں کا استقبال کیا جائے۔ ان کے بقول مال روڈ پر پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس کے سامنے اور استنبول چوک پر ایک بڑا اجتماع ہوا جس میں ہزاروں لوگ شریک تھے اور ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے اس روز سارا لاہور باہر نکل آیا تھا۔

اس اجتماع سے احمد رضا قصوری سمیت مقبول بھٹ، ہاشم قریشی اور دیگر نے خطاب بھی کیا۔

طیارہ جلانے کے عمل کے دوران چونکہ ہاشم قریشی زخمی ہوگئے تھے اس لیے انھیں سروسز ہسپتال لاہور لے جایا گیا جہاں وہ کچھ روز تک زیر علاج رہے۔ ہاشم قریشی کے بقول پاکستان کے ہر طبقہ فکر کے لوگ ان سے ملنے ہسپتال آتے رہے اور طیارہ ہائی جیک کرنے پہ شاباش دیتے رہے۔

جونہی ہاشم قریشی ہسپتال سے ڈسچارج ہوئے وہ مقبول بھٹ سمیت دیگر قائدین کے ساتھ مختلف شہروں سے ہوتے ہوئے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع میر پور کے لیے روانہ ہوئے تو راستے میں گوجرانوالہ اور راولپنڈی میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے جلوسوں کی شکل میں ان کا استقبال کیا۔ لیکن جشن کے یہ مناظر زیادہ دیر تک چلنے والے نہیں تھے۔

ہاشم قریشی

گنگا ہائی جیکنگ پاکستان کی سازش یا پاکستان کے خلاف سازش

جس وقت ہر طرف ان ہائی جیکروں کی ‘شجاعت’ کے گن گائے جا رہے تھے عین اسی دوران چار فروری 1971 کو انڈیا نے گنگاہائی جیکنگ کو بنیاد بناتے ہوئے پاکستان پر مشرقی پاکستان جانے کے لیے اپنی فضائی حدود کے استعمال پر پابندی لگا دی جو 1976 تک برقرار رہی۔

انڈیانے الزام لگایا کہ پاکستان کی مدد سے ہی اس کا طیارہ ہائی جیک ہوا جسے بعد میں لاہور میں جلا دیا گیا۔

یہ پابندی ایک ایسے وقت میں لگی جب الیکشن کے بعد حصول اقتدار مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان نہ صرف آپس میں گتھم گتھا تھے بلکہ مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک بھی زور پکڑ تی جا رہی تھی۔

واضح اکثریت کے باوجود عوامی لیگ کو اقتدار سونپا نہیں جا رہا تھا جس سے مشرقی پاکستان میں حالات خانہ جنگی کی طرف جا رہے تھے۔

ایسے حالات سے نمٹنے کے لیے مغربی پاکستان سے مسلح افواج کے جوانوں اور ان کے ساز و سامان کی ترسیل مشکل ہو چکی تھی کیونکہ فضائی حدود کے استعمال کی پابندی سے پاکستانی جہازوں کو بحر ہند کے اوپر سے ہوتے ہوئے ری فیولنگ کے لیے پہلے سری لنکا جانا پڑتا اور بعد میں وہ مشرقی پاکستان پہنچتے جس سے وقت اور سرمائے، دونوں کا ضیاع ہو تا رہا۔

گنگا ہائی جیکنگ کے متعلق انڈیا کی خفیہ ایجنسی را کے بانی ممبر اور را کے انسداد دہشت گردی ڈویژن کے سابق سربراہ بی رامن نے اپنی یاداشتوں پر مبنی کتاب ’The Kaoboys of R&AW: Down Memory Lane‘ میں کافی تفصیل سے لکھا ہے کہ مشرقی پاکستان کی مدد کے لیے جو خفیہ آپریشن کیا گیا تھا وہ گنگا ہائی جیکنگ کا منصوبہ تھا جسے کامیابی سے انجام دیا گیا تھا۔

