میانمار میں مارشل لا لگانے والے جنرل من آنگ لینگ کون ہیں؟


میانمار میں مارشل لا لگانے والے جنرل من آنگ لینگ نے یوں تو ایک سال بعد ملک میں دوبارہ انتخابات کرا کر اقتدار سول قیادت کے سپرد کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ تاہم جولائی میں ریٹائر ہونے والے آرمی چیف کے مستقبل کے ارادوں کے حوالے سے تجزیہ کار مختلف آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔

میانمار کے آرمی چیف کو رواں سال جولائی میں 65 سال کی عمر تک پہنچنے کے بعد ریٹائر ہو کر کمان دوسرے فوجی جرنیل کو سونپنی تھی۔ تاہم پیر کو میانمار کی نو منتخب پارلیمان کے پہلے اجلاس سے قبل جنرل لینگ نے خود اقتدار سنبھال کر ملک کی سربراہ اور نوبیل انعام یافتہ آنگ سان سوچی سمیت دیگر سیاسی رہنماؤں کو حراست میں لے لیا۔

‘کم گو مگر ہوشیار فوجی افسر’

میانمار میں ایک بار پھر فوجی مداخلت نے من آنگ لینگ کو مرکزِ نگاہ بنا دیا ہے۔ میانمار کے جنوبی شہر ڈاوے میں پیدا ہونے والے لینگ نے ملک کے سابق دارالحکومت ینگون میں تعلیم حاصل کی۔ دو سال تک لا اسکول میں زیرِ تعلیم رہنے کے بعد وہ میانمار کی فوجی اکیڈمی میں داخل ہو گئے۔

خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق کمانڈر ان چیف کے بجپن کے کچھ دوستوں کے مطابق وہ ایک کم گو انسان ہیں۔

ایک سابق فوجی افسر نے ‘رائٹرز’ کو بتایا کہ لینگ فوج کے سربراہ بننے کے اُمیدواروں میں شامل نہیں تھے۔ لیکن آہستہ آہستہ وہ ترقی پاتے گئے اور اس عہدے تک پہنچ گئے۔

بھارت کے جندل اسکول آف انٹرنیشنل افیئرز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نیہجن کپگن نے بتایا کہ وہ ایسی شخصیت نہیں تھے کہ برمی فوج میں اپنا کوئی خاص مقام پیدا کر سکتے۔

جنرل تھان شا کے مداح

من آنگ لینگ کی قسمت اس وقت کھلی جب وہ فوج کی 88 ویں لائٹ انفنٹری ڈویژن میں شامل ہوئے جسے کرنل تھان شا کمانڈ کر رہے تھے۔ لینگ نے شا کو اپنا اُستاد بنا لیا۔ بعدازاں جنرل بننے والے تھان شاہ 1992 سے 2011 تک میانمار میں فوجی دورِ حکومت میں ملک کے سربراہ رہے۔

2011 میں فوجی حکومت کے خاتمے کے بعد جنرل شا نے من آنگ لینگ کو اپنا جانشین مقرر کیا اور وہ طویل فوجی دورِ حکومت کے بعد ملک کے کمانڈر ان چیف بن گئے۔

نیہجن کپگن کے مطابق اس وقت برمی فوج میں بہت سے سینئر جرنیل اس منصب کے اہل تھے۔ تاہم جنرل شا نے لینگ کو کمانڈر ان چیف بنایا تاکہ وہ فوج میں اُن کے نظریے کو برقرار رکھ سکیں۔

تجزیہ کاروں کے بقول 2011 میں فوجی حکومت کے خاتمے کے باوجود ملک کی طاقت ور فوج نے سیاسی معاملات میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھا۔ گزشتہ سالوں کے دوران لینگ سویلین حکومت سے براہِ راست تصادم سے گریز کرتے ہوئے قومی رہنما کے طور پر غیر ملکی دورے کرتے رہے۔

ان دوروں کی سوشل میڈیا پر بھی بھرپور کوریج کی جاتی رہی۔ تجزیہ کاروں کے بقول اس کا مقصد عوام کی نظروں میں ان کی اہمیت میں اضافہ کرنا تھا۔ تاہم عالمی سطح پر روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مبینہ مظالم کے باعث اُن کی ساکھ متاثر ہوتی رہی۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اور مغربی ممالک 2016 میں روہنگیا مسلمانوں کی مبینہ نسل کشی کا ذمہ دار اُنہیں ٹھیراتے رہے۔

سوچی​ سے اختلافات اور الیکشن فراڈ کے الزامات

آنگ سان سوچی کی جماعت نے گزشتہ سال ہونے والے عام انتخابات میں 83 فی صد ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی تھی۔ تاہم اُن کی جماعت کو دھاندلی کے الزامات کا سامنا رہا۔

فوج کی جانب سے مارشل لا لگانے کا عذر پیش کرتے ہوئے جاری بیان میں کہا گیا کہ ملک کے صدر نیشنل ڈیفنس اینڈ سیکیورٹی کونسل کا اجلاس بلانے سے قاصر رہے جب کہ الیکشن کمیشن بھی دھاندلی سے متعلق الزامات کی شفاف تحقیقات کرانے میں ناکام رہا۔

امریکی اخبار ‘نیو یارک ٹائمز’ میں 2017 میں شائع ہونے والی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق جنرل من آنگ لینگ 2020 میں صدر بننے کا ارادہ رکھتے تھے۔ تاہم گزشتہ سال نومبر کے انتخابات میں فوج کی حمایت یافتہ یونین سولیڈیریٹی اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (یو ایس ڈی پی) بری طرح ناکام ہوئی جس کے بعد تجزیہ کاروں کے بقول فوجی سربراہ کے عزائم کو دھچکہ لگا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق پیر کی فوجی مداخلت کے بعد فوج نے ایک بار پھر میانمار کے پہلے سے ہی کمزور جمہوری نظام کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیے ہیں۔

میانمار کے جمہوریت پسند طبقات یہ توقع کر رہے تھے کہ جولائی میں کمانڈر ان چیف کی ریٹائرمنٹ کے بعد ملک میں جمہوری نظام مضبوط ہو گا۔ تاہم اب شاید اس کے لیے مزید انتظار درکار ہو گا۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa