ہندوستانی کسانوں کو گلوکارہ ریحانہ کا شکر گزار کیوں ہونا چاہیے؟


ہمارے ہمسایہ ملک ہندوستان میں مودی سرکار کی طرف سے متعارف کروائے جانے والے کچھ نئے زرعی قوانین کے خلاف پچھلے کچھ عرصہ سے وہاں کے کسان سراپا احتجاج ہیں۔ ان کے نزدیک بظاہر جن کو اصلاحات کہا جا رہا ہے وہ ان کے لیے اور ان کی آنے والی نسلوں کے لیے موت کا پروانہ ہیں۔ ان کی وجہ سے منڈی میں مڈل مین کی اجارہ داری قائم ہو جائے گی جو کہ ان کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہو گی۔ اس لیے وہ مودی سرکار سے ان قوانین کے بل کو واپس لینے کے لئے احتجاج کر رہے ہیں۔ اس احتجاج میں کسانوں نے دارالحکومت نئی دہلی میں طویل عرصے سے دھرنا دیا ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ان کی ٹریکٹر ریلیاں بھی ملک کے سب حصوں، خاص طور پر پنجاب سے شامل ہوتی رہتی ہیں۔

ایسی ہی ایک ٹریکٹر ریلی 26 جنوری کو ہندوستان کے یوم جمہوریہ پر بھی نئی دہلی پہنچی۔ جس کے بعد احتجاج میں شدت آنے کی وجہ سے سکیورٹی فورسز اور کسانوں کے درمیان تصادم بھی دیکھنے میں آیا۔ جس کے بعد کسانوں نے لال قلعہ پر اپنا پرچم بھی لہرا دیا۔ اس ساری صورت حال کو وہاں کے انتہا پسند سوچ کے حامل لوگوں کی طرف سے خالصتان تحریک سے بھی جوڑا گیا۔ جس کے بعد مودی سرکار کی طرف سے دھرنا دینے والوں پر مختلف قسم کی پابندیاں عائد کی گئیں۔ جن میں انٹرنیٹ کی بندش بھی شامل تھی۔ اس صورتحال کو بین الاقوامی میڈیا گروپ سی این این نے اپنی ایک رپورٹ میں بیان کر دیا۔

اس رپورٹ کو ممتاز گلوکارہ ریحانہ نے مذمت کے ساتھ ٹویٹ کر دیا۔ مگر ان کو یہ اندازہ ہرگز نہیں تھا کہ ان کی اس ایک ٹویٹ سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں اتنی کھلبلی مچ جائے گی اور اتنا شور برپا ہو گا جتنا چھبیس جنوری کے ہنگاموں پر بھی نہیں ہوسکا۔ سب سے پہلے تو حسب معمول گلوکارہ ریحانہ کو بغیر ان کے بارے میں جانے، ان کے نام کی وجہ سے مسلمان قرار دیا گیا اور ان پر تنقید کے نشتر اس لیے برسائے گئے کہ انہوں نے مسلمان ہونے کی وجہ سے ہندوستان کی مودی سرکار کو برا بھلا کہا ہے۔ حالانکہ ان سب تنقید کرنے والوں میں اتنی سی بھی زحمت گوارا نہیں کی وہ گلوکارہ ریحانہ کے بارے میں گوگل سے ہی معلوم کر لیں وہ مسلمان نہیں بلکہ ایک کیتھولک عیسائی ہیں۔

Rihanna

ہندوستانی عوام صرف یہاں تک نہیں رکے، بلکہ انہوں نے ریحانہ کا تعلق پاکستان سے بھی جوڑ دیا۔ جس کے ثبوت کے طور پر ان کی ہمارے وزیراعظم کے مشیر زلفی بخاری کے ساتھ ایک تصویر شیئر کی گئی۔ بلکہ ایک تصویر، جس میں وہ ویسٹ انڈیز کا جھنڈا اٹھا کر اپنے آبائی علاقے بارباڈوس میں ایک میچ کے دوران کھڑی ہیں۔ اس تصویر میں ویسٹ انڈیز کے جھنڈے کی جگہ ایڈیٹ کر کے ان کے ہاتھ میں پاکستان کا جھنڈا تھما دیا گیا۔ پھر کتنے ہی لوگوں نے اس تصویر کو ٹویٹر اور دیگر سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر شیئر کر دیا۔ لیکن دلچسپ صورتحال تو تب سامنے آئی کہ جب گلوکارہ ریحانہ کو پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کا ایجنٹ قرار دے دیا گیا اور کہا گیا کہ انہوں نے یہ ٹویٹ آئی ایس آئی سے ڈھیروں ڈالرز لے کر کی ہے۔

بیچاری ریحانہ کے فرشتوں کو بھی شاید آئی ایس آئی کا پتا نہ ہو۔ مگر کیا کہنے ہمارے ہمسایہ ملک کے دیش بھگتوں کے، کہ وہ اپنی دیش بھگتی میں کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ اس دیش بھگتی میں صرف عام ہندوستانی ہی شامل نہیں رہے بلکہ اس میں مودی جی کی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے سیاسی رہنما بھی اپنا حصہ ڈالنے کے لیے شامل ہو گئے اور انہوں نے دل کھول کر ریحانہ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ جس سے ایسا گمان ہو رہا تھا کہ جیسے پوری ہندوستانی سرکار ایک گلوکارہ سے مقابلہ کرنے آ گئی ہے۔

