قتل آپ نے کیا یا آپ کے ہم شکل نے؟


آپ کبھی مادام تساؤ کے میوزیم میں یا کسی آرٹ گیلری میں جائیں، وہاں اپنی شکل کا مجسمہ یا پینٹنگ لگی دیکھیں۔ یہ منظر دیکھ کر دوبارہ اپنے آپ کا بغور آئینے میں جائزہ لیں، پھر ایک بار اس مجسمہ یا پینٹنگ کو دیکھیں اور آپ کی آنکھیں حیرت سے کھلی رہ جائیں کہ وہ آپ ہی ہیں۔ کیا واقعی یہ میرا مجسمہ یا میری پینٹنگ ہے؟ جی ہاں، یہ آپ ہی کا ہم شکل ہے، کیوں کہ آپ کی شکل کسی بھی دور میں ایک بادشاہ، وزیر، مشیر، سپہ سالار، عالم، سائنسدان، ادیب، مصنف، غرض یہ کہ کوئی بھی عالمی سطح پر جانی پہچانی شخصیت سے مشابہہ ہو سکتی ہے اس لیے آپ کو حیران ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ اس بات کو لے کر آپ کو خوش ہونا چاہیے۔ اب آپ اپنا کیمرہ نکالیں اور اس مجسمہ/پینٹنگ کے ساتھ اپنی تصویر بنائیں اور ان لوگوں کے کلب میں شامل ہو جائیں جن کے ہم شکل دنیا بھر میں اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔ آپ بادشاہ یا کوئی تاریخی شخصیت نہ بھی بن سکے تو کیا ہوا، آپ کا ہم شکل تو بادشاہ رہ چکا ہے۔ اسی حسن ظن پر زندگی کے خوبصورت لمحات گزارئیے۔

سینہ گزٹ کے مطابق اس دنیا میں آئے ہر انسان کی اپنی شکل و شباہت، نین نقش، قد کاٹھ، ڈیل ڈول سے ملتے جلتے تین سے سات لوگ ہوتے ہیں۔ خواہ وہ ایک ہی وقت میں موجود ہوں یا مختلف صدیوں میں آئے ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے آپ کی شکل کے باقی افراد ابھی اس دنیا میں آنے ہوں اور آپ اپنی شکل کے پہلے انسان ہوں۔ ایک تھیوری کے مطابق تو ( 1 / 135 ) ایک سو پینتیس میں سے ایک چانس اس بات کا بن سکتا ہے کہ آپ کا ہم شکل موجود ہے لیکن یہ تو طے ہے کہ اس وقت ( 7.8 Billion) سات اعشاریہ آٹھ بلین دنیا کی آبادی میں ایک فیصد ہم شکل لوگ تو موجود ہوں گے۔ آپ کے کسی دوست، عزیز و اقارب نے بھی ضرور آپ کو کسی وقت کہا ہو گا کہ آپ کی شکل کا فلاں بندہ ایک جگہ دیکھا تھا۔ یا پھر آپ نے کسی کو دیکھا ہو گا جس کو آپ جانتے ہیں لیکن اس کو مخاطب کرتے ہوئے آپ کو معذرت کرنی پڑی ہو گی، یہ کہتے ہوئے،

” میں معذرت خواہ ہوں، میں سمجھا آپ میرے کزن/دوست/انکل ہیں، جو کہ بالکل آپ کے ہم شکل ہیں“ ۔

جوانی میں تو جب عشق دو طرفہ یا یک طرفہ ہوتا ہے، تو ہمیں اپنا محبوب/محبوبہ اس وقت کے فلمی ہیرو/ہیروئن کی مانند دکھائی دیتا ہے۔ اور جب ہم اس بات کا اظہار کرتے ہیں تو فریق دوئم شیشہ دیکھتے ہی اپنا عکس اسی مشہور ہیرو/ہیروئن جیسا سمجھتے ہیں (لیکن ہم اس خام خیالی کا یہاں ذکر نہیں کر رہے ) ۔

سائنس اور نفسیات اس بات پر تو یقین رکھتی ہے کہ انسانی شکل و صورت کسی سے مشابہہ ہو سکتی ہے لیکن انسان کا اپنا ہی عکس، بھوت یا کسی بھی اور نفس کی صورت میں کوئی وجود نہیں رکھتا، اس کو انسانی ذہن کی اختراع سمجھیے یا خواب اور نیند سے بیداری پر اپنے وجود پر مکمل قابو پانے کی کوشش کا درمیانی وقفہ، لیکن اس میں حقیقت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔

