5 فروری۔ یوم یکجہتی کشمیر


گزشتہ تین دہائیوں سے 5 فروری کا دن کشمیریوں سے اظہار یک جہتی کے طور پر منایا جاریا ہے اور اس بار یہ دن ایسے موقع پر آیا ہے جب مقبوضہ کشمیر پر غاضب ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں ہزاروں کسان مودی سرکار کی زرعی اصلاحات کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور تازہ زرعی اصلاحات کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کسانوں کا یہ احتجاج گزشتہ تین ماہ سے جاری ہے تاہم اس میں شدت اس وقت آئی جب کسان پایہ تخت میں حکومتی رکاوٹوں کو ختم کرتے ہوئے داخل ہوئے۔ پانچ لاکھ کسان جس میں اکثریت پنجاب اور ہریانہ کے سکھوں کی ہے اپنے اہل خانہ کے ساتھ احتجاج میں شریک ہیں۔ کورونا وبا کے دوران ناقص حکمت عملی سے معاشی طور پر ڈولتی مودی سرکار کسانوں کے احتجاج پر ہٹ دھرمی سے ڈٹی ہوئی ہے

ایسے وقت میں جب مشتعل سکھ کسانوں نے دہلی کے لال قلعہ پر خالصتان کا پرچم لہرایا ہے 5 فروری کو سلگتے چناروں کی سرزمین مقبوضہ کشمیر کے سرینگر میں پاکستانی پرچم لہرایا جائے گا۔ جبکہ لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف بسنے والے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ملک بھر میں اجتماعات ہوں گے، ریلیاں نکالی جائیں گی۔ پاکستان کے طول وعرض میں کشمیریوں سے بھرپور اور والہانہ محبت کا اظہار کیا جائے گا۔ کشمیریوں سے پاکستانیوں کی محبت کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے اس کا اظہار اس وقت بھی ہوا جب ہندوستان نے جولائی 1972 کے شملہ معاہدہ سے روگردانی کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے رہنما شیخ عبداللہ سے فروری 1975 میں معاہدہ کر لیا۔

اس معاہدے کے تحت شیخ عبداللہ الگ کشمیر کے ریفرنڈم کے مطالبے سے دستبردار ہو گئے۔ اوریہ شرمناک معاہدہ کرنے کے بدلے شیخ عبداللہ 1975 سے 1982 تک مقبوضہ کشمیر کے وزیراعلیٰ رہے۔ شیخ عبداللہ سے معاہدہ ناصرف شملہ معاہدے سے واضح انحراف تھا بلکہ مقبوضہ کشمیر پر دہلی سرکار کا مستقبل کا لائحہ عمل بھی واضح ہو گیا۔ اندرا عبداللہ معاہدئے کے خلاف اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹونے کہا کہ پاکستان کشمیریوں کا بھرپور ساتھ دے گا اور انہوں نے قوم سے ہڑتال کی اپیل کی۔ 28 فروری 1975 کوکشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے طور پر پاکستان میں ایک بھرپور تاریخی ہڑتال ہوئی۔

اس کے بعد کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کاسلسلہ چلتا رہا تاہم اس کے لیے کوئی دن مخصوص نہیں تھا۔ 1990 میں جب مرکز میں پیپلز پارٹی اور پنجاب میں مسلم لیگ کی حکومت تھی آزاد کشمیر کے وزیراعظم سردار ابراہیم نے تجویز دی کہ کشمیریوں سے یکجہتی کے لیے ایک دن مقرر کیا جائے۔ جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد نے اس کے لیے 5 فروری کا دن تجویز کیا اور اس تجویز سے وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو اور وزیراعلیٰ میاں نواز شریف نے اتفاق کر لیا۔ یوں 5 فروری 1990 کو پہلی بار یہ دن منایا گیا اور گزشتہ تین دہائیوں سے 5 فروری کے دن کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیا جاتا ہے۔

کشمیر کی گتھی بڑی باریک بینی کے ساتھ الجھائی گئی تھی سو اس کے سلجھنے کا کوئی سلسلہ نا بن سکا۔ کشمیر کا مسئلہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید الجھتا گیا۔ 1820 میں قائم ہونے والی ریاست کشمیر کے مہاراجہ کی سخت گیر پالیسیوں کے سبب کشمیریوں کو کبھی سکون، تہذیبی وسماجی ماحول نصیب نا ہوسکا۔ 1857 کی جنگ آزادی میں ریاست کشمیر نے انگریزوں کا ساتھ دیا جس کی بنا پر ریاست کو انگریز سرکار کے ماتحت دے دیا گیا۔ کچھ سال بعد انگریز سرکار نے ڈوگرا راج بحال کر دیا اور اسی خاندان کے راجہ ہری راج 1947 تک حکومت کرتے رہے۔

تقسیم ہند کے وقت ریاستوں اور راجواڑوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ جس ملک کے ساتھ چاہیں الحاق کر لیں تاہم کشمیر کے مہاراجہ نے وقت پر فیصلہ ناکیا جس پر کشمیری مسلمانوں میں بے چینی بڑھنے لگی اور پونچھ کے کشمیریوں نے آزاد کشمیر کا نعرہ لگا دیا۔ 24 اکتوبر 1947 کو وادی کے مغربی حصے پر مہاراجہ کا عملی کنٹرول ختم ہو گیا اور آزاد حکومت جموں وکشمیر کے نام سے ایک عبوری انقلابی حکومت قائم ہو گئی۔ بڑھتی ہوئی بغاوت کے خوف سے مہاراجہ کشمیرہری سنگھ نے 26 اکتوبر 1947 کو کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کردیے۔ اور اگلے ہی روز 27 اکتوبر کو ہندوستان نے سرینگر میں جاری بغاوت کو کچلنے کے لیے اپنی فوجیں اتار دیں جس پر پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔

کشمیر کا مسئلہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید پیچدہ ہوتا گیا۔ تاہم اس میں پہلی بار اس وقت سنجیدہ بات ہوئی جب ہندوستانی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی بس میں لاہور آئے اور 21 فروری 1999 کو اعلان لاہور پر دستخط کیے جس کے تحت کشمیرسمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کو مذاکرات سے حل کرنے کا اعادہ کیا گیا۔ مگر مزید پیش رفت نا ہو سکی۔ مشرف دور میں بیک ڈور رابطے جاری رہے اور اس کے تحت اپریل 2005 میں مظفر آباد سرینگر بس سروس شروع ہوئی۔ اس سب کے باوجود کشمیر کے مسئلے کا کوئی حل تلاش نہیں کیا جاسکا۔

5 اگست 2019 کو مودی سرکار نے کشمیر کو خصوصی دینے والے آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کر کے متنازعہ خطہ کشمیر کو ہندوستان میں ضم کر کے اس کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دے دیا۔ اس اقدام سے گویا مقبوضہ کشمیر میں آگ بھڑک اٹھی۔ حالات اس قدر خراب ہوئے کہ 16 اگست 2019 کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس کشمیر پر ہوا۔ مگر اس تنازعے کا حل پھر بھی نا نکل سکا۔ کشمیر کے تنازعہ پر اقوام متحدہ کی منظور کی گئی قراردادیں سلامتی اورامن کے اس ادارئے پرسوالیہ نشان ہیں۔

مقبوضہ کشمیر کے چنار سلگ رہے اس کی سبزرنگ وادیاں بے گناہ کشمیریوں کے خون سے سرخ ہو چکی ہیں۔ خطے کے ڈیڑھ ارب سے زائد انسانوں کا مستقبل کشمیر کے تنازعہ سے جڑا ہوا ہے۔ دو ایٹمی طاقتوں کے مابین یہ تنازعہ دنیا کو کسی بھی وقت تباہی میں دھکیل سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت دیا جائے۔ کشمیریوں کا اختیار دیا جائے کہ وہ اپنی زندگی کیسے اور کس کے ساتھ گزارنا چاہتے ہیں۔ رہی بات اظہار یکجہتی کی تو اس سے زیادہ کیا اظہار ہو کہ قائد نے فرمایا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).