بھارت میں کسانوں کا احتجاج، داخلی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے؟


چھبیس جنوری کو بھارت کے یوم جمہوریہ پر ہزاروں کسانوں کی دہلی کے لال قلعے پر چڑھائی اور ہنگامہ آرائی کے بعد بھارت میں یہ خدشات جنم لے رہے ہیں کہ کئی ہفتوں سے جاری اس مسئلے کا حل نہ نکالا گیا تو یہ بھارت کی داخلی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔

بھارتی حکومت کی جانب سے گزشتہ سال منظور کیے گئے متنازع زرعی قوانین کے خلاف ہریانہ اور اتر پردیش سے متصل دارالحکومت دہلی کی سرحدوں پر ہزاروں کسانوں کے احتجاجی دھرنوں کو دو ماہ سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے۔ لیکن اب بھی اس مسئلے کے حل کی بظاہر کوئی امید نظر نہیں آ رہی ہے۔

حکومت اور کسانوں کے درمیان مذاکرات کے 11 ادوار ہو چکے ہیں، لیکن اس بات چیت کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

کسانوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت تینوں متنازع قوانین واپس لے تو ہی احتجاج ختم ہو گا۔

حکومت کا کہنا ہے کہ وہ قوانین واپس نہیں لے گی البتہ ان میں مذاکرات کے ذریعے ترامیم کر سکتی ہے۔ حکومت نے ان قوانین کو ڈیڑھ سال کے لیے معطل کرنے کی بھی پیش کش کی ہے جسے کسانوں نے مسترد کر دیا ہے۔

'یہ چولہا جلتا رہے گا'، دہلی میں کسانوں کا دھرنا جاری

اسی درمیان وزیرِ اعظم نریندر مودی نے پہلی بار اس معاملے پر لب کشائی کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اب بھی بات چیت کے لیے تیار ہے اور وزیرِ زراعت محض ایک فون کال کی دوری پر ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے کو فوری طور پر حل کرے۔

‘داخلی سلامتی کا مسئلہ تو پیدا ہو گیا ہے’

سینئر تجزیہ کار رادھیکا راما سیشن کہتی ہیں کہ یوم جمہوریہ پر جو کچھ ہوا اس کی روشنی میں تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ داخلی سلامتی کا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔

اُن کے بقول کسانوں کا الزام ہے کہ ان کی پرامن ریلی میں کچھ ایسے عناصر داخل ہو گئے تھے جنہوں نے تشدد کو ہوا دی تاکہ ان کی تحریک کو بدنام کیا جا سکے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حکومت اور حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لوگ شروع سے ہی یہ الزام عائد کر رہے ہیں کہ کسانوں کے احتجاج کو خالصتانی اور ماؤ نواز عناصر کی حمایت حاصل ہے۔ حالاں کہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور بغیر ثبوت کے ایسے الزامات عائد نہیں کیے جانے چاہئیں۔

رادھیک کا مزید کہنا تھا کہ پنجاب ایک سرحدی ریاست ہے اور ملک دشمن عناصر وہاں گڑبڑ کرانے کی تاک میں رہتے ہیں۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ لچک دار رویہ اختیار کرے اور اس مسئلے کو حل کرے۔

‘رورل وائس ڈاٹ ان’ کے چیف ایڈیٹر اور سینئر تجزیہ کار ہرویر سنگھ کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ تحریک کے دوران ایسے ملک دشمن عناصر سرگرم ہو گئے ہوں جو ملک کی سیکیورٹی کے لیے بھی خطرہ ہوں اور کسانوں کی تحریک کو بھی نقصان پہنچا رہے ہوں۔

اُن کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس بات کا پتا لگائے اور اگر ایسے عناصر سرگرم ہیں تو ان کے خلاف کارروائی کرے۔

بھارتی کسانوں کا زرعی اصلاحات کے خلاف احتجاج

انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ نے بھی کہا ہے کہ پنجاب ایک سرحدی ریاست ہے یہاں کسی بھی قسم کا تناؤ اچھی بات نہیں ہے۔ لیکن بہر حال 26 جنوری کو جو واقعات پیش آئے ان سے خدشات ضرور جنم لیتے ہیں۔

