کچھ کرپشن اور حکومتی بندوبست کے بارے میں


حافظ سلمان بٹ رخصت ہو گئے۔ اٹل نظریاتی شخص تھے اور نہایت قابل قدر سیاسی شہری۔ ہمارے قبیلے نے پنجاب پولیس کے ایک دیانت دار افسر خواجہ طفیل کے بیٹے حافظ سلمان بٹ سے شدید مخاصمت میں آنکھ کھولی۔ 25 فروری 1985ءکی رات ابھی آنکھ میں زندہ ہے۔ حافظ سلمان جماعت اسلامی کے امیدوار تھے اور غیر جماعتی انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ لاہور کی دیو سماج روڈ پر شیراز ہاسٹل کے باہر اپنے مداحوں میں گھرے تھے۔ درویش ایک مخالف سیاسی کارکن تھا اور مطالعاتی آنکھ سے یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ قمقموں کی روشنی میں حافظ صاحب کا چہرہ کامیابی کی ضو دیتا تھا۔ حافظ سلمان بٹ کی یہ جھلک بہت بعد کے برسوں میں شفقت اور نیاز مندی کے رشتے میں ڈھل گئی۔ ایک شام درویش اور برادرم آصف بٹ حافظ صاحب کو دائیں اور بائیں حصار میں لئے بیٹھے تھے۔ عزیز دوست انیق ناجی میزبان تھے۔ حافظ صاحب کی بصارت بہت کمزور ہو چلی تھی لیکن بصیرت کی لو بدستور بلند تھی۔ کیمرے والے صاحب کو دیکھ کر کسی دوست نے شرب الیہود کا اشارہ کیا۔ میں نے ہنس کے کہا اب تو حافظ صاحب بھی روادار ہو چلے ہیں۔ حافظ سلمان مسکرا دیے۔ ان کی مسکراہٹ میں ایسی نرمی تھی کہ ایک لحظے کے لئے شائبہ ہوا کہ پنجاب یونیورسٹی کے معرکے محض داستان آرائی ہیں۔ مجھے ادراک نہیں ہوا کہ نظریاتی رستاخیز فرد کے ذاتی تشخص کو مغلوب کر لیتی ہے۔ لینن اور چائو این لائی ذاتی زندگی میں نہایت مہذب انسان تھے۔ جمہوریت کا مشمولہ (Inclusive) عنصر وہ قیمتی زاویہ ہے جو عداوت کو اختلاف کے قابل قبول دائرے میں لاتا ہے۔ اللہ حافظ سلمان بٹ کی مغفرت فرمائے اور ہماری آنے والی نسلوں کو یہ سیاسی شعور نصیب ہو کہ اختلاف رائے کو ذاتی دشمنی تک لے جانے میں سب سے پہلے ہمارا اپنا سیاسی نصب العین مسخ ہوتا ہے اور بالآخر قوم کی راہ کھوٹی ہوتی ہے۔
قوم کا ذکر آئے تو بھٹو صاحب یاد آتے ہیں۔ بھٹو صاحب نے قوم سے ناانصافی بھی حد درجہ کی اور احسان بھی بہت گراں قدر کیے۔ ایک ایسا دستور ہمیں بخشا جسے رگیدا گیا، روندا گیا، مسخ کیا گیا، معلق کیا گیا، معطل کیا گیا لیکن وہ چند صفحات کی دستاویز آج بھی ہماری قوم کا اساسی عمرانی معاہدہ ہے۔ پاکستان کی سلامتی کسی برخود غلط مسیحا کے میعادی اعجاز کی مرہون منت نہیں، کسی خود ساختہ نظریے کی محتاج نہیں، پاکستان کا آئین اس قوم کی ضمانت ہے جسے قائد اعظم کے کٹے پھٹے پاکستان کے سیاسی رہنماﺅں نے ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں مدون کیا۔ بھٹو صاحب کا ایک بڑا کارنامہ یہ تھا کہ آزادی کے بیس برس بعد پہلی مرتبہ مغربی پاکستان کے عوام کو ایک فریق کے طور پر ریاست کے بالمقابل لا کھڑا کیا۔ باچا خان اور سہروردی دیوقامت کردار تھے لیکن ایک کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا اور دوسرے کی لغت پرانی ہو چلی تھی۔ بھٹو صاحب نے سیاسی مکالمے میں دوسری عالمی جنگ کے بعد کی لغت اور توانائی متعارف کرائی۔ ایک لفظ لیجیے۔ ہماری کلاسیک نثر میں استیصال کا لفظ رائج تھا۔ بھٹو صاحب کی اردو مضبوط نہیں تھی اور اہل پنجاب کا ح واضح نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو نے استحصال کا لفظ چنا اور چھ کروڑ کی آبادی میں بچے بچے کو استحصال کا لفظ مستحضر ہو گیا۔ استحصال سے نجات البتہ نہیں مل سکی۔ داغ نے کہا تھا ’کہ آتی ہے اردو زبان آتے آتے‘۔ اسی مضمون کو فیض صاحب نے یوں باندھا۔ ’وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں‘۔ اسے آرزو ہی کا ایک رنگ سمجھنا چاہیے کہ ہماری نئی سیاسی لغت میں عوام کا لفظ صیغہ تانیث میں چلا گیا ہے۔ ملک ایک چھوٹے سے گروہ کی حرم سرا قرار پائے گا تو عوام سے سلوک کی بھی کچھ ایسی ہی صورت ہو گی۔
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے کرپشن کی درجہ بندی میں ہمیں مزید چار درجے نیچے کر دیا۔ وزیر اعظم کے مطابق یہ گزشتہ حکومتوں کے اعداد و شمار ہیں۔ اور پھر یہ بھی ارشاد کیا کہ 2008ء سے 2018ءتک کے دس برس تاریکی کا عشرہ تھے جب قرضے بڑھے اور ادارے تباہ ہوئے۔ ارے نہیں صاحب۔ پوری بات کہیے۔ 1947 سے 1958، 1972 سے 1977 اور پھر 1988 سے 1999 کے سال بھی تیرہ و تاریک تھے۔ روشن برس تو وہی تھے جب سورج فرد واحد کے کف دست سے طلوع ہوتا تھا۔ فرد واحد کی برکات کا عکس تو چیئرمین نیب نیز جسٹس (ر) عظمت سعید کے مجوزہ یک فردی کمیشن سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ بیرونی قرضوں کا قومی آڈٹ کر لیجیے کہ قرضے کب لئے گئے اور کہاں خرچ ہوئے؟ نواز حکومت کے چار برس میں کرپشن 117 درجے پر مستحکم رہی اور اب دو برس میں سات درجے گر گئی ہے۔ اداروں کی ترقی یا تباہی کا کچھ اندازہ تو کیا جا سکتا ہے۔ پارلیمنٹ مفلوج، صحافت سراسیمہ، نیب ہاتھ کی چھڑی اور الیکشن کمیشن جیب کی گھڑی۔ اسٹیٹ بینک میں زر مبادلہ کے ذخائر 13 ارب ڈالر سے کم ہو گئے ہیں۔ اس پر ہمارے وزیر اعظم چینی حکومت کو میسر دہائیوں پر محیط میعاد کا حسرت سے ذکر کرتے ہیں۔ اقتدار ایسی ہی چیز ہے، ’کسے اس بحر میں جا کر کنارہ یاد رہتا ہے‘۔ کرپشن اور حکومتی بندوبست کے تعلق پر آپ کو ایک تمثیلی نکتہ بتائے دیتے ہیں۔ نازی جرمنی نے فرانس پر قبضہ کر کے ملک کے جنوبی قصبے وشی میں مارشل پٹین کی سربراہی میں ایک کٹھ پتلی حکومت کھڑی کر دی تھی۔ ادھر ڈیگال نے فری فرانس کے عنوان سے لندن میں جلا وطن حکومت قائم کر رکھی تھی۔ اپنی حکومت کی عذر خواہی کرتے ہوئے مارشل پٹین کا یک طرفہ بیان تھا کہ ہم ڈھال کی طرح دشمن کو روکے ہوئے ہیں جب کہ ڈیگال فرانس کا بازوئے شمشیر زن ہے۔ ہمارے وزیر اعظم بھی کرپشن مافیا سے نبرد آزمائی کا دعویٰ کرتے ہیں، یہ فیصلہ البتہ نہیں ہو پا رہا کہ اس وقت ڈھال کون ہے اور تلوار کس کے ہاتھ میں ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).