میوزک انڈسٹری کے ’گندے راز‘: زبان بند رکھنے کے لیے ہزاروں پاؤنڈ کی پیشکش


خواتین کے لیے میوزک انڈسٹری کتنی محفوظ ہے؟ بی بی سی تھری کی ایک ڈاکومینٹری میں اس بات کا جائزہ لیا جا رہا ہے کہ یہ صنعت جنسی تشدد جیسے الزامات کے جواب میں کیا کرتی ہے۔ اس حوالے سے بی بی سی نے مشہور ریپر اوکٹیوئن کی سابقہ گرل فرینڈ سے بات کی۔ (انتباہ: اس مضمون میں جنسی تشدد کے واقعات کی تفصیل شامل ہے۔)

’اس نے مجھے ٹھوکر ماری اور دروازے میں پٹخ دیا۔’

میرا ہونٹ پھٹ گیا اور مجھے کئی زخم آئے۔’

23 سالہ ہانا لندن کی رہائشی ہیں اور بی بی سی کے 2019 کے ساؤنڈ آف میوزک نامی مقابلے میں پہلے نمبر پر آنے والے ریپر اوکٹیوئن کی سابقہ گرل فرینڈ ہیں۔

اوکٹیوئن بڑے بڑے بین الاقوامی فنکاروں کے ساتھ کام کر چکے ہیں اور ان کی نئی میوزک ایلبم ’ایلفا’ کو نومبر میں ریلیز ہونا تھا جس کا انتظار شائقین بڑے عرصے سے کر رہے تھے۔ ہانا نے اپنے سابق بوائے فرینڈ پر تشدد کے الزامات انسٹا گرام پر شائع کیے تھے اور اب وہ بی بی سی تھری کی ایک دستاویزی فلم میں سامنے آ رہی ہیں۔

’میوزک کے گندے راز’ کے عنوان سے بننے والی اس ڈاکومینٹری میں یہ دکھایا جا رہا ہے کہ میوزک انڈسٹری میں خواتین سے زیادتی کے الزامات کو کیسے ڈیل کیا جاتا ہے۔ ہانا کا کہنا ہے کہ کچھ لوگوں نے کوشش کی کہ وہ خاموش ہی رہیں اور اس حوالے سے کوئی بات نہ کریں۔

ہانا نے یہ الزامات انسٹاگرام پر 11 نومبر کو شیئر کیے تھے کیونکہ اوکٹیوئن کی نئی البم اگلے ہی دن ریلیز ہونا تھی۔ چنانچہ اس کا اثر یہ ہوا کہ میوزک کمپنی ’بیلک بٹّر ریکارڈ’ نے اوکٹیوئن کے ساتھ کام کرنا چھوڑ دیا۔ کمپنی کا کہنا تھا کہ وہ کسی بھی قسم کے گھریلو تشدد کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔

اوکٹیوئن تشدد کے الزامات سے انکار کرتے ہیں اور ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے ہانا پر تشدد نھیں کیا اور نہ ہی کوئی زور زبردستی کی ہے۔’

’اس نے مجھے فرش پر دھکا دیا’

ہانا کی ملاقات اوکٹیوئن سے سنہ 2017 میں ایک ہاؤس پارٹی میں اس وقت ہوئی تھی جب وہ نئی نئی ایڈنبرا سے لندن منتقل ہوئی تھیں۔

کچھ ہی عرصہ بعد اس جوڑے نے اکھٹا رہنا شروع کر دیا لیکن ان کے رشتے میں جلد ہی زہر گھُل گیا۔ پھر 2019 کی گرمیوں میں ہانا حاملہ ہو گئیں اور ان کا الزام ہے کہ حمل ضائع کرانے کے فوراً بعد ہی زیادتی اور تشدد کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

’میں صرف یہ چاہتی تھی کہ وہ مجھے گلے لگائے تاکہ مجھے یہ احساس ہو کہ میں نے کوئی بہت بُرا کام نہیں کیا، لیکن اس نے مجھے دھکا دے کر فرش پر گرا دیا، مجھے میرے منہ سے پکڑا اور پیچھے دھکیل دیا۔’

ہانا کے بقول اوکٹیوئن نے انھیں ٹھوکر ماری اور پیچھے دھکیلا، جس کے نتیجے میں وہ دروازے پر جا گریں۔

ہانا نے اس واقعہ کی اطلاع پولیس کو دے دی اور اوکٹیوئن کو بھی بتا دیا کہ ان کے ساتھ جو ہوا، وہ اسے سوشل میڈیا پر شائع کر دیں گی۔

لیکن انھیں جلد ہی اوکٹیوئن کے وکیل کی جانب سے ایک معاہدے کا مسودہ ملا جسے زبان بندی کا معاہدہ یا نان ڈِسکلوژر ایگریمنٹ کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ تھا کہ ان دونوں کے رشتے میں جو کچھ ہوا، ہانا اس کے بارے میں کسی سے بات نھیں کریں گی۔

’وہ لوگ مجھے اپنی زبان بند رکھنے کے عوض 20 ہزار پاؤنڈ کی پیشکش کر رہے تھے۔’

معاہدے میں لکھا تھا کہ تم کبھی کسی اشاعتی ادارے کو نھیں بتاؤں گی، کبھی کسی دوست کو نھیں بتاؤ گی، کبھی بھی اوکٹیوئن یا اس کے کیریئر کے بارے میں بات نھیں کرو گی، اور کسی قسم کی کوئی بات نھیں کرو گی۔

تمام تصویریں ضائع کر دو گی، تمام ثبوت، تمام ویڈیوز۔ تم ایسے ظاہر کرو گی کہ جیسے کسی چیز کا کوئی وجود ہی نھیں تھا۔’

ہانا نے اس دستاویز پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔

اس نے کہا میں بدل جاؤں گا، اور میں دھوکے میں آ گئی’

اس مبینہ حملے کے بعد ہانا اور اوکٹیوئن دوبارہ اکٹھے رہنے لگے۔ لیکن ہانا کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ زیادتی جاری رہی۔ اور پھر جون 2020 میں، جب اسقاط حمل اور تشدد کے پہلے واقعے کو ایک سال گزر چکا تھا تو ہانا نے ایک وکیل کی خدمات حاصل کر لیں تاکہ وہ اوکٹیوئن پر ہرجانے کا دعویٰ کر دے۔

اس خط کی ایک نقل بلیک بٹّر کمپنی کے سربراہ کو بھی بھیج دی گئی۔

اس خط میں مبینہ تشدد کی تفصیلات شامل تھیں اور ہانا نے یہ بھی لکھا تھا کہ ان کے پاس ان کو لگنے والے زخموں کی تصاویر اور ویڈیوز بھی موجود ہیں۔

اس پر اوکٹیوئن نے ہانا سے رابطہ کیا۔

انھوں نے کہا کہ وہ اپنا نفسیاتی علاج کرا رہے ہیں اور اپنے غصے پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے جواب میں ہانا نے وہ قانونی خط واپس لے لیا جو ان کے وکیل نے بھیجا تھا۔

اس کے بعد ’وہ بہت نرم، مخلص اور ہمدرد ہو گیا۔ میں نھیں جانتی وہ اتنی اچھی اداکاری کیسے کر لیتا ہے۔ مجھے یہ باتیں اتنی حقیقت لگیں کہ میں اس کے دھوکے میں آ گئی کہ وہ واقعی بدل جائے گا۔` ہانا کو امید ہو گئی کہ وہ واقعی تبدیل ہو چکا ہے، لیکن ایک ہی ماہ بعد جولائی 2020 میں ہانا نے ہمیشہ کے لیے یہ رشتہ ختم کر دیا۔

لگتا ہے کہ اس وقت تک اوکٹیوئن اور ان کے ساتھیوں کو معلوم ہو چکا تھا کہ ہانا کے پاس ویڈیوز اور تصاویر موجود ہیں، اور پھر ستمبر تک انھوں نے بھی اپنی کوششیں ترک کر دیں۔

ہانا کو محسوس ہوا کہ کوئی شخص ان کی مدد نھیں کر رہا۔ چانچہ انھوں نے 11 نومبر کو تشدد اور زیادتی کی ویڈیوز اور تصویریں انسٹاگرام پر شائع کر دیں۔

اور اگلے ہی دن کمپنی نے اوکٹیوئن کے ساتھ کام کرنا چھوڑ دیا۔

اوکٹیوئن نے بی بی سی سے کہا کہ ’میں ہانا کے الزامات سے مکمل انکار کرتا ہوں، جو کہ بات کا بتنگڑ بنانے کے مترادف ہیں۔ اس نے جو کچھ کہا ہے، اس میں سے اکثر پہلے ہی شائع ہو چکا ہے، اسے توڑ مروڑ کے پیش کیا جا چکا ہے۔ یہ بالکل بھی حقیقت پر مبنی نھیں ہے۔ میں میڈیا کے ہاتھوں اپنا ٹرائل نھیں ہونے دوں گا، تاہم میں اپنی یہ بات دہرانا چاہتا ہوں کہ میں نے ہانا کے ساتھ کوئی زیادتی یا تشدد نہیں کیا اور نہ ہی میں خواتین کے خلاف کوئی بُرے جذبات رکھتا ہوں۔’

ہانا اور اوکٹیوئن دونوں نے اپنے اپنے بیان پولیس کو دے دیے ہیں اور اس معاملے کی تفتیش جاری ہے۔

میوزک

’ریپ کے بعد میرا کام مانند پڑ گیا ہے’

بدقسمتی سے زیادتی کے الزامات لگانے والی ہانا اکیلی خاتون نھیں ہیں۔ کئی خواتین نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ میوزک انڈسٹری جنسی حملوں کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے۔

درجنوں خواتین نے بتایا کہ انھیں اس انڈسٹری میں ہر مقام پر جنسی حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ خواتین کے بقول فنکاروں، مینیجروں، انجنیئروں سے لے کر پروڈیوسروں اور بڑے افسران سب ہی اس میں ملوث ہیں۔

بی بی سی کی ڈاکومینٹری میں امریکی ریاست میامی میں مقیم کرسٹین نائٹ کا ایک انٹرویو بھی شامل ہے۔

وہ خود ڈی جے ہیں اور ان کا کہنا تھا کہ ایک دوسرے ڈی جے اور موسیقار ایرک موریلو دونوں نے ان کو ریپ کیا تھا۔ ’میں جب ایرک کے گھر پہنچی تو ان دونوں نے جلد ہی میرے ساتھ دست درازی شروع کر دی۔ میں نے کہا کہ مجھے یہ اچھا نھیں لگ رہا۔ صورت حال اتنی خراب ہو گئی کہ میں اس کے گھر سے نکل آئی۔’

کرسٹین کے مطابق ایرک نے اس بات پر معذرت کر لی اور انھیں قائل کر لیا کہ وہ واپس ان کے گھر آ جائیں۔ کرسٹین کہتی ہیں کہ انھوں نے ایسا ہی کیا کیونکہ انھیں یہ بھی ڈر تھا کہ اتنے مشہور آرٹسٹ سے تعلقات خراب کرنا اچھی بات نھیں ہے کیونکہ ہر کوئی ایرک کی اتنی عزت کرتا ہے۔

کرسٹین کہتی ہیں کہ ایرک کے گھر پر پہنچنے کے تھوڑی دیر بعد انھیں غنودگی ہونے لگی اور وہ سو گئیں۔ ’جب میری آنکھ کھلی تو میں ہڑبڑا کے اٹھی، مجھے لگا کہ میں تو برہنہ ہوں۔ اسی غنودگی میں میری آنکھوں کے سامنے یہ منظر گھومنے لگا جیسے ایرک مجھے ریپ کر رہا ہو۔’

کرسٹین یہ خیال آتے ہی گھبرا کے اٹھیں اور سیدھی پولیس کے پاس پہنچ گئیں۔ ایرک موریلو کے خلاف ریپ کا مقدمہ درج ہو گیا اور یہ بڑی خبر بن گئی۔

لیکن اس سے پہلے کہ ایرک کے خلاف عدالتی کارروائی کا آغاز ہوتا وہ اپنے گھر میں مردہ حالت میں ملے۔ انھوں نے بہت زیادہ مقدار میں بے ہوشی کی دوا کیٹامائن کھا لی تھی۔ جس دن ان کی موت ہوئی اس کے تین دن بعد ایرک کو عدالت میں پیش ہونا تھا۔

کرسٹین کہتی ہیں کہ پولیس نے ایرک پر فرد جرم عائد کر دیا تھا لیکن اس کے باوجود میوزک انڈسٹری میں کسی نے کرسٹین کا ساتھ نہ دیا۔ ان کا نام لِیک کر دیا گیا کہ ایرک پر الزام کرسٹین نے لگایا تھا۔ اس کے بعد سے کرسٹین کا کام بھی متاثر ہونے لگا۔

’فوراً ہی میری بُکنگز میں کمی ہونا شروع ہو گئی۔ یہاں تک کہ میں نے فیصلہ کر لیا کہ ڈی جے کی ذمہ داریوں سے لمبے عرصے کی چھٹی پر چلی جاؤں۔’

ایرک کی موت کے بعد جہاں انٹرنیٹ پر بہت سے لوگوں نے انھیں خراج تحسین پیش کیا، وہاں کئی لوگوں نے ایرک کی زندگی کے سیاہ پہلوؤں سے بھی پردہ اٹھایا۔ اس کے بعد مزید ایسی خواتین بھی سامنے آئیں اور انھوں نے کہا کہ ایرک موریلو کے جنسی حملوں کی تاریخ بہت طویل تھی۔

’کوئی اثر نھیں پڑتا’

میوزک انڈسٹری کی یونین نے 2019 میں ایک سروے کیا تھا، جس کے مطابق کہ ان ہر دس خواتین میں سے نو نے، جن کا کہنا تھا کہ وہ جنسی حملوں کا شکار ہوئی ہیں، پولیس کو اس بارے میں کچھ نھیں بتایا۔

ہانا اور کرسٹین نے تو اپنے الزات کا اظہار کھلے عام کیا، لیکن ایسی بہت سی خواتین ہیں جو اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈرتی ہیں۔

یہ بات سچ ہے کہ خواتین کو ملازمت ختم ہو جانے کے خوف کے علاوہ یہ خوف بھی ہوتا ہے کہ ان کی بات کو کوئی اہمیت نھیں دی جائے گی۔ اور پھر انھیں قانونی طور پر مجبور کر دیا جائے گا کہ وہ اپنی زبان بند رکھیں۔

حقوقِ نسواں کی معروف وکیل گلوریا ایلرڈ آج کل ان خواتین کے مقدمات لڑ رہی ہیں جو آر کیلی، ہاروی وائنسٹین اور جیفری ایپسٹین کے ہاتھوں جنسی تشدد کا نشانہ بنیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فلم اور میوزک انڈسٹری میں خواتین کے مقابلے میں مردوں کے ہاتھ میں طاقت بہت زیادہ ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ خواتین کو نشانہ بنانے والا یہ رویہ جاری رہے گا۔

گلوریا ایلڑ کے بقول ’یہ خوف اتنا زیادہ ہے کہ متاثرہ خواتین کو ڈر لگتا ہے کہ اگر وہ زبان کھولیں گی تو انھیں بُرے نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

جب تک کوئی متاثرہ خاتون کچھ نھیں کرتی، اس وقت تک کچھ بھی تبدیل نھیں ہوگا۔ جب کوئی مشہور شخصیت عورتوں سے زیادتی کرتی رہتی ہے اور اسے کسی برے انجام کا سامنا نھیں کرنا پڑتا، تو ان لوگوں کے اس خیال کو مزید تقویت ملتی ہے کہ وہ اپنی حرکتیں جاری رکھ سکتے ہیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp