روشنی کب آتی ہے؟


کہتے ہیں کہ ایک بار حضرت نصیر الدین چراغ دہلوی نے اپنے حلقہ ارادت میں بیٹھے ہوئے مریدوں سے پوچھا روشنی کب آتی ہے؟ ایک مرید نے بڑے ادب سے جواب دیا : حضرت ”جب سفید اور سیاہ دھاگے میں فرق نظر آنے لگے یہی روشنی ہے“ دوسرے مرید نے عرض کی ”حضور جب دور کے درختوں کو دیکھ کر معلوم ہو جائے کہ بیری کا درخت کون سا ہے اور شیشم کا درخت کون سا تو سمجھیے یہ روشنی ہے۔

مرشد نے یہ جواب سن کر دیگر حاضرین کی طرف نظر دوڑائی، کسی اور کے پاس کہنے کو مزید کچھ نہ تھا، اس پر مرشد نے ارشاد کیا جب تم ضرورت مند کے چہرے پر اس کی ضرورت پڑھ سکو تو جان لو کہ روشنی آ چکی ہے۔

اگر روشنی کا یہی معیار ہے تو ہماری حکمران اشرافیہ کی آنکھوں کے اندھیرے کب دور ہوں گے۔ اقتدار کے ایوانوں کے خوابیدہ محلات کی نیم روشن خواب گاہوں میں مکمل روشنی کب ہو گی۔ کب اتنا اجالا ہو گا کہ مسند نشین حاکم کی آنکھیں بائیس کروڑ ضرورت مندوں کے چہروں پر ان کی ضروریات کو پڑھ سکیں گی۔ کوئی ان محلات کے مشعل برداروں سے کہے کہ اپنی مشعلوں کی لو کو ذرا اونچا کریں تاکہ کچھ روشنی ہو ، کسی کو کچھ دکھائی دے۔ زیادہ روشنی درکار نہیں ہے ، بس اتنی ہی روشنی چاہیے کہ ظل الہیٰ کو چہروں پر لکھی ضرورتیں نہ سہی کم سے کم انسانی چہرے ہی دکھائی دینے لگ جائیں۔ بدنصیبی کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے عوام کے لیے اتنا بھی بہت ہے۔

یہی تسلی یہی دلاسہ بھی بہت ہے کہ ان کا ناخدا ان کو دیکھ سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی دن میرے حاکم کے دل میں رحم آ جائے اور وہ ان چہروں کو غور سے دیکھ لے اور شاید وہ ان چہروں پر لکھی ہوئی ضرورتیں بھی پڑھ لے۔ عصر حاضر میں اقتدار کو آسمانوں کا تحفہ سمجھنے والے جب تک صاحب خود کو نائب خداوند سمجھتے رہیں گے یہی کچھ ہوتا رہے گا۔ کسی بھی صاحب مسند کو کچھ نظر نہیں آئے گا۔ چاہے جتنی بھی روشنی کرلو بدنصیب چہروں کی ضرورتوں کو پڑھنے کے لیے یہ روشنی ناکافی ہو گی۔ کیونکہ یہ تو لفظی ریاست مدینہ ہے۔ حقیقی ریاست مدینہ میں تو ایک عام شخص کھڑا ہو کر خلیفہ کی پہنی ہوئی قمیض پر سوال اٹھاتا تھا کہ مال غنیمت کے کپڑے سے میری قمیض تو نہیں بن سکی ، آپ کی کیسے بن گئی اور خلیفہ اس پر جوابدہ ہوتا تھا۔

یہ روشنی کوئی مذہبی معاملہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ روشنی یہ اجالا بلا رنگ و نسل اور مذہب کے انسانی شعور کا معاملہ ہے۔ جس وقت برصغیر کا ایک بادشاہ اپنی محبوب ملکہ کی دوران زچگی وفات پر تاج محل تعمیر کرا رہا تھا، اسی عہد میں یورپ کا ایک بادشاہ اپنی ملکہ کی دوران زچگی وفات کی وجوہات تلاش کر رہا تھا۔ یہ تھا شعور کا فرق کہ ایک بادشاہ نے بے فائدہ اور بے مصرف تاج محل تعمیر کیا اور دوسرے نے زچگی کے بہتر طریقہ کے لیے نرسوں کی تربیت کا ادارہ قائم کیا، ہسپتال بنائے۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ تاج محل بننے والے برصغیر میں (گو کہ اب یہ خطہ کئی ملکوں میں تقسیم ہو چکا ہے) انسان قابل علاج بیماریوں کے باوجود مر رہے ہیں جبکہ یورپ میں انسانوں کو بہترین علاج دستیاب ہے۔

