تجدید عشق کا سفر


ہمارے معاشرے میں شادی کو اگر بیس برس گزر جائیں تو ازدواجی تعلقات کی حدت کچھ یوں محسوس ہوتی ہے کہ جیسے بھڑکتے ہوئے شعلوں میں لپٹے کوئلے سلگ سلگ کر محض راکھ سے بن گئے ہوں۔ سالہا سال سے ذرہ بہ ذرہ پڑتی ذمہ داریوں کی گرد تعلقات کو بے کیف بنا دیتی ہے۔ شادی شدہ زندگی کا حسن، نشاط کی اوج پر پہنچے ہوئے جذبے سے شروع ہو کر باہمی احتیاج کی چوکھٹ پر سانس توڑ دیتا ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ تسلسل کے ایندھن سے مشروط تعلقات کے دیے کی لو بے پروائی کی ہوا کے آگے ہتھیار ڈال دیتی ہے۔ بھلا یکسانیت کے چشمے سے سوائے افسردگی کے اور کیا پھوٹتا ہے۔

ان تمام تلخ حقیقتوں کے بالکل برعکس، دو دہائی قبل پڑنے والے ہمارے رشتے کی نیو نہ جانے کس جذبے پر رکھی گئی تھی کہ عمارت نہ صرف قائم ہے بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سنورتی جا رہی ہے۔

شادی کی کامیابی کو اگر آبادی میں گراں قدر اضافے کی پیمائش سے نہ جانچا جائے تو شادی ہماری حسین ترین کامیابیوں میں سے ایک سمجھنی چاہیے کہ اس کا تسلسل دہائیوں پر محیط ہے۔

کسی بھی شعبے میں کام کرنے کے کچھ مخصوص فوائد ہوتے ہیں جو محض انہی افراد کے لئے مختص ہوتے ہیں جو اس شعبے سے وابستہ ہوں۔ ہمارا تعلق کیوں کہ ہوائی جہازوں کی مرمت سے ہے لہٰذا جہاں جہاں وہ پرواز بھرتا ہے، ہم بھی بھاگتے ہوئے اس میں سوار ہو سکتے ہیں۔ اسی سہولت کے طفیل ہم ساری دنیا میں پھیلے فطرت کے پر حسن تنوع کو محسوس کرتے رہے ہیں۔ امریکا اکثر و بیش تر جانا ہوتا ہے کہ اہلیہ کی ہمشیرہ اور ہمارے چھوٹے بھائی کی وہاں مستقل رہائش ہے۔

ہر سفر میں کہیں نہ کہیں سارے خاندان کے ساتھ سڑک ناپنے کی روایت دہرائی جاتی ہے۔ وہاں اس ریت کو روڈ ٹرپ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس مرتبہ بھی ہم نے یہ روایت نہ توڑی البتہ جانے کیوں یہ فیصلہ کیا کہ بزم کی رونقیں ایک جانب علیحدہ رکھ کر خلوت کے جمال کو ایک مرتبہ پھر محسوس تو کیا جائے لہٰذا ہم دونوں اکیلے، یہاں تک کہ تینوں بچوں، حتیٰ کہ نو سالہ حیدر میاں کو بھی چچا کے پاس چھوڑ کر پہاڑوں کی جانب روانہ ہوئے۔ جی ہاں پچھلے جملے میں ”دونوں“ اور ”اکیلے“ بظاہر دو متضاد الفاظ ایک ساتھ استعمال ہوئے ہیں۔ اسے غلطی سمجھنے والوں کے لئے دعا ہے کہ اللہ انہیں قرب کی منزلوں سے روشناس کرے۔

شریو پورٹ سے یوریکا اسپرنگ کا سفر کچھ تین پہر کا ہے۔ عجب معاملہ تھا کہ گاڑی کے پہیے آگے کی جانب جا رہے تھے اور یادیں ہمیں کھینچ کر وہاں لے گئی تھیں جہاں واپس لوٹنا کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ممکن ہو گا۔ کیا حسین طلسم تھا۔ یہ تمام وقت، لمحہ بہ لمحہ ہم نے دو ہزاریے میں گزارا۔ پہاڑوں کو کاٹ کر بنایا گیا راستہ کیا ہی دلفریب تھا۔ کچھ انتہائی خطرناک موڑ بھی آئے۔ راستہ زندگی دہرا رہا تھا۔ وہاں پہنچے تو رہنے کے لئے ہم نے درختوں پر ایستادہ شجر گھر کو منتخب کیا۔

سوچا کہ دماغ عرش اعلیٰ پر ہو تو پاؤں بھی زمین پر نہیں پڑنے چاہئیں۔ صبح ہوئی تو گائیڈڈ ٹور کے لئے چل پڑے۔ دو ہزار نفوس پر مشتمل یہ چھوٹا سا شہر ڈیڑھ صدی پہلے آباد ہوا تھا۔ خدا نے حسن دیا تھا تو بسانے والوں کو حسن کی حفاظت کا جوہر ہی بخشا تھا۔ انیس سو ایک میں تعمیر کردہ پیلس ہوٹل میں اس زمانے میں فرانس سے درآمد کیا گیا نیون سائن، اس وقت بھی مسکرا رہا تھا۔ بیسویں صدی میں بنے وکٹورین طرز تعمیر پر بنائے گئے پتھر اور لکڑی کے گھر اسی کر و فر کے ساتھ سانس لے رہے تھے۔

گائیڈ نے ہمیں بتایا کہ ڈکیتی کی آخری واردات یہاں سو سال قبل ہوئی تھی۔ ہمیں ان کی کم مائیگی پر کراچی بہت یاد آیا۔ یہ شہر دو اعتبار سے انتہائی منفرد ہے۔ ایک تو یہ کہ پورے شہر میں کہیں بھی ٹریفک کا کوئی اشارہ نہیں ہے اور دوسری یہ کہ سڑک پر کوئی بھی موڑ نوے کے زاویے پر نہیں ہے۔ یہ واقعی حیران کن بات تھی جس کا ہم نے خود بغور مشاہدہ کیا۔ تاریخی قلب شہر سے گزرتے ہوئی اس معمر گائیڈ نے ہمیں درختوں کا وہ جھنڈ بھی دکھایا جن کے بیج اس کی بیٹی نے بچپنے میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بوئے تھے۔

زمین سونپی گئی امانت، سود کے ساتھ واپس کرتی ہے۔ خاک اور خاک کے خمیر سے محبت کا اندازہ یوں کر لیجیے کہ اس چھوٹے سے شہر نے سرمایہ دار عفریتوں جیسے کہ وال مارٹ کو مقامی کاروبار تباہ کرنے کی اجازت اب تک نہیں دی ہے۔ شہر کیا تھا، خوابوں کی نگری تھی۔ تیسرے دن جب ہم گھر کی جانب لوٹ رہے تھے تو شام ہو رہی تھی۔ تاریکی انگڑائی لے رہی تھی۔ آسمان کپاس برسا رہا تھا اور ہمارے باہمی ربط میں صبح صادق کی سرخی جگمگا رہی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).