بے حسی کا مطلب ہے عزت نفس کی موت


ملک عزیز میں کوئی کاریگر آپ سے کام پورا کرنے کا وعدہ کر لے تو اعتبار نہ کیجیے گا۔ وہ بار بار وعدہ توڑے گا، بہانہ بنائے گا اور پھر وعدہ کر لے گا۔ کوئی پبلشر اگر آپ کا مسودہ داب جائے، آپ کو سالہا سال سے ”لارے“ لگا رہا ہو، آپ پھر بھی اس کے دفتر کا سال میں ایک پھیرا ضرور لگا لیتے ہوں کیونکہ آپ کا مسودہ اس کے کمپیوٹر میں کمپوز کیا ہوا محفوظ ہے۔ آپ اسے سنا بھی دیں تو اس سے اس پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ یہ لوگ چکنے گھڑے نہ ہوتے تو ادیبوں اور مترجموں کے غریب رہتے ہوئے، ان کے کاروبار کیوں کر پھلتے پھولتے۔ ملک عزیز میں وعدۂ فردا پہ ٹالنا ایک ایسا ”اصول“ جس کے بارے میں سبھی جانتے ہیں اور اس پر اعتبار بھی کر لیتے ہیں۔

آپ شیشہ بند کار میں بیٹھے ہیں۔ کار سے باہر سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ چنگچی نام کے مشینی تانگوں میں بیٹھے ہوئے انسانوں کے چہروں پہ مٹی کے مہین ذرات کا لیپ ہو رہا ہے۔ گرد کے مہین ترین ذرات، ان مشینی تانگوں میں سوار بچوں کے سانس کے ذریعے ان کے پھیپھڑوں میں، جو ابھی بن رہے ہیں، آماجگاہ بنا رہے ہیں، جن کے مضر اثرات سالہا سال بعد جا کر ظاہر ہوں گے ۔ اداس، چھوٹے چھوٹے گدھوں کے پہلوؤں کے ساتھ آویزاں ریڑھیوں میں سیب، کینو اور امرود پڑے ہیں۔ سرخ ٹراؤزر اور زرد سرخ ٹی شرٹ پہنے ہوئے خر بان نے ایسی ہی گدھا ریڑھی کے ایسے ہی اداس اور یکسر خاموش چھوٹے سے گدھے کی لگام تھامی ہوئی ہے اور بے ہنگم ٹریفک کے پہلو میں ایسے چل رہا ہے جیسے اس سب سے بشمول اپنے گدھے اور پھل بردار ریڑھی سے اس کا کوئی واسطہ نہ ہو۔

ایک ملٹی میڈیا گروپ کے ساتھ جس کے بارے میں عام رائے ہے کہ یہ دراصل ایک خاص ادارے کی نگرانی میں پروان چڑھ رہا ہے، ایسے ایسے صحافی اور دانشور شامل ہو رہے ہیں جن کے شب و روز سالہا سال سے اسی ادارے کی تنقیص میں بسر ہوتے رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ ان کے اس ادارے سے پہلے ہی ’لنکس‘ ہوں یا اس ادارے نے انہیں یقین دہانی کرائی ہو کہ وہ ان کی ”آزادی اظہار“ میں مخل نہیں ہو گا۔ ویسے ایسا کیونکر ہو سکتا ہے؟ ایسے میں تو آزادی اظہار کا تڑکا ہی لگایا جا سکتا ہے۔ ممکن ہے اس ادارے سے اس گروپ کی وابستگی ایک زبان زد عام افواہ ہو جو اس کے مخالفوں نے اس کو منظر عام پر آنے سے پہلے ہی بدنام کیے جانے کی خاطر اڑائی ہو۔ لیکن اگر یہ حقیقت ہوئی تو ان صحافیوں اور دانشوروں کی عزت نفس کیا داؤ پہ نہیں لگ جائے گی؟

بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی کیونکہ مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہے۔ ہماری ایک دوست نے درست ہی کہا ہے کہ ملک عزیز میں اگر کسی کے گھریلو اخراجات کا بجٹ چار لاکھ روپے ہو، اس سے چند ہزار کا تجاوز کرنا بھی اسے خلجان میں مبتلا کر دیتا ہے۔ یہ حال ہے حقیقی طبقہ وسط کا اور اسی طبقہ وسط کا ایک اور فرد جس کا صحافت سے واسطہ ہے ، کہتا ہے کہ اگر مجھے بھی چار پانچ لاکھ روپے ماہانہ کی آفر ہو تو میں بھی اسی گروپ میں جا سکتا ہوں۔