حاکم وقت سے شکوے کی تاریخ بھی کم وبیش اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ انسانی تاریخ پرانی ہے۔ کیا یہ ضروری ہے کہ روشنی صرف محلات میں ہو اور حاکم وقت کو ہی انسانی چہروں پر ضرورت نظر آ سکے۔ اتنی روشنی کیوں نہ ہو کہ انسان ایک دوسرے کے چہروں پر لکھی ضرورتوں کو پڑھ سکیں۔ ایک دوسرے کی تکالیف کا اندازہ کر سکیں۔ اور کچھ نہیں تو اتنا تو اجالا ہو کہ جب آئینہ دیکھیں تو اپنے چہرے کو ہی ٹھیک طرح سے دیکھ سکیں اور ضرورتوں کا اندازہ کر سکیں۔ جس دن اتنی روشنی ہو گئی کہ ہم ایک دوسرے کے چہروں کو غور سے دیکھ سکیں گے اور ان پر لکھی ہوئی ضرورتوں کو سمجھ سکیں گے تو شاید محلات اور ایوان اقتدار کے اندر بھی روشنی بڑھ جائے گی۔

اس لیے پہلے ہمیں خود محرومی، پسماندگی اور جہالت کے اندھیروں سے نکلنا ہو گا۔ اپنے حق کے لیے بولنا ہو گا اور اس کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا ہو گی۔ ہر اس نقش کہن کو مٹانا ہو گا جو تاج محل کی طرح ہمارے اعصاب پر سوار ہے۔ زرخیز زمینوں، میٹھے پانی کے دریاوں اور بہترین موسموں کے باوجود اگر ہم بھوک اور افلاس کا شکار ہیں تو یہ کسی اور کا نہیں ، ہمارا اپنا قصور ہے۔ ذاتی مفادات کی خاطر ہر بیرونی حملہ آور کو خوش آمدید کہنے کی روایت اب ترک کرنی ہو گی۔ اپنے فیصلے خود کرنے ہوں گے ، ہمیں خود روشنی کرنا ہو گی۔ ظلم اور جبر کے اندھیرے جتنے گہرے ہوں فرق نہیں پڑتا۔ پو پھٹے گی اور ضرور روشنی ہو گی۔

رہی بات مسند نشین حاکم کی تو سمجھنے کی ضرورت ہے ، تھوڑا سا تاریخ کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ بہترین مثال نہ سہی مگر سمجھانے کی خاطر ضروری ہے کہ دیکھا جائے کہ مغل سلطنت کے بانی اکبر اعظم کی جدوجہد سے حاصل کی گئی حکومت اور اسی کے جانشین محمد شاہ رنگیلا کی تخت نشینی اور طرز حکمرانی میں زمین اور آسمان کا فرق تھا۔ تقسیم کے وقت بننے والے ملک کے بانی کے جذبے اور حالیہ سیاسی عہد کے مسند نشین کی طرز حکمرانی میں دن اور رات جیسا فرق ہے۔ سوچ کا فرق ہے عمل کا فرق ہے۔

یاد رہے کہ جب تک حاشیہ برداروں، مفاد پرست درباریوں اور سپہ سالاروں کی پشت پناہی سے رنگیلے برسراقتدار آتے رہیں گے حالات نہیں بدلیں گے ، روشنی نہیں ہو گی ، کبھی اجالا نہیں ہو گا۔ حالات کی تلخیاں اور سختیاں کالک بن کر ہمارے چہروں کو سیاہ کر دیں گی اور بدنصیبی کی اماؤس راتوں میں ہمارے یہ کالے چہرے کسی کو نظر نہیں آئیں گے ، چاہے کوئی جتنی ہی روشنی کر لے ، چاہے مشعل کی لو کتنی ہی اونچی کر لے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).