خالی جیب مرد بمقابلہ بدصورت عورت


مردوں میں ایک عجیب و غریب نفسیاتی الجھن ہے کہ عورت کو کبھی خالی جیب کے مرد سے محبت نہیں ہوتی مگر عورت ان کی طرح چیخ چیخ کر یہ نہیں کہتی کہ بھائی صاحب! آپ بھی وہی مخلوق ہیں کہ جو ٹین ایج میں آتے ہی خوابوں میں فلمی ہیروئینز اور ماڈل کو دیکھ کر بستر گندے کر دیتے ہیں۔

گویا یہ حسن کی صرف ایک مصنوعی اور دور کی انجان تصویر ہے۔

تو یہ کشش آپ کو دیوانہ بنا دیتی ہے جس کو آپ محبت کا نام دیتے، عشق کی پینگ پہ خالی جیب اور فارغ دماغ کے ساتھ جھول رہے ہوتے ہیں۔

اور پھر وہ وقت آتا ہے جب آپ ایسی ہی کسی مکھن ملائی حسینہ کو دل دے بیٹھتے ہیں اور اس کے والدین اس کی شادی کسی آسودہ حال سے کر دیتے ہیں اور آپ عورت کی بے وفائی کا رونا روتے نہیں تھکتے۔

اس حوالے سے آپ سب کا باس خلیل الرحمن قمر آپ کے دل کی آواز بنا جو اس “بے وفا لڑکی” کی کہانیاں لکھ لکھ کر اس کی قیمت وصول کر کے اپنی جیب بڑھا رہا ہوتا ہے اور آپ کے دماغ میں فتور بڑھاتا ہے۔

اب یہ بے چارہ بھی آپ سب کی طرح خالی جیب سے بھرے کیسے تک پہنچا ہے۔ جہاں رہتا رہا ہے، وہاں کا کلچر ہی ایسا ہے کہ وہاں بیٹی کا رشتہ ڈھونڈنے میں امیر سے امیر گھر پہ ہاتھ ڈالنے کی ہر ممکن سعی کی جاتی ہے۔

ہم اپنی علاقائی تہذیب کے بنا ادھورے ہیں۔

چھوڑیے۔یہ تو ایک باوفا خالی جیب مردانہ لیڈر کے نعرے ہیں۔ مگر سچ پہ نگاہ رکھیے اور دل پہ ہاتھ، کیا آپ اپنی بیٹی کی شادی کسی خالی جیب عاشق سے کر سکتے ہیں؟ اس کو ایسے غریب سے محبت کی اجازت دے سکتے ہیں؟

نہیں ناں، کیونکہ آپ کو اپنی بیٹی بہت عزیز ہوتی ہے، یونہی ہر باپ کو اپنی بیٹی پیاری ہوتی ہے۔

لڑکیاں بھی نفسیاتی طور پر بھی ایسے مردوں کو زیادہ پسند نہیں کر پاتیں۔ کیونکہ ان کی حس جمالیات مرد سے اچھی ہوتی ہے اور ایسا مرد جمالیات کی تسکین کا باعث کسی طور نہیں ہوتا۔ اس کو بولنے ، اٹھنے بیٹھنے ، بات کرنے ، کپڑے پہننے کا سلیقہ تک نہیں ہوتا۔ جو عورت کے لئے کافی اہم خصوصیات ہیں۔

حد یہ ہے کہ جب یہی خالی جیب بندہ نو دولتیا ہو جاتا ہے تو بھی فوری پتا لگ جاتا ہے کیونکہ اب بھی وہ مہنگا کپڑا خرید سکتا ہے ، پہننا کیسے ہے یہ اس کی تربیت میں ہی شامل نہیں ہوتا۔ اسے ڈریس پینٹ تک پہننے کا سلیقہ نہیں ہوتا۔ اس کو علم نہیں ہوتا کہ کہاں کون سے کپڑے جوتے پہن کے جانا ہے۔ اس کے لہجے میں احساس برتری کے نیچے سے چھپا احساس کمتری جھلکتا ہے اور اکثر چھلک جاتا ہے۔

اب آئیے ذرا دوسری حقیقت کی جانب، خالی جیب عاشق ہو یا شوہر، دونوں صورتوں میں لڑکیوں کے والدین کو پالنا پڑتا ہے کیونکہ ابھی یہاں بہت سی لڑکیاں خود کفیل نہیں اور اس سے زیادہ مزے کی بات یہ کہ میں ایسی بہت سی لڑکیوں کو جانتی ہوں جو اپنے مجبوبوں کو ایزی لوڈ کروا کے دیتی ہیں۔ کبھی ان کے خالی جیب عاشق اچانک کسی معاشی مسئلے کا شکار ہو جاتے ہیں، وہ ادھار کے نام پہ رقم دیتی ہیں اور نمانی ساتھ حوصلہ بھی دیتی ہیں کہ حالات ٹھیک ہو جائیں گے ، آپ نے گھبرانا نہیں۔ میں ہوں ناں!

وہ گھبراتے ہوئے محبت کے ایسے پکے راگ الاپتا ہے کہ اگلی بار نئے بہانے سے پیسے بھی تو لینے ہیں۔

پیسوں کے چکر میں ایک مردہ نسل کے مرد اپنی سے بڑی اور امیر شادی شدہ عورتوں سے دوستی کرتے اور اچانک پھر ان کی معیشت کسی سیلاب کی زد میں آ جاتی ہے۔ اس کے بعد وہی کہانی، میں تیرا راجہ تو میری رانی۔

ایک اور وجہ یہ ہے کہ لڑکیوں کو وارثت ملتی نہیں۔ ویسے آپ نے اپنی بہن بیٹی کو وراثت دی ہے؟ گریبان میں جھانک لیجیے گا۔ مجھے نہیں بتائیے گا۔ ان کی مردانگی کہاں گئی جو لڑکی کے گھر والوں کے مال پر پلنے کا سوچتے ہیں؟

ایسے مرد 65 سالہ ویزے سے تو شادی کر لیتے ہیں۔ 25 سالہ ہم سماج کم آمدن والے باپ کی بیٹی یا کسی کم و بڑی عمر و طلاق یافتہ بیوہ یتیم لڑکی سے شادی نہیں کرتے۔ غریبی تو مردانگی بھی چھین لیتی ہے۔ اس حقیقت کے بارے میں کیا کیا جائے؟

پہلی اور آخری سچی بات یہ ہے کہ خالی جیب مرد نفسیاتی مریض ہوتا ہے ، اس کے کومپلیکسز بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ کسی خالی جیب مرد سے مل کر دیکھیے گا۔

کیا خیال اے جی؟ ہیں ناں کڑوی کریلا باتیں۔ یہ سوچنے کے لیے ہیں دل پہ لگانے کے لئے نہیں۔ آپ ادھر ادھر کی حکایات دہرا کر دل کو تسلیاں اور نگاہوں کو امید دید دیتے ہیں تو کیا ہم کسی امیری و کفالت و ذمہ داری کی بات نہیں کر سکتے ، ہمیں لالچی نہ سمجھ لیا جائے۔ اجی اب تو سمجھ ہی لو۔ دل تمہارا جیب کے نیچے چھپا ہوا ہے ، ہمیں کیا پتا دل ہی بھی ہے یا مشین لگی ہوئی ہے؟

( یہ سب جذباتی باتیں کبھی ہمیں بھی بھاتی تھیں ، پھر عمران خان کی حکومت آ گئی اور پول کھل گئے)
اس کے علاوہ بتائیے کیا مرد کو بدصورت عورت سے محبت ہوتی ہے؟

اور جب ایک کم آمدن یا خالی جیب مرد سے ایک حسین عورت کی شادی ہو جاتی ہے تو اس کا حسن کہاں چلا جاتا ہے؟

جانتے ہیں کہاں؟
شادی سے پہلے وہ باپ کی جیب و ماحول کی تصویر ہوتی ہے ، شادی کے بعد شوہر کی۔
بس کہانی اور حقیقت اتنی سی ہوتی ہے۔
سماجی سچائی جذبات کی ندی میں بہہ بھی جائے تو سمندر تک پہنچنے کی طاقت کھو دیتی ہے کہ فاقہ کش ہوتی ہے۔ فاقہ کشی تنائو ہے اور تنائو موت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).