اب جب بات دیش بھگتی کی آ جائے تو پھر ہمارے پڑوسی ملک کی فلم انڈسٹری بالی وڈ کے مشہور فلمی ستارے بھلا کہاں پیچھے رہنے والے تھے۔ سب سے پہلے اداکارہ کنگنا رناوت نے گستاخ گلوکارہ ریحانہ کو مزا چکھانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے پہلے تو احتجاج کرنے والے کسانوں کو دہشت گرد قرار دیا اور ان پر بیرونی طاقتوں کا آلہ کار بننے کا الزام بھی لگایا۔ یہی نہیں انہوں نے کہا کہ ہندوستان کے دیش بھگت، اپنے ملک کو امریکہ کی طرح چین کی کالونی نہیں بننے دیں گے۔ پتا نہیں کنگنا جی جب یہ سب کہہ رہی تھیں تو وہ شاید ہوش میں بھی تھیں یا نہیں، بھلا امریکہ چائنہ کی کالونی کیسے ہو سکتا ہے؟ اس کے بعد کنگنا رناوت صاحبہ نے ریحانہ کو اس ساری سازش میں شامل کر دیا اور ان کی قابل اعتراض تصاویر کو اپنی پوجا کرنے والی تصاویر کے ساتھ شیئر کر کے ان کی کردار کشی بھی کی۔

اس بعد دیگر بالی وڈ ستارے اور کرکٹرز، اکشے کمار، کرن جوہر، اجے دیوگن، سنیل سیٹھی، امیتابھ بچن، سچن ٹنڈولکر اور کئی اور اس مہم میں کنگنا کے ساتھ شامل ہو گئے۔ ان کی ٹویٹس سے یہ تأثر مل رہا تھا کہ جیسے ان کو یہ سب کرنے کے لئے کہا گیا تھا۔ یہاں پر یہ بات بھی اہم ہے کہ ان سب نے کسانوں کے حق میں تو کبھی کوئی بات نہیں کی بلکہ الٹا یہ سب ”انڈیا یونائیٹڈ اگینسٹ پروپیگنڈا“ کی مہم کا حصہ بنے۔ مگر ہندوستانیوں کی دیش بھگتی کا نشانہ صرف گلوکارہ ریحانہ کو ہی نہیں بنایا گیا بلکہ سویڈن سے تعلق رکھنے والی ماحولیات کے حوالے کام کرنے والی سماجی کارکن، گریٹا تھنبرگ بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکیں۔ ان پر نہ صرف سی این این کی رپورٹ شیئر کرنے اور اس معاملے پر بات کرنے پر گالیوں کی بھرمار کی گئی بلکہ ٹویٹر پر غلط معلومات دینے پر دہلی پولیس نے ان پر مقدمہ بھی قائم کر دیا۔

ہندوستانیوں کے اس دیش بھگتی والے موقف پر ان کی جگ ہنسائی ہی ہوئی۔ اب بالی وڈ ستاروں سمیت ایسے سب لوگوں کے خلاف ٹویٹر ٹرینڈ چل رہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ کسانوں کے احتجاج کو بھی اب بین الاقوامی میڈیا میں بھرپور توجہ مل رہی ہے۔ جس کا سہرا بلاشبہ ہندوستان کے ان دیش بھگتوں کو تو جاتا ہی ہے کہ انہوں نے اپنی اس مہم جوئی سے اس معاملے کو پوری دنیا میں نمایاں کر دیا۔ مگر اس کے لیے سب سے زیادہ کردار گلوکارہ ریحانہ نے اپنی وہ ٹویٹ کر کے ہی ادا کیا۔ جس پر ہندوستان کے کسانوں کو ان کا تہہ دل سے شکر گزار ہونا چاہیے۔

وہ بین الاقوامی میڈیا ادارے اور تنظیمیں جو پہلے کئی مصلحتوں کی بنا پر کسانوں کی اس تحریک پر بات کرنے سے کترا رہے تھے ، اب اس پر پوری طرح سے توجہ دیتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ جہاں تک ہندوستانی دیش بھگتوں کی طرف سے گلوکارہ ریحانہ کو صلواتیں سنانے اور ان کو آئی ایس آئی کا ایجنٹ قرار دینے کا معاملہ ہے تو اس خطے میں جو کوئی بھی سچ کا ساتھ دیتے ہوئے ریاست کی کسی پالیسی کے خلاف بات کرتا ہے تو اس کو دیش بھگتوں کی طرف سے دشمن ملک کا ایجنٹ ہی قرار دیا جاتا ہے ، چاہے اس کا تعلق کہیں سے بھی ہو۔ امید ہے ریحانہ کو اس سب کا بخوبی اندازہ ہو گیا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).