کیا آپ کا ہم شکل بھوت یا کوئی آپ کا اپنا ہی نفس ہوتا ہے؟ یا پھر اس بات کو صرف شہرت حاصل کرنے کے لیے کہا جاتا تھا۔ ان کے لئے اٹھارہویں صدی کے آخیر اور انیسویں صدی میں ایک اصطلاح (Doppelgander) بھی استعمال کی جاتی رہی ہے۔ یہ لفظ جرمنی کے رومانوی شاعر اورمصنف جین پال نے 1796 ء میں اپنے ایک ناول (Siebenkäs) ”زیبن کیز“ میں پہلی بار استعمال کیا تھا۔ اس کو پہلے پہل تو انسان کی اپنی ہی شبیہ کی صورت میں لیا جاتا تھا۔

کافی عرصہ اس پر بحث چھڑی رہی کہ یہ شبیہ تصوراتی ہے یا خیالی ہے۔ اس سے ملتی جلتی تھیوری تو قدیم مصر کے دور سے چلی آ رہی تھی۔ پھر بحث کا رخ اس طرف بھی مڑ گیا کہ یہ ایک گھوسٹ ہم شکل یا کوئی ایسی روح ہے جو کسی برے وقت کے آنے پر ہی ظاہر ہوتی ہے۔ انگلش اور جرمن لوک داستانوں کے مطابق تو اپنے ہم شکل کو روح یا کسی مادی شکل میں دیکھنا موت کے مترادف تھا۔ جو بھی شخص کھلی آنکھوں سے اپنا ہم شکل دیکھے، اس کی زندگی کا اختتام بہت قریب ہے۔

اس تھیوری کو اس وقت تقویت ملی جب 1860 ء میں امریکہ کے صدر ابراہام لنکن کے متعلق کہا گیا کہ اپنے پہلے الیکشن والی رات وہ گھر میں آرام کی غرض سے نیم دراز تھے، تو انہوں نے آئینے کی طرف دیکھا، ان کو اپنے چہرے کے ساتھ ایک اور چہرہ نظر آیا، وہ بھی ان کا اپنا چہرہ تھا، لیکن اس کا رنگ زرد تھا اور وہ لنکن کے چہرے کی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔ یہ دیکھ کر ابراہام لنکن اچھل کر کھڑے ہوئے تو دوسرا چہرہ منظر سے غائب ہو گیا۔

اس منظر کو دوبارہ دیکھنے کی غرض سے لنکن واپس بیٹھے اور آئینے کی طرف دیکھا، اس بار لنکن خود بھی گھبرا گئے اور ان کی بیوی میری ٹوڈ لنکن اس واقعہ سے پریشان ہو گئیں، لنکن نے میری ٹوڈ کو بھی اپنا ہم شکل دکھانے کی کوشش کی، جو کہ مزید دو مرتبہ اس وقت ظاہر ہوا جب میری ٹوڈ پاس نہیں تھیں۔ میری ٹوڈ نے اس واقعہ کی تعبیر یہ بتائی کہ دوسرا ہم شکل دراصل لنکن کا مردہ نفس ہے اور لنکن اپنی صدارت کی دوسری مدت میں مر جائیں گے۔ (میری کی تعبیر درست ثابت ہوئی اور لنکن کو دوسری صدارت کے دوران 1865 ء میں فورڈ تھیٹر، واشنگٹن میں گولی مار دی گئی تھی) ۔

اس بات کا خیال رہے کہ ہم یہاں (Strange Twins) اجنبی جڑواں ہم شکل والے لوگوں کی بات کر رہے ہیں، نہ کہ کسی بھوت پریت کی یا فرضی عکس کی اور نہ ہی پیدائشی جڑواں بہن/بھائیوں کی، پیدائشی جڑواں لوگ تو شکل کے ساتھ ساتھ کافی حد تک عادات میں بھی مماثلت رکھتے ہیں۔ جب کے اجنبی جڑواں ہم شکل شخص کی عادات بالکل ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتی ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کے دور میں ہمارے بے شک پچاس ہم شکل بھی آجائیں، تب بھی فنگر پرنٹس سے اس بات کا تعین کرنے میں بہت آسانی ہو گئی ہے کہ کون سا شخص کون ہے اور اس کی اصل شناخت کیا ہے۔ فنگر پرنٹس سے پہلے ہم شکل کی شناخت کرنے میں نہ صرف کافی وقت درکار ہوتا تھا بلکہ اس میں دھوکے کے چانس بھی بہت بڑھ جاتے تھے۔

اسی سے ملتا جلتا ایک واقعہ 1903 ء میں امریکی شہر کینساس کی لیون ورتھ جیل میں اس وقت پیش آیا جب ایک معمولی جرم میں ملوث افریقی۔ امریکی شخص ول ویسٹ کو لایا گیا۔ جیل کے کلرک نے کاغذی کارروائی کے دوران ول سے پوچھا، آیا وہ اس سے پہلے بھی اس جیل میں آیا تھا تو ول نے سرے سے اس بات کا انکار کر دیا۔ کلرک نے خیال کیا کہ ہر آنے والا قیدی اپنے متعلق یہی کہتا ہے۔ اس وقت کے رائج طریقہ (Bertillon Method) کے مطابق ول کی مختلف زاویوں سے تصاویر اور جسمانی پیمائش کے بعد کلرک کا شک مزید یقین میں بدل گیا کہ ول ویسٹ پہلے بھی یہاں آ چکا تھا۔

اپنے شک کو دور کرنے کے لئے کلرک نے قیدیوں سے متعلق فائلوں کی جانچ پڑتال شروع کی تو اسے ایک قیدی ولیم ویسٹ کے نام سے ملا۔ ولیم ویسٹ کی فائل کا بغور جائزہ لیا گیا تو یہ بات سامنے آئی کہ ول ویسٹ کے نام سے آئے قیدی کی نہ صرف شکل، آنکھیں، ناک، قدوقامت، رنگ ایک جیسا ہے بلکہ برٹیلین تکینک کے مطابق ان دونوں کی جسمانی پیمائش ہر زاویہ سے ایک جیسی ہے۔ ول ویسٹ اپنی بات پر ڈٹا رہا کہ اس فائل میں موجود شخص کی تصویر بھی اس کی نہیں ہے اور نہ ہی وہ کبھی آج سے پہلے اس جیل میں آیا ہے۔ جب کہ، ولیم ویسٹ دو سال پہلے قتل کی سزا بھگتنے اس جیل میں آ چکا تھا۔ جیل حکام نے جب ول ویسٹ کے فنگر پرنٹس کروائے تو اس سے پتہ چلا کہ ول ویسٹ اور ولیم ویسٹ دو الگ مجرم ہیں۔

مزید تحقیق پر یہ بات بھی سامنے آئی کہ اصل قاتل ول ویسٹ تھا اور ولیم ویسٹ دو سال سے اپنے ہم شکل ول ویسٹ کی وجہ سے جیل کی سزا کاٹ رہا تھا۔ مزید برآں پولیس اور جیل حکام نے اپنی نا اہلی چھپانے کی خاطر اس بات کو رد کر دیا اور اسی پر قائم رہے کہ ولیم ہی اصل قاتل تھا۔

اس دنیا میں بہت ایسی عالمی شخصیات بھی گزری ہیں جو کہ ایک ہی ٹائم فریم میں اپنی زندگی بھی گزار رہے تھے اور حیرت انگیز طور پر ایک دوسرے سے مکمل مشابہت رکھتے تھے۔

انگلستان کا بادشاہ جارج پنجم (George V) اور رشین ایمپائر کا زار نکولائی دوئم اس درجہ آپس میں ملتے جلتے تھے کہ بادشاہ جارج کی شادی کے موقع پر عوام کا جم غفیر زار روس کو ہی بادشاہ سمجھ رہا تھا۔ اسی طرح میخائل گلیونی جو کہ جارجیا کا ایک فنکار تھا اس کی شکل روس کے حکمران جوزف سٹالن سے ملتی تھی۔

