کشمالہ طارق کا کائناتی دکھ اور غریب لوگ


وفاقی محتسب برائے ہراسانی کشمالہ طارق کا ٹی وی کلپ سن کر مجھے آنکھوں میں آنسو آ گئے، خود وہ بھی روہانسی آواز میں گفتگو کر رہی تھیں، کتنے دکھ کی بات ہے، ایک عظیم ماں اور امیر ترین نئے باپ کے بیٹے کو اس ٹریفک حادثے کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے جو ان چار نوعمر نوجوانوں کی جانیں لے گیا جو مانسہرہ سے بہتر مستقبل کا حسین خواب سجائے امیروں کے شہر اسلام آباد آ گئے تھے

پسماندہ اور غریبوں کے شہروں کے باسیوں کو کس الو کے پٹھے نے مشورہ دیا تھا کہ وہ اہل اقتدار، امیروں اور امیر زادوں کے شہر میں جائیں کیونکہ امیروں کے شہر صرف ان کے بچوں اور پالتو کتوں کے لئے ہیں، مانسہرہ کے ہلاک شدگان کو مر جانا ہی چاہیے تھا کہ ان کو علم نہیں تھا کہ ایک عظیم ماں اور نئے امیر ترین باپ کا بیٹا اسلام آباد کی سڑک پر نکل پڑا ہے جس پر کسی غریب کو سڑک پر آنے کی جرات کیسے ہوئی؟ ان کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے تھا اور امیرزادے نے ٹھیک کیا۔ چاروں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح روند ڈالا۔ بے شک ان غریبوں کو مر ہی جانا چاہیے جو بادشاہوں کے راستے میں آ جاتے ہیں

کشمالہ طارق کے کلپ میں جتنا دکھ اور کرب تھا وہ میں تو برداشت نہیں کر سکا اور خدا کی قسم پورا نہیں سن سکا اور بند کر دیا، چار ماؤں کے خواب ٹوٹ گئے، گودیں اجڑ گئیں، بہنوں کے مان ٹوٹ گئے، باپوں کی کمر جھک گئی، زندگی بھر ان کی آنکھوں میں آنسو رہیں گے تو کیا ہوا، ایک عظیم ماں اور نئے امیر ترین باپ کے بیٹے پر ایسے کتنے ہی قربان، کیونکہ عظیم ماں نے شاید ایک ہی جنا ہے جس کی زندگی اور سلامتی بہت ضروری ہے

کشمالہ طارق کا کہنا تھا کہ معمول کا حادثہ تھا، روزانہ سڑکوں پر درجنوں لوگ مر جاتے ہیں مگر میرے معاملے پر ہر بات کو اچھالا جاتا ہے۔ ان کی بات سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں، حال ہی میں نیب رپورٹ میں 12 کروڑ روپے کا بھی ذکر آیا ہے، اب اگر کسی نے کسی کی عظمت سے متاثر ہو کر کچھ کروڑ دے دیے ہیں تو میڈیا کو کیوں تکلیف ہوتی ہے۔ یہ بھی ایک معمول کا حادثہ تھا جیسے ہر روز اسلام آباد کی سڑکوں پر ہوتے ہیں۔

بیڑا غرق ہو ان صحافیوں کا، جو ہر وقت کتے کی طرح سونگتے ہوئے خبر پر پل بھر میں پہنچ جاتے ہیں، اس روز بھی اگر صحافی موقع پر نہ پہنچتے، عظیم بیٹے کو نہ پہچانتے اور رولا ہی نہ پڑتا، حادثے کی ویڈیو رات گئے ٹویٹر پر چل گئی، میڈیا مالکان کو لالے پڑے گئے کہ یہ کیا ہو گیا، ہماری آج کی بکاؤ صحافت کا بہت بڑا مسئلہ ہے، صحافی خبر سونگتا پھرتا ہے اور خبر نکال لیتا ہے مگر میڈیا مالکان صحافت کے بجائے کاروبار کر رہے ہیں اس لئے اس خبر کو بڑے ادب واحترام سے چھاپا گیا کہیں ملکہ معظمہ کی شان میں کوئی ایک لفظ غلط نہ چلا جائے

صحافت میں ہمیشہ ہوتا ہے کہ کوئی حادثہ یا واقعہ ہو جائے اس کا فالواپ دیا جاتا ہے مگر اس حادثے میں کم ازکم مجھے تو کس بھی جگہ پر مرنے والے بچوں کی تصاویر تک نظر نہ آئیں، کیا مانسہرہ کے صحافی اتنے نا اہل اور سست ہیں کہ ان کے شہر میں چار لاشیں آئیں اور وہ ان بچوں کی فائل تصاویر تک نہ نکال سکیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چاروں لڑکے کے جنازے رات کی تاریکی میں اٹھائے گئے تھے، یہ بھی ممکن ہے کہ مانسہرہ کے صحافیوں نے اپنے فرائض دیانتداری سے ادا کیے ہوں اور تصاویر بھی فائل کی ہوں مگر تاجر مالکان کو ٹی وی چینلز پر دکھانے یا اخبارات میں چھاپنے کی ہمت نہ ہو سکی ہو۔

اس سے ہماری صحافت کا اندازہ لگا لیں کہ جس کا جنازہ نکل چکا ہے۔ ویسے متوفی نوجوانوں کی تصاویر چھپ بھی جاتیں تو کیا ہو جاتا؟ کونسا انہوں نے زندہ ہو جانا تھا، اب اخباری خبر ہے کہ عظیم اور لاڈلے بیٹے کو کیس میں ملزم نامزد کر دیا گیا ہے، اسلام آباد کی عدالت نے ساڑھے بارہ ہزار فی موت کے حساب سے نامزد ملزم کی ضمانت لے لی یعنی صرف پچاس ہزار روپے کے مچلکے جمع کرانے پڑے۔ اتنے پیسوں کا تو شاید عظیم بیٹے کا پالتو کتا ایک مہینے میں کھانا کھا جاتا ہو۔

بہرحال کشمالہ طارق کے دکھ میں برابر کا شریک ہوں، ان کو پہنچنے والے ذہنی صدمے پر میں بہت رنجیدہ ہوں۔ چار بچے مر گئے، کون سی قیامت آ گئی ہے۔ مرنے والے اینٹی نارکوٹکس فورس کا انٹرویو دینے آئے تھے۔ اگر وہ منتخب ہو بھی جاتے تو کون سا انہوں نے ملک سے منشیات کا خاتمہ کر دینا تھا بلکہ اچھا ہوا مر گئے۔ اب ان کی جگہ کسی اور کو ملازمتیں مل جائیں گی۔

محترمہ کشمالہ طارق کو پریشان ہونے کی ضرورت قطعاً نہیں، اگر واقعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آبھی گئی ہے تو کیا ہوا، کوئٹہ میں پولیس سب انسپکٹر کو اپنی بڑی گاڑی سے کچلنے والے لینڈ لارڈ مجید اچکزئی کی بھی فوٹیج سامنے آ گئی تھی مگر وہ باعزت بری ہو گیا۔ اس کیس میں بھی محترمہ کا بیٹا، نیا شوہر اور جو کوئی بھی ہوا، باعزت بری ہو جائیں گے کیونکہ عظیم سپوت نے ہی مستقبل میں ملک کا نظم ونسق سنبھالنا ہے، ایسے نایاب ہیرے کو سزا کیسے ہو سکتی ہے؟ عام آدمی کی کیا اوقات ہے۔ مرتے رہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).