آج اور کل کے درمیاں یہ جو اک رات پیوستہ ہے



وہ رات کہ جو اپنی آ غوش میں ناجانے کتنے راز رکھتی ہے۔ اس رات کی خبر کون لکھے گا؟ آج سے کل میں داخل ہونے کے لیے یہ جو رات بھر کی مسافت ہے، اس مسافت کو طے کرنے کے لیے غم کی سواری ہاتھ لگے تو یہ رات ایک قوسی شکل اختیار کر لیتی ہے، جس کی ایک طرف چڑھائی اور دوسری طرف ڈھلوان ہے۔ پھر یہ گاڑی ہر اسٹاپ پہ رکتی ہر مسافر اٹھاتی قوسی شب کی مسافت پاٹ کر جب کل کی سحر پر اترتی ہے تو مسافر ہچکولوں سے ٹوٹ چکا ہوتا ہے۔

اگر خوشی کا ساتھ ہو تو آج سے کل میں داخلے کا راستہ بہت سیدھا ہے، رات نام کو آرام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ غم کی سنگت ہو تو رات اندھیرے سے عبارت ہے اور اس اندھیرے کو مات دینا ایک جستجو کا نام ہے۔ چراغ جلانے پڑتے ہیں اور ہوا سے حفاظت کرنی پڑتی ہے۔

رات اور چراغ کے بیان سے ہاجرہ مسرور یاد آتی ہیں۔ ہاجرہ مسرور نے چراغ کی لو افسانہ لکھا اور رات، چراغ اور غم کی کیفیت بیان کی۔ اقتباس پڑھیے۔ ”اچھن چراغ جلائے اس کی ٹمٹماتی لو کو دیکھ رہی ہے۔ باپ اس کی طرف دیکھتا ہے تو اسے دھچکا لگتا ہے کہ ماں کی موت کے بعد اچھن کتنی کمزور ہو گئی ہے۔ لوگ باپ کو مشورہ دیتے ہیں کہ بیاہ دو گھر والی ہوگی تو اپنے آپ ہی اچھی ہو جاوے گی لیکن مشورہ دینے والے یہ نہیں سوچتے کہ غریب کی بیٹی غریب کے گھر ہی جائے گی۔ آخر اچھن کی ماں بھی خاوند والی تھی کیا سکھ پا لیا اس نے؟“

چراغ کی لو سے کچھ خاص نسبت ہے۔ بات کچھ سال پرانی ہے، واقعہ آج سے کل کا سفر مشکل ہونے کا ہے۔ شام سے پہلے گھر میں رات اتر آنے سے راتیں مزید لمبی ہوئی جاتی تھیں۔ وجہ ماں کا بیمار ہونا اور پھر وفات تھی۔ اس سب نے آج سے کل کے درمیاں سفر کٹھن کر دیا تھا مایوسی کا یہ عالم تھا کہ ایک شعر لکھا، شعر کچھ یوں تھا۔

جب یہ طے ہے کہ آشیاں بکھر جائے گا
تو پھر یہ تنکا تنکا اکٹھا کرنا کس لیے؟

شعر کیا کہ مایوسی کے بطن سے پیدا ہونے والا ایک سوال تھا جس کو الفاظ پہنا کر اظہار کا راستہ دیا تھا۔ آشیانے کے بنیادی ستون تکمیل سے پہلے ہی گرنے لگیں تو ایسے سوال کا جنم لینا فطری ہے۔ بجلی کی بدترین بندش پہلے ہی تھی اور دکھ اچھن سے کم نا تھا۔ تب ہم نے بھی ایک دیا جلا کے طاق میں رکھا تھا۔

چراغ جلتا رہتا تھا اور میں اچھن سے غم سانجھے کرتا تھا، نہ جانے کب بجھ جاتا، اگلی رات پھر سے جلا دیتا۔ یہ سلسلہ کئی مہینوں تک جاری رہا اور ایک دن ختم ہو گیا۔ چراغ بجھ گیا اور اس کی لو مجھے اپنے اندر محسوس ہونے لگی۔

بہرکیف مخاطب تحریر غم کی رات سے ڈرنے والے ہیں، ان کو کہنا ہے کہ حوصلہ رکھیں آج سے کل کا سفر بہرحال جاری رکھیں کیونکہ رکنے میں موت کا امکان موجود ہے اور بقول حضرت جوش موت کے مقابلے میں حیات پیدا کرتے رہنا ہی انسان کا فریضہ ہے۔ لیکن جب غم کی رات آئے تو دیا جلا کر طاق پہ رکھ دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).