جب شنکر کو دوست پر گولی چلانے کا حکم ملا


آمنے سامنے فوجی ڈٹے ہوئے تھے لیکن کچھ عرصے سے ایک دوسرے پر فائرنگ بند ہو چکی تھی۔ پچیس سالہ گبرو جوان شنکر دور بین لگائے دشمن کی نقل و حرکت دیکھتا رہتا۔ اب تو روز دشمن کا ایک ہی معمول تھا۔ ڈیوٹی کا بدلنا، کھانا پکانا اور مورچوں میں کھانا، چائے پکانا، سامان کی سپلائی کو ٹھکانے لگانا، کوڑا کرکٹ جمع کرنا۔ شنکر روز یہ دیکھ دیکھ کر کافی بور ہو چکا تھا۔

اس کے اپنی طرف بھی اسی طرح کے شب و روز تھے۔ تنگ آ کر اس نے سوچا کہ میں دور بین کو کیوں نہ دشمن کے چہروں پر فوکس کروں تاکہ پتا چلے ان کی شکلیں کیسی ہیں۔ پھر اسے اپنی سوچ پہ ہنسی آئی۔ شکلیں تو وردی میں سب کی ایک جیسی لگتی ہیں۔ پھر بھی ازراہ تجسس دشمن کے ایک چہرے کو دور بین کا نشانہ بنایا۔ یہ بھی میری طرح ہی کا لگتا ہے، گبرو جوان، شاید شادی شدہ اور ایک آدھ بچے کا باپ بھی ہو گا۔ اس کا چہرہ کتنا معصوم لگتا ہے۔

شنکر اس دشمن کی شکل سے مانوس ہو گیا۔ پھر شنکر یہ سوچ کر پریشان سا ہو جاتا۔ بھلا میری اس سے کیا دشمنی، یہ بھی میری طرح فوج کا ملازم ہے۔ پھر یہ مجھے کیوں مارنا چاہتا ہے اور میں اسے کیونکر قتل کرنا چاہتا ہوں۔ پتا نہیں کون سے گاؤں سے یہ آیا ہو گا جہاں اس کی بوڑھی ماں اور شاید اس کی جوان بیوی اس کے واپس آنے کا بے چینی سے انتظار کر رہی ہوں گی۔ اس کی جان کی حفاظت کے لئے کبھی رات کے تیسرے پہر اندھیرے میں گڑگڑا کر اپنے رب کے سامنے دعائیں مانگتی ہوں گی۔

کس بے چینی سے اس کے خط کے انتظار میں ڈاک کے آنے کے وقت ہر آہٹ پر چونک جاتی ہوں گی۔ اور اگر اس کا کوئی چھوٹا بچہ ہے تو باپ کی تصویر دیکھ کر ایک مسرت کی لہر اس کے سر سے پاؤں تک دوڑ جاتی ہو گی۔ اس کی ماں جھوٹ یا سچ اس کو بتاتی ہو گی کہ اس کا بابو چند دنوں میں لوٹ آئے گا۔ اس سامنے والے دشمن کے میری طرح کے کچھ اپنے بھی تو ارمان ہوں گے، فوج میں ترقی کرے یا کچھ اور تعلیم حاصل کرے، اپنے بچوں کو کسی قابل کرے۔ شنکر روز سوچے کہ کس طرح اس دشمن سے بات چیت کرے، اس مشین گن کی بیرل کے تعلق کے علاوہ اس سے کوئی انسانی تعلق قائم کرے لیکن یہ کرنا ملازمت کے تمام ضابطوں کی خلاف ورزی ہو گا۔

کئی اور ماہ اسی طرح سردی اور برفباری میں ٹھٹھرتے ہوئے لیکن کسی کشیدگی کے بغیر گزر گئے۔ آخر کار موسم بہار نے سرما کو پرے دھکیل دیا۔ سب جوان یخ بستہ ہواؤں اور برفباری سے انتہائی بیزار ہو چکے تھے۔ جیسے ہی فضا میں اکا دکا پرندے نظر آتے تو ایک عجیب سی خوشی دماغ کے کونے کونے میں سرایت کر جاتی۔

اچانک ایک دن پلاٹون کے کمانڈر نے اعلان کیا کہ موسم بہار کی آمد کی خوشی دونوں طرف کے فوجی آج شام کو مل کر منائیں گے۔ پانچ بجنے کو آئے تو دونوں طرف سے سفید جھنڈے بلند ہوئے اور دونوں طرف کے فوجی بیچ والی خالی جگہ پر پہنچ گئے۔ پھر کیا تھا کچھ ہچکچاہٹ کے بعد دونوں طرف کے کارندے اپنے دشمنوں سے ہاتھ ملا رہے تھے اور ہنس ہنس کر بسنت کی مبارکباد دے رہے تھے۔ دوست و دشمن سب آپس میں مل کر ایک ہو گئے تھے۔ شنکر کی آنکھیں اس معصوم چہرے والے دشمن کو ڈھونڈ رہی تھیں۔

یہ کیسا دشمن تھا جس سے مجھے ملے بغیر اتنی الفت ہو گئی تھی۔ جب اس نے شنکر کو اپنی طرف آتے دیکھا تو اس کے چہرے پر اب معصومیت کے ساتھ ساتھ حیرانی بھی تھی۔ پھر وہ دونوں رات دس بجے تک اکٹھے ہی رہے۔ باتوں کے ساتھ کھانا، چائے، سگریٹ، بئیر سب چلتا رہا۔ موسیقی کی دھنوں پر خوب ناچ گانا ہوا۔ رات کے دس بجے مورچوں میں واپس جانے کا وقت آیا تو شنکر اس کے ساتھ بغلگیر ہو گیا اور اس نے بھی شنکر کو اپنے بازوؤں میں جکڑ لیا اور اپنے پتے تبدیل کرنے کے بعد دونوں نے ایک دوسرے کو خط لکھنے کا وعدہ کیا۔

آج صبح شنکر پھر ٹیلے کی اوٹ سے دور بین کے ذریعے اسے گاہے بگاہے دیکھ رہا تھا۔ وہ تو میرا دوست ہے، نہیں نہیں وہ میرا دشمن بھی ہے۔ آج ایک قریبی دوسرے محاذ پر دشمن نے کچھ پیش رفت شروع کی تھی۔ دشمن پر دباؤ ڈالنے کے لئے شنکر کے کمانڈر نے گولہ باری شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ شنکر نے اپنی مشین گن سے فائر کرنے کے لئے پوزیشن سنبھالی تو اسے دور اس کے جسم کا بایاں حصہ نظر آیا۔ شنکر کا سارا جسم پسینے سے شرابور ہو گیا اور اس کا ہاتھ مشین گن سے پھسل کر نیچے آ گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).