وہ لڑکی تو زندہ ہی مر گئی ہو گی


خواب اور محبت دو ایسے فلسفے ہیں جن پر لکھی جانے والی ہزاروں داستانیں، لاکھوں کتابیں صرف ایک تصویر سے دھندلی پڑنے لگی ہیں۔ سچ کہتے ہیں جس چیز سے جتنا بھاگا جائے وہ اتنی رفتار سے آپ کا پیچھا کرتی ہے۔ پچھلے کچھ دن سے سوشل میڈیا پر ایک ہی تصویر گردش کر رہی ہے۔ لاکھ کوشش کی کہ ایسے پیجز اور گروپس لیفٹ کر دیے جائیں لیکن۔

پتھر کے جگر والوں غم میں وہ روانی ہے
خود راہ بنا لے گا بہتا ہوا پانی ہے

تصویر کیا ہے، غم ہی تو ہے! اسپتال کے سامنے، گاڑی کے باہر، نام نہاد عاشق، بوجھل بانہیں، ایک جنم جلی کی لاش اور لاش کے خالی ہاتھ۔

مغربی معاشرے جہاں ”لیو ان ریلیشن شپ“ (live in realtionship) عام بات ہے مگر مری ہوئی محبوبہ کو پھینکنے کی جگہ ڈھونڈنا شاید اتنی عام بات نہیں۔ ہمارے ہاں ممبر پر بیٹھ کر ناجائز تعلقات پر بے شمار خطبے دیے جاتے ہیں مگر بے حسی پر اتنی خاموشی کیوں؟

کبھی کبھی لگتا ہے مذہب اسلام اتنا مکمل مذہب ہے لیکن موجودہ زمانے میں اس کے بہت سے پیروکار ظالم، بے حس، جھوٹے، مکار اور دھوکے باز ہیں۔ یہی وجہ رہی ہوگی کہ اسلام نے درست طور پر غیر شادی شدہ تعلقات کو ناجائز قرار دیا، لیکن پھر بھی مسلمان کہلانے والے بعض لوگ ایسے تعلقات رکھتے ہیں۔

عورت جسے معاشرہ عجیب و غریب ناموں سے پکارتا ہے واقعتاً عجیب و غریب مخلوق ہے اور اس کی سب سے بڑی خامی ہے خواب دیکھنا۔ میڈیکل کی اس طالبہ نے مرنے سے پہلے ہزاروں خواب دیکھے ہوں گے اور ان خوابوں میں سب سے بھیانک خواب اپنا کفن سینے والے کے ساتھ گھر بسانا ہوگا۔ اس پاگل لڑکی کو خوابوں کی دنیا سے جگانے کے لیے سمجھایا گیا ہوگا کہ ”عقلمند بنو، فلموں کی دنیا سے باہر نکلو، حقیقی زندگی میں یہ سب نہیں ہوتا“ مگر مجھے یقین ہے مرتے دم تک اس بے وقوف کو لگ رہا ہوگا کہ اس فلم کا انجام اس کی موت ہرگز نہیں ہوگا۔ حالانکہ اسے کبھی نہیں کہا گیا تھا ”کہ فلموں کی دنیا میں رہو، خواب دیکھو، میں انھیں پورا کرنے کی کوشش کروں گا“ ۔

ہمارے معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم موت کو قبول کر سکتے ہیں مگر بے عزتی، بے حیائی کو نہیں اور یہی غیرت مند معاشروں کی نشانی ہے۔ والدین کا بچوں کی پسند پر اپنی پسند کو فوقیت دینا بھی بالکل ٹھیک ہے کہ جس نے پالا ہے اس کا حق زیادہ ہے۔ اسی لیے تو پگڑیاں اتار کر قدموں میں رکھ دی جاتی ہیں کہ اس سے گزر کر جس کے ساتھ جانا چاہو جا سکتی ہو۔

یہی وجہ ہوگی کہ اس لڑکی نے کئی بار ماں کا چہرہ دیکھ کر سوچا ہوگا کہ کاش ماں کا ہاتھ تھام کر کہہ دے ”مجھ سے غلطی ہو گئی مجھے مرنے سے بچا لو“ مگر اپنے ابارشن کے لیے پیسے جمع کرتے ہوئے جھوٹ کا سہارا لینا پڑا کیونکہ یہ ذمہ داری بھی اسی پر عائد تھی کہ جسے عزت اور زندگی بچانی ہے اسے پیسے بھی لانے ہوں گے۔

سچ تو یہ ہے کہ تصویر ایک ہے، کہانیاں ہزار۔ مگر اس عکس سے میرے دل و دماغ میں صرف ایک ہی سوال گردش کر رہا ہے کہ انسان جانور پال لے تو اس کے مرنے پر کئی دن افسردہ رہتا ہے۔ اپنی محبوبہ کی لاش ٹھکانے لگانے سے پہلے کیا اس شخص کی آنکھوں سے دو آنسو ٹپکے بھی ہوں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).