جنگ عظیم دوئم میں جون 1944 ء کو فیصلہ کن معرکہ جس کو ڈی ڈے کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے، اس سے پہلے جرمن افواج کو دھوکہ دینے کے لیے کلفٹن جیمز نامی ایک شخص کو انگلستان کے فیلڈ مارشل جنرل برنارڈ مونٹگومری سے شکل و شباہت ایک جیسی ہونے پر جبل الطارق کے علاقے میں فوجی سرگرمیوں کا جائزہ لینے بھیجا گیا تاکہ جرمن ڈی ڈے کی تیاری سمجھ نہ سکیں اور یہی خیال کریں کہ خفیہ ذرائع سے ملنے والی خبر غلط ہے اور جنرل مونٹی تو افریقہ و اسپین کے دورے پر ہے۔

عراقی صدر صدام حسین کے متعلق بھی کہا جاتا رہا کہ اس نے مصنوعی طریقہ سے اپنے ہم شکل بنا رکھے ہیں تاکہ اس تک آسانی سے پہنچا نہ جا سکے لیکن صدام حسین نے امریکی افواج کے تفشیش کاروں سے اس بات کی تردید کی تھی۔

عالمی ادب کی بات کی جائے تو اس میں بھی فکشن و نان فکشن لٹریچر میں ہم شکل کی تھیوری کو مصنفین نے اپنا موضوع بنایا ہے۔ امریکی مصنف ایڈگر ایلن نے اپنے ناول ”ولیم ولسن“ میں اس پر بات کی کہ کیسے اس ناول کے مرکزی کردار کو سکول میں اپنا ہم شکل ملتا، اس کا لباس اس کی چال سب کچھ مماثلت رکھتا، حتی کہ اس کی تاریخ پیدائش بھی وہی ہوتی، بس ایک فرق ہوتا کہ ہم شکل سرگوشیوں میں بات کرتا تھا۔

اسی طرح دستوئفسکی جیسے عظیم روسی مصنف نے بھی اپنے ناول ”ڈبل“ میں ایسے کرداروں کا ذکر کیا ہے۔ چارلس ڈکنس نے بھی اپنے مشہور زمانہ ناول ”دو شہروں کی کہانی“ میں ڈارنے اور سڈنی کارٹن کے کرداروں کو کچھ اس رنگ میں پیش کیا ہے۔

کینیڈا کے فوٹو گرافر فانسو بینلے (François Brunelle) نے اس دنیا میں ہم شکل ڈھونڈنے کے لئے ایک شاندار کام سر انجام دیا۔ اس نے 12 سال لگا کر ایک پروجیکٹ (I ’m Not a Look۔ Alike) مکمل کیا، جس میں دنیا بھر سے 200 ہم شکل لوگ ڈھونڈے اور پھر ان کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر لیا۔ اس نے ایک نمائش کا بھی اہتمام کیا تھا جس میں دنیا بھر سے لوگوں نے شرکت کی۔ ایک لاکھ اسی ہزار ( 108000 ) لوگوں کی تصاویر لی گئیں جن میں سے صرف پچیس ( 25 ) ایسے لوگ اور ان کی تصاویر مل سکیں جو کہ 2000 سال پرانے مصری اور رومن ایمپائر کے مجسموں سے مشابہہ تھے۔ فانسو کے اس کام کو عالمی سطح پر سراہا جا رہا ہے۔

آپ بھی اگر اپنا ہم شکل اس دنیا میں ڈھونڈنا چاہتے، تو اس کے لیے آپ انٹرنیٹ پر موجود ویب سائیٹ سے استفادہ حاصل کر سکتے ہیں۔ فیملی سرچ کے نام سے بھی ایک ویب سائیٹ پر آپ دیکھ سکتے کہ اپنی تصویر کے مطابق زیادہ ممکنات کیا ہو سکتے ہیں۔ آپ کہاں سے ہیں؟ آپ کے عزیز و اقارب کے متعلق معلومات اور اس کے ساتھ ساتھ آپ اپنی کہانی اور خاندان کے متعلق بھی شیئر کر سکتے تاکہ آپ سے ملتے جلتے خاندان اس دنیا میں اور کہاں موجود ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ ایک ویب سائیٹ (Twin Stranger) سے اپنا ہم شکل ڈھونڈ کر نہ صرف اس سے گپ شپ لگا سکتے، اس کی پسند و ناپسند اور زندگی کے فلسفہ پر سیر حاصل گفتگو کر سکتے بلکہ آپس میں مل کر ایک کپ کافی کا بھی پی سکتے ہیں۔ تو پھر کیا آپ ملنا چاہیں گے اپنے ہم شکل سے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).