انھوں نے لکھا کہ ‘جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے دو ممبران کے ذریعے انڈین ایئر لائن کی پرواز کے اغوا کے بدلے میں اندرا گاندھی کے انڈیا سے مشرقی پاکستان جانے والی تمام پاکستانی پروازوں پر پابندی عائد کرنے کے ڈرامائی فیصلے سے مغربی پاکستان میں پاکستانی مسلح افواج کے ہیڈ کوارٹرز کی مشرقی پاکستان میں کمک بھیجنے اور وہاں دستوں کی فراہمی برقرار رکھنے کی قابلیت کمزور ہوگئی جس سے مشرقی پاکستان میں حقیقی فتح کی راہ ہموار ہوئی۔’

سنہ 2012 میں چھپنے والی اس کتاب میں خفیہ ایجنسی کے سابق سینیئر افسر نے مزید لکھا کہ 1968 میں را کی تشکیل کے فوری بعد اس کے پہلے سربراہ رامیشور ناتھ کاؤ نے خفیہ ایجنسی کو جو دو اولین کام سونپے ان میں سے ایک پاکستان اور چین کے متعلق خفیہ معلومات اکھٹی کرنا اور دوسرا مشرقی پاکستان میں خفیہ آپریشن کرنا شامل تھے۔

ہائی جیکنگ کی اس واردات میں اس وقت ایک نیا موڑ آیا جب پاکستان پر انڈیا کی فضائی حدود کے استعمال پر پابندی کے اثرات آنا شروع ہوئے تو حکام کے کان بجنے لگے کہ گنگا ہائی جیکنگ کہیں سازش تو نہیں تھی جسے جواز بنا کر پابندی لگوانا مقصد تھا۔

اس وقت کی مارشل لا حکومت نے گنگا ہائی جیکنگ کے پیچھے چھپے محرکات کا پتہ چلانے کے لیے ایک یک رکنی کمیشن تشکیل دے دیا جس کی سربراہی سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس نور العارفین کو سونپی گئی۔

کمیشن نے چند دنوں کی انکوائری کے بعد رپورٹ میں لکھا کہ گنگا ہائی جیکنگ بنیادی طور پر انڈیا کی سازش تھی اور ہاشم قریشی انڈین ایجنٹ تھے جنھیں اس واردات کو انجام دینے کے لیے بی ایس ایف میں بھرتی بھی کیا گیا۔ کمیشن کے مطابق یہ سارا کچھ پاکستان پر پابندی لگوانے کے لیے کیا گیا تاکہ مشرقی پاکستان میں جاری شورش پر قابو پانے میں مشکلات رہیں۔

اس کمیشن کی رپورٹ کے نتیجے میں ہاشم قریشی اور اشرف قریشی جنھیں پاکستان میں چند ہفتے قبل تک ہر طرف سے داد شجاعت مل رہی تھی وہ اچانک ریاست اور ریاستی اداروں کے لیے ناپسندیدہ چہرے بن گئے جنھیں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے مقبول بھٹ، ڈاکٹر فاروق حیدر، امان اﷲ خان، جاوید ساغر اور دیگر قائدین سمیت اس سازش کے الزام میں حراست میں لے لیا گیا۔

بقول اشرف قریشی انھیں فروری کے آخری ہفتے میں حراست میں لیا گیا اور اہلکار انھیں ٹانڈا ڈیم یہ کہہ کر لے گئے کہ تھوڑی پوچھ گچھ کرنی ہے۔

اس کے بعد ہاشم قریشی کے لیے قید و بند کا وہ سلسلہ شروع ہوا جسے تھمتے تھمتے تقریبا نو سال لگے۔ ہاشم قریشی اور اشرف قریشی سمیت دیگر قائدین پر طیارہ ہائی جیک کرنے، اسے جلانے سمیت مختلف الزامات کے تحت کارروائی کا آغاز ہوا اور کیس کے ٹرائل کے لیے ایک مخصوص عدالت تشکیل دی گئی۔

اشرف قریشی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعوی کیا کہ شاہی قلعے میں دوران حراست ان پر بے پناہ مظالم ڈھائے گئے، ان پر تشدد کیا گیا اور انھیں نے دعوی کیا ایک لکھے ہوئے بیان کہ انھوں نے گنگا ہائی جیکنگ انڈین وزیر اعظم اندرا گاندھی کے کہنے پر کی تھی پر دستخط کرنے کے لیے مجبور کیا گیا۔