اس کی وجہ شاید یہی ہو کہ مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہو۔ افلاس کا معیار ضروریات اور ان کی تکمیل یا عدم تکمیل سے طے نہیں ہوتا بلکہ ضروریات کی تکمیل سے گریز اور اقربا کے طعنے سننے کی برداشت سے متعین ہوتا ہے۔ بعض اوقات آپ کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی مفلس نہیں ہوتے اور بیشتر اوقات بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی قلاش ہوتے ہیں۔

یہ بات شاید میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ”مجھ کو دیار غیر میں مارا ، وطن سے دور رکھ لی میرے خدا نے مری بے کسی کی لاج“ وگرنہ صارفین کے معاشرے کی اصطلاح کے عملی طوفان میں گھرے ہوئے اس ملک میں جہاں آمدنیوں میں تفاوت کا توازن بہت بگڑا ہوا ہو، جہاں چنگچی ٹائپ عوامی ٹرانسپورٹ آپ کا اندرونی اور بیرونی حلیہ بگاڑ کے رکھ دیتی ہو، جہاں مڈل کلاس کو نچلے طبقات کی اذیتوں کا احساس ہونا رک چکا ہو اور جہاں انہیں اپنے خطیر اخراجات پہ بڑھتے ہوئے ہلکے سے خرچ کا بوجھ بھی اونٹ کی کمر پہ آخری تنکا لگتا ہو، وہاں عزت نفس نام کی چڑیا کا وجود بھلا کیسے ہو سکتا ہے۔ ایسے میں اگر کچھ بچ رہتا ہے تو وہ انا کی کنگری یا ڈھلوان باقی بچ رہتی ہے، جس کا اظہار اپنے سے کمتر پر رعب جتا کر یا بے بسی کا دکھ۔ سہہ کر کیا جاتا ہے۔

میں پردیس میں رہنے والا اس سب کو نہ دیکھ سکنے کا عادی ہو چکا ہوں۔ ژولیاں کولومو کی طویل کہانی ”زاہد“ پڑھ رہا تھا جس میں افغانستان میں موت کے منہ سے نکلنے والا ایک جنگجو جو صحافت میں اعلیٰ ڈگری کا حامل بھی ہے، صحافت میں جگہ نہ پا سکنے کے باعث حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر عورتوں کا دلال بن جاتا ہے۔ مجھے لگا کہ یہ کہانی بہت ہولناک ہے۔ میں نے اس کا تذکرہ اپنے دو بچوں کی ماں سے کیا، جس کے بارے میں مجھے خوش فہمی ہے کہ وہ مجھے سمجھ سکتی ہے۔

وہ بولی ”سب کچھ ہولناک ہے“ پھر توقف کیا اور کہا ”کچھ بھی ہولناک نہیں“۔ چائے کی پیالی میں چمچہ ہلاتے ہوئے میرا ہاتھ ایک جگہ ساکت ہو گیا۔ یہ سوچتے ہوئے کہ ”مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں“ تو غالب نے انیسویں صدی میں کہا تھا، کیا ”سب کچھ ہولناک ہونا اور کچھ بھی ہولناک نہ ہونا“ اسی بے بسی کا اظہار ہے یا عزت نفس سے فرار؟

عجیب سی بات کہی ہے ناں میں نے، بھلا اس کا عزت نفس سے کیا تعلق؟ آپ شاید سمجھے نہیں عزت نفس ہے ہی یہی کہ آپ اپنی تکلیفوں سے جوانمردی کے ساتھ نمٹتے ہوئے دوسروں کے دکھ کو اگر مٹانے کے جتن نہیں بھی کر سکتے تو اس پہ نالاں و پریشاں ضرور ہوں ، یہی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی اساس ہے جو عزت نفس کو برقرار و مستحکم رکھے جانے کی کنجی ہے۔ جب مشکلیں آسان ہو جاتی ہیں تو بے حسی کا غلبہ ہو جاتا ہے ۔ یاد رہے کہ بے حسی، عزت نفس کی ازلی بیری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).