‘حکومت خود خطرہ پیدا کر رہی ہے’

کارواں میگزین کے ایڈیٹر ہرتوش سنگھ بل نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے الزام لگایا کہ یہ حکومت خود داخلی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ کیوں کہ اگر حکومت ملکی مفادات کے بجائے اپنے سیاسی مفادات کو ترجیح دینے لگے تو سیکیورٹی کے مسائل تو پیدا ہو ہی جاتے ہیں۔

وہ زور دے کر کہتے ہیں کہ کسانوں کی تحریک سے اندرونی سلامتی کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ کسان تو زرعی قوانین کے بارے میں بات کر رہے ہیں اور حکومت اور اس کے وزرا خالصتان کے بارے میں بات کر رہے ہیں تو اس سے ظاہر ہے کہ حکومت خود داخلی سلامتی کے لیے خطرہ پیدا کر رہی ہے۔

ایک اور تجزیہ کار وویک شکلا کہتے ہیں کہ ملک دشمن عناصر ایسی تحریکوں میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ 26 جنوری کو ہزاروں ٹریکٹر پرامن انداز میں نکل رہے تھے۔ لیکن کچھ لوگوں نے لال قلعہ پر چڑھائی کر دی اور وہی واقعہ خبر بن گیا۔

اُن کے بقول پرامن انداز میں نکلنے والے ٹریکٹروں کی ریلی کا ذکر کوئی نہیں کر رہا صرف لال قلعے پر چڑھائی کی بات ہو رہی ہے۔ لہٰذا اس کا خدشہ تو ہے کہ اگر فوری طور پر یہ مسئلہ حل نہیں کیا گیا تو سلامتی کی صورتِ حال خراب ہو سکتی ہے۔

نئی دہلی: مظاہرین نے لال قلعے پر ‘نشان صاحب’ لہرا دیا، جھڑپوں میں ایک ہلاکت

کیپٹن امریندر سنگھ کی تشویش

یاد رہے کہ بھارتی پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ نے دو دسمبر 2020 کو وزیرِ داخلہ امت شاہ سے ملاقات کی تھی اور ان سے اپیل کی تھی کہ اس احتجاج کو جلد ختم کرایا جائے ورنہ اس سے معیشت کو تو نقصان پہنچے گا ہی ملکی سلامتی کو بھی خطرات لاحق ہو جائیں گے۔

انہوں نے 30 جنوری کو ایک انٹرویو میں کہا کہ انہوں نے مغربی ہمسایہ ملک کی جانب سے اس سرحدی ریاست میں گڑبڑ کرانے کی کوششوں کے حوالے سے حکومت کو خبردار کیا ہے۔

جب اس احتجاج کا آغاز ہوا تھا تو بی جے پی کے بعض رہنماؤں کی جانب سے الزام عائد کیا گیا تھا کہ احتجاج میں پاکستان اور چین کا ہاتھ ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان کا ہمیشہ یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ کسی دوسرے ملک کے اندرونی امور میں مداخلت نہیں کرتا۔

‘بیرونی طاقتوں کے ہاتھ کا کوئی ثبوت نہیں’

رادھیکا راما سیشن کہتی ہیں کہ یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ اس میں پاکستان کا ہاتھ ہے یا چین کا۔ اس کا کوئی ثبوت میرے پاس نہیں ہے۔ بغیر ثبوت کے ایسے الزامات لگانے بھی نہیں چاہئیں۔

اُن کے بقول کیوں کہ پنجاب ایک سرحدی ریاست ہے اور تاریخ بتاتی ہے کہ ملک دشمن طاقتیں وہاں گڑبڑ کرانے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔

ہرتوش بل کہتے ہیں کہ یہ الزام بالکل بے بنیاد ہے۔ یہ کسان لوگ ہیں ان کا باہر سے کیا تعلق۔ حکومت نے غلط قوانین بنائے ہیں جن کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے۔ اپنی غلطیوں کو چھپانے اور تحریک کو بدنام کرنے کے لیے ایسے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔

ہرویر سنگھ کا کہنا ہے کہ غیر ممالک میں جو سکھ اور دوسرے آباد ہیں وہ احتجاج کی حمایت کر رہے ہیں۔ غیر سکھ افراد نے بھی حمایت کی ہے۔ غیر ملکی میڈیا میں بھی خاصی کوریج ہو رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات سفارتی سطح پر بھارت کے لیے پریشان کن ہیں۔ اسی لیے جب کینیڈا کے وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو نے احتجاج کی حمایت میں بیان دیا تھا تو حکومت نے اس پر سخت ردِ عمل ظاہر کیا تھا۔

بھارتی حکومت نے اپنے ردِعمل میں کہا تھا کہ دوسرے ممالک کو بھارت کے داخلی امور میں دخل دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس سے باہمی سفارتی رشتے متاثر ہوں گے۔

یاد رہے کہ برطانوی پارلیمنٹ میں بھی یہ معاملہ اٹھایا گیا تھا اور بعض ارکان نے کسانوں کے احتجاج کی حمایت کی تھی۔

‘خالصتان تحریک کے الزامات کی تحقیقات ہونی چاہئیں’

ہرویر سنگھ کے خیال میں ممکن ہے کہ کچھ علیحدگی پسند طاقتیں اس احتجاج کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہوں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بہت سے لوگوں نے کسانوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے طور پر احتجاج کی حمایت کی ہے۔

لیکن وویک شکلا لدھیانہ سے کانگریس کے رکن پارلیمنٹ رونیت سنگھ بٹو کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہوں نے کہا ہے کہ اس احتجاج میں کچھ خالصتانی عناصر شامل ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس کی تحقیق کرے اور پتا لگائے کہ کیا واقعی ایسا ہے۔ اگر اس الزام میں سچائی ہے تو حکومت کارروائی کرے۔

نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے گزشتہ دنوں خالصتان حامی تنظیم ‘سکھ فار جسٹس’ سے مبینہ تعلق کی وجہ سے متعدد کسان رہنماؤں کو نوٹس جاری کیے تھے جن میں ایک پنجابی ایکٹر و گلوکار دیپ سدھو بھی شامل ہے۔

بھارت میں کسان کیوں احتجاج کر رہے ہیں؟

بداعتمادی ڈیڈ لاک کی اصل وجہ؟

رادھیکا راما سیشن کہتی ہیں کہ کسانوں اور حکومت کے درمیان بہت زیادہ بد اعتمادی پیدا ہو گئی ہے۔ اگرچہ حکومت نے ڈیڑھ سال کے لیے قوانین پر عمل درآمد روک دینے کی پیش کش کی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کس بات پر دونوں میں اتفاق ہوگا۔ کسان قوانین کے خاتمے پر زور دے رہے ہیں اور حکومت اس کے لیے تیار نہیں ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ فریقین کے درمیان خلیج اتنی وسیع ہو گئی ہے کہ مصالحت کی امید کم ہے۔

ہرویر سنگھ کا کہنا ہے کہ 26 جنوری کے واقعے کے بعد ایسا لگ رہا تھا کہ بات چیت کے امکانات ختم ہو گئے ہیں۔ لیکن اب جب کہ احتجاج میں نئی شدت پیدا ہوئی ہے اور احتجاج میں کسانوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے تو حکومت پھر بات چیت کے لیے مجبور ہو گئی ہے۔

ان کے مطابق اب حکومت بھی یہی چاہتی ہے کہ کسی طرح اس مسئلے کو حل کیا جائے۔ وزیرِ اعظم کا یہ بیان کہ وزیرِ زراعت ایک فون کال پر موجود ہیں اس بات کا اشارہ ہے کہ حکومت اس مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتی ہے۔

وویک شکلا کے خیال میں جمہوری حکومت میں سب کی باتیں سنی جاتی ہیں۔ حکومت کو کسانوں کی باتیں بھی سننی چاہئیں۔ کسان سمجھتے ہیں کہ انہیں ان قوانین کے ذریعے ان کے حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa