لارنس آف عربیہ نے کیسے ایک عظیم الشان سلطنت کا شیرازہ بکھیرا؟


 برطانوی قوم دنیا کی ذہین ترین اقوام میں سے ایک ہے ، انگریز اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں کمال مہارت رکھتے ہیں۔ مٹھی بھر انگریز فوج نے برصغیر میں موجود دیگر حکمرانوں ، بادشاہوں اور راجاؤں کو شکست فاش دے کر تاج برطانیہ کی حکومت قائم کی، انہوں  نے سو برس سے زائد عرصہ برصغیر پر حکمرانی کی۔ برطانیہ ان دنوں اپنی سلطنت کو وسعت دینے کے منصوبوں کو مزید تیز کر رہا تھا۔

دوسری جانب عظیم سلطنت عثمانیہ نا اہل بادشاہوں کی غلط طرز حکمرانی کی بھینٹ چرھتی دکھائی دے رہی تھی۔ وزیروں مشیروں کے غلط مشورے ، محلاتی سازشیں ، اقتدار کی ہوس، یہ وہ عوامل و اسباب تھے جس کے باعث سلطنت عثمانیہ دن بدن کمزور ہوتی چلی جا رہی تھی۔

برطانیہ کی نظریں سلطنت عثمانیہ کے زیرنگیں علاقوں پر مرکوز تھیں ۔ برطانیہ سائنس و ٹیکنالوجی پر بھرپور توجہ و سرمایہ کاری کر رہا تھا۔ اس نے اپنی فوج کو جدید ترین بحری جنگی جہازوں اور اسلحے سے لیس کرنا شروع کر دیا تھا۔ ترک جدید اسلحہ سازی اور دیگر سائنسی ایجادات میں برطانیہ سے بہت پیچھے رہ گئے تھے۔ سلطنت عثمانیہ کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ اتنی بڑی سلطنت میں انٹیلی جنس کا محکمہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ بادشاہ تک درست معلومات اس وقت پر پہنچتی تھی جب پانی سر کے اوپر سے گزر چکا ہوتا۔

بیسوی صدی کے دور میں یورپ بھر میں صعنتی انقلاب برپا تھا ، یورپی ممالک آپس میں الجھتے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے۔ اس چپقلش حسد کا نتیجہ یہ نکلا کہ یورپ میں پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہو گیا۔ روس ، فرانس، امریکہ ، برطانیہ، اٹلی اتحاد ایک جانب تو دوسری طرف آسٹریا ، ہنگری ، جرمنی اور سلطنت عثمانیہ اتحاد ان کے مدمقابل کھڑا تھا۔ پہلی جنگ عظیم 1914 میں شروع ہوئی ، یہ جنگ چار برس تک جاری رہی ، لاکھوں لوگ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ، کروڑوں لوگ اس جنگ سے متاثر ہوئے۔

بالآخر یہ جنگ 1918 کو جرمنی سلطنت عثمانیہ اتحاد کی شکست پر اختتام پذیر ہوئی۔ برطانیہ نے سلطنت عثمانیہ کے زیر نگیں علاقوں پر قبضہ کرنے کا منصوبہ پہلے ہی شروع کر دیا تھا۔ ابتدا میں اسے کوئی خاطر خواہ کامیابی نہ ملی تاج برطانیہ کی فوج کا ایک انتہائی چالاک افسر لیفٹیننٹ کرنل تھامس ایڈواڈ لارنس کو ایک ناممکن مشن کی تکمیل کے سلسلے میں عرب علاقوں میں بھیجا گیا۔ لارنس وہ واحد شخص تھا جس نے اپنی شاطرانہ چالوں سے عربوں کے دلوں میں ترکوں کے خلاف نفرت کی آگ بھڑ کا دی۔

لارنس نے 1911 میں بصرہ کے ایک ہوٹل میں اپنا خفیہ ادارہ قائم کیا ، وہ مسلسل اہم معلومات راز برطانیہ منتقل کرتا۔ لارنس عربی زبان بولنے میں بھی مہارت رکھتا تھا ، اس نے اپنے مشن کو کامیاب بنانے کی غرض سے ڈرامہ کیا ، وہ بصرہ کی مسجد میں گیا اور قبول اسلام کا جعلی اعلان کر دیا۔ اب وہ عربوں میں ایک نیک شخصیت کے طور پر مشہور ہو گیا۔ لارنس نے عربوں میں غدار سرداروں اور دیگر باغی لوگوں کو تلاش کر کے ان کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ جو ساتھ شامل نہیں ہونا چاہتے تھے ان کو قوم پرستی کے جذبات میں الجھا کر اپنے ساتھ ملا لیا۔

لارنس کی سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ ترک کسی زمانے میں عربوں کے غلام تھے لہٰذا عربوں کو اپنے غلاموں کے ماتحت کام ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔ وہ عربوں کو گارنٹی دیتا تھا کہ ترکوں کے خلاف بغاوت کرو تاکہ تم لوگ اپنے اپنے عرب علاقوں کے اکیلے حکمران بن جاؤ ۔ اقتدار کا لالچ دے کر اس نے ناممکن کو ممکن بنا دیا۔ سلطنت عثمانیہ تین براعظموں میں پھیلی ہوئی تھی، سلطنت عثمانیہ کی بنیاد ارطغرل غازی کے بیٹے عثمان نے 1517 میں رکھی تھی ، بعد ازاں آنے والے بادشاہوں نے اس سلطنت کو اتنی وسعت دی کہ اس کا رقبہ مشرقی یورپ شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ تک پھیل گیا۔

Lawrence of Arabia

لارنس کے مشوروں اور چالوں میں آ کر عربوں نے ترکوں کے خلاف بغاوت برپا کر دی اور یوں بادشاہت کے خواب دیکھنے والے عرب لوگ تاج برطانیہ کے غلام بن گئے۔ سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہو گیا ، لارنس اپنا مشن مکمل کر کے برطانیہ واپس چلا گیا۔ وہ لارنس آف عربیہ کے نام سے مشہورہوا ، 1935 میں ایک ٹریفک حادثے میں لارنس کی موت ہوئی، اسے خراج تحسن پیش کرنے کی غرض سے متعدد فلمیں ڈرامے اس کی زندگی پر بنائے گئے۔

انگریزوں کے منصوبے واقعی بڑے کمال کے ہیں ، کیسے ایک شخص اجنبی ملک میں جا کر تین براعظموں پر محیط سلطنت کا شیرازہ بکھیر دیتا ہے۔ افسوس تخت و تاج پر براجماں حکمران خواب غفلت میں مدہوش رہتا ہے ، اسے ہوش تب آتا ہے جب اپنی ہی قوم سٹرکوں پر باہر نکل آتی ہے اور بادشاہ سے خلافت کے خاتمے کا پرزور مطالبہ کرتی ہے۔ افسوس بادشاہ کو اپنی غلطی کا اس وقت احساس ہوا جب عظیم الشان سلطنت کا بیڑہ غرق ہو چکا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).