اشرف قریشی کے بقول تشدد کی وجہ سے انھوں نے دستخط تو کر دیے لیکن ٹرائل کورٹ میں جا کر بتا دیا کہ ان سے یہ بیان زبردستی لیا گیا۔

جب ٹرائل شروع ہوا تو انھیں کوئی وکیل نہیں مل پا رہا تھا جس کا حل نکالنے کے لیے ٹرائل کورٹ نے سینیئر قانون دان عابد حسن منٹوسمیت دیگر وکلا کو طلب کیا۔

عابد حسن منٹو بتاتے ہیں کہ وہ اپنے گھر تھے جب ایک روز انھیں رجسٹرار آفس سے فون آیا اور انھیں سپیشل کورٹ میں پیش ہونے کا کہا گیا۔

جب وہ کورٹ میں پیش ہوئے تو حیران کن طور پران کے سامنے ایک یا دو نہیں بلکہ 09 ملزمان کھڑے تھے جنھیں کہا گیا کہ وہ اپنی مرضی سے جس وکیل کی چاہیں خدمات حاصل کر لیں، جس کا انتظام ریاست کے ذمے ہوگا۔

ہاشم قریشی

عابد حسن منٹو کہتے ہیں کہ ہاشم قریشی نے ان کا انتخاب کیا اور پھر وہ سپریم کورٹ تک ہاشم قریشی کے وکیل کے طور پر پیش ہوتے رہے۔

دسمبر 1971سے مئی 1973 تک کیس کا ٹرائل چلا جہاں ٹرائل کورٹ نے تمام شہادتیں ریکارڈ کرنے کے بعد ہاشم قریشی کو ہائی جیکنگ کا مرکزی ملزم قرار دیتے ہوئے انھیں جاسوسی سمیت مختلف الزام ثابت ہونے پر مجموعی طور پر 19 سال قید کی سزا دی گئی جب کہ ان کے شریک ملزم اشرف قریشی کے علاوہ مقبول بھٹ اور دیگر کو عدالت برخاست ہونے تک کی سزا دی گئی۔

عابد حسن منٹو کے عزیز اور کیس کے ایک ملزم ڈاکٹر فاروق حیدر وعدہ معاف گواہ بن جانے کی وجہ سے سزا سے بچ نکلے۔

ہاشم قریشی اس فیصلے پر آج بھی حیران ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک جرم جو اشرف اور ان دونوں نے مل کر انجام دیا ان میں سزائیں مختلف کیسے؟

اشرف قریشی رہائی کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد وہیں شعبہ درس و تدریس سے وابستہ ہوگئے اور وہیں سے ریٹائر ہوئے جس کے بعد 2012 میں ان کی وفات ہوگئی۔

دوسری طرف ہاشم قریشی کو رہائی کے لیے ابھی مزید انتظار کرنا تھا۔ انھوں نے سزا کے خلاف اپیل دائر کی جس کا فیصلہ ہونے میں کئی سال گئے۔ سزا کے دوران ہاشم قریشی کو مختلف جیلوں میں قید رکھا گیا جن میں راولپنڈی ،کوٹ لکھپت ،کیمپ جیل میانوالی ،فیصل آباد اور اٹک جیل شامل ہیں۔

قید و بند کے دوران ہاشم قریشی کی ملاقاتیں عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب سمیت پاکستان کے اہم سیاسی کارکنوں سے بھی ہوئیں۔ہاشم قریشی بتاتے ہیں کہ یہ غالبا دسمبر 1971 کی بات ہے جب وہ میانوالی جیل میں قید تھے تو انھیں پتا چلا کہ شیخ مجیب بھی اسی جیل میں ہیں۔

‘شیخ مجیب میرے ساتھ والی بیرک میں تھے جہاں درمیان میں ایک اونچی سی دیوار تھی۔ میں ایک روز کسی بھی طرح دیوار پر چڑھ گیا اور دیکھا کہ دوسری طرف شیخ مجیب ایک برآمدے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے انہیں کہا، شیخ صاحب! سلام، وہ ادھر ادھر دیکھنے لگے کہ کون ہے اور جب ان کی نظر دیوار پر پڑی تو کہنے لگے کہ بھئی تم کون ہو؟’

ہاشم قریشی کے بقول انھوں نے بتایا کہ وہ ہاشم قریشی ہیں جنھوں نے انڈیا کا گنگا طیارہ ہائی جیک کیا تھا یہ سن کر شیخ مجیب کہنے لگے ‘اچھا وہ تم ہو۔’

ہاشم قریشی کے بقول شیخ مجیب صحن کی طرف اشارہ کر کے ان سے کہنے لگے کہ ‘دیکھو یار انھوں نے وہاں ایک گڑھا کھود رکھا ہے اور یہ لوگ مجھے مار کر یہیں دفنا دیں گے جس پر میں نے شیخ صاحب کو تسلی دی کی کہ ایسا نہیں ہوگا آپ کی قوم آپ کے لیے لڑ رہی ہے۔

اتنی دیر میں جیل حکام آ گئے اور زبردستی مجھے نیچے اتار لیا۔’ جس کے بعد ان سے دوبارہ ملاقات نہیں ہوئی کیونکہ انھیں بعد میں راولپنڈی جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔

مئی 1980 میں سپریم کورٹ کے تین رکنی فل بینچ جن میں جسٹس نسیم حسن شاہ، جسٹس کرم علی اور جسٹس ریاض شامل تھے انھوں نے ہاشم قریشی کے حق میں فیصلہ دیا جس کے بعد انھیں رہائی ملی۔

رہائی کے بعد وہ کچھ سال مزید پاکستان میں رہے لیکن بعد میں بیرون ملک چلے گئے جہاں انھوں نے ہالینڈ میں مستقل سکونت اختیار کی اور سنہ 2000 میں سرینگر واپس آتے ہوئے نئی دہلی میں گرفتار کر لیے گئے۔

گرفتاری کے بعد انڈین حکام نے بھی ان پر پاکستانی ایجنٹ ہونے اور گنگا ہائی جیکنگ کا مقدمہ دائر کر دیا جس کا فیصلہ گذشتہ 20 سال گزرنے کے باوجود بھی نہیں ہو پایا جبکہ وہ اس کیس میں اب بھی ضمانت پر ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ اس کیس میں پہلے ہی پاکستان میں سزا بھگت چکے ہیں اور عالمی قوانین کے تحت ایک ہی کیس میں دو مرتبہ سزا نہیں ہو سکتی اس لیے انڈیا اس کیس کے فیصلے میں مسلسل تاخیر کررہا ہے۔

ہاشم قریشی

ہاشم قریشی کہتے ہیں کہ وہ شاید واحد شخص ہوں گے جن پر انڈیا پاکستان کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگاتا ہے اور پاکستان انڈین ایجنٹ ہونے کا۔ ہاشم قریشی کے بقول ‘یہ [ایجنٹ یا ڈبل ایجنٹ ہونے کے] الزامات بڑا مضخکہ خیز ہیں۔’

وہ مزید کہتے ہیں کہ انھوں نے گنگا ہائی جیکنگ خالصتاً کشمیر کی دونوں ممالک سے آزادی کی تحریک کے لیے کی تھی اور وہ کسی بھی ملک کے ایجنٹ نہیں رہے۔

ہاشم قریشی کہتے ہیں کہ انھوں نے تو دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے لیے کام نہیں کیا ‘لیکن آپ یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ میں نے دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال ضرور کیا۔’

بی رامن کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے ہاشم قریشی کہتے ہیں کہ وہ پاکستانی یا انڈین ایجنٹ ہونے کا سن سن کر تھک گئے ہیں۔ ان کے بقول انھوں نے بی رامن کی کتاب نہیں پڑھی لیکن اس سے ملتی جلتی کتاب لکھنے والے را کے ایک سابق جاسوس کے خلاف انھوں نے کیس ضرور دائر کیا ہوا ہے۔

ان کے بقول اگر انھوں نے بنگلہ دیش کی آزادی کے لیے ایسا کچھ کیا ہوتا تو انھیں فخر ضرور ہوتا اور وہ آج بنگالیوں کے ہیرو ہوتے۔ ہاشم قریشی یہ بات بھی مانتے ہیں کہ ایسی پر تشدد کارروائی کسی بھی طور جائز نہیں تھی اور انھیں اس بات کا آج افسوس ہے۔

عابد حسن منٹو نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ نہیں کہہ سکتے کہ ہاشم قریشی ایجنٹ تھے یا ڈبل ایجنٹ لیکن گنگا ہائی جیکنگ سے پاکستان کو بہت نقصان ہوا اور مشرقی پاکستان میں جاری علیحدگی کی تحریک پر اس کے نمایاں اثرات پڑے۔

عابد حسن منٹو کے بقول انڈیا اور پاکستان دونوں اس ہائی جیکنگ سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے لیکن اصل میں فائدہ انڈیا نے ہی اٹھایا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر نارکوٹکس کنٹرول بریگیڈیئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ گنگا ہائی جیکنگ کے واقعہ کو یاد کر کے ہنس پڑے اور کہا کہ وہ بڑا ہی افسوس ناک واقعہ تھا جس میں انڈیا کی را سمیت جس ایجنسی نے بھی وہ منصوبہ بنایا تھا وہ اسے عملی جامہ پہنانے میں پوری طرح کامیاب رہے۔

ماضی میں اعجاز شاہ آئی ایس آئی پنجاب اور آئی بی کے سربراہ بھی رہے ہیں۔

اعجاز شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں وہ دن آج بھی یاد ہے کیونکہ وہ اس وقت بطور لیفٹیننٹ مقبول پور سیلینٹ تعینات تھے اور گنگا ہائی جیکنگ کے بعد ان کو بارڈر پر بھیج دیا گیا۔

ان کے بقول مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں افواج کی حرکت گنگا ہائی جیکنگ کے بعد ہی شروع ہوئی تھی۔

اعجاز شاہ کے مطابق گنگا ہائی جیکنگ سازش میں انڈیا پوری طرح کامیاب ہوا جس کے بعد اس نے مشرقی پاکستان کے لیے ہماری فلائٹس پر پابندی لگا دی جس سے افواج کی موومنٹ بری طرح متاثر ہوئی جس سے مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں جاری تحریک سے نمٹنے میں مشکلات پیش آئیں۔

اس سوال پر کہ کیا گنگا ہائی جیکنگ پاکستان کے خفیہ اداروں کی ناکامی کی وجہ سے کامیاب ہوئی تھی اعجاز شاہ کہتے ہیں کہ وہ اتنے سالوں بعد اب اس پہ کیا کہیں کہ کس کی ناکامی تھی یا نہیں لیکن اس [ہائی جیکنگ] کا ہمیں نقصان بہت ہوا۔

یاد رہے کہ انڈین پابندی کے کچھ ہفتوں بعد یعنی مارچ 1971 میں عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمٰن نے آزاد بنگلہ دیش کے لیے آواز بلند کی جس کا جواب پاکستانی افواج نے مشرقی پاکستان میں آپریشن ‘سرچ لائٹ’ شروع کر کے دیا۔

26 مارچ کو شیخ مجیب گرفتار کر لیے گئے جبکہ اسی روز میجر ضیا الرحمٰن نے شیخ مجیب کی طرف سے بنگلہ دیش کی آزادی کے اعلامیے کا اعلان ریڈیو کے ذریعے کر دیا۔

21 نومبر 1971 کو مکتی باہنی کے نام سے بنگلہ دیش اور انڈیا کی مشترکہ فورس کا قیام عمل میں آیا جبکہ 3 دسمبر 1971 کو انڈیا اور پاکستان کے درمیان باقاعدہ جنگ شروع ہوگئی۔

چھ دسمبر کو انڈیا وہ پہلا ملک بنا جس نے بنگلہ دیش کو ایک آزاد ملک تسلیم کیا اور پھر 16 دسمبر 1971 کو وہ دن آیا جب ڈھاکہ میں پاکستانی افواج نے انڈیں افواج کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور بنگلہ دیش ایک الگ ملک کے طور پر عالمی دنیا کے نقشے پر ابھر آیا۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32501 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp