فوجی کا تعویز


کائنات کی تخلیق کو لگ بھگ 28 ہزار سال گزر چکے لیکن آسمان بوڑھا ہوا نہ سورج پر ضعف طاری ہوا۔ چانداور ستاروں کے چہروں پر جھریاں نمودار ہوئیں نہ زمین بانجھ ہوئی۔ سمندر ی موجوں کے اعصاب شل ہوئے نہ پہاڑوں نے جگہ بدلی۔ آگ نے جلانا چھوڑا نہ پانی نے بجھانا چھوڑا۔ صدیوں بعد بھی کائنات نے جیسے اپنی ہیئت نہیں بدلی، اسی طرح کچھ خیالات بھی زمان و مکاں کے اثرات سے بے نیاز ہیں۔ انہیں وقت کی پھپھوندی لگی نہ ان کی چمک دمک ماند پڑی۔ وہ آج بھی ہیرے کی کنیوں کی طرح دمکتے ہیں۔ پانچویں صدی قبل از مسیح میں لکھی گئی ایک کتاب میں ریاست کے محافظوں کا کیا معیار طے کیا گیا؟ اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔

”ریاستی محافظوں کی غذا میں صرف ایسی چیزیں شامل ہوں گی جن کی ضرورت تربیت یافتہ جرات مند اور بہادر جنگجوؤں کو ہوتی ہے۔ انہیں ایک مقررہ تنخواہ ملے گی تاکہ ان کے سالانہ اخراجات پورے ہو سکیں۔ اگر کہیں ان کے پاس ذاتی زمینیں، جاگیریں یا اپنا مال و زر ہوا تو یہ تاجر اور کسان تو ضرور بن جائیں گے لیکن یہ محافظ نہ رہیں گے، یہ دوسروں کو اور دوسرے انہیں ناپسند کریں گے، یہ اوروں کے خلاف اوردوسرے ان کے خلاف سازشیں کریں گے۔ محافظوں کی زندگی بیرونی دشمنوں سے زیادہ اندرونی مخالفتوں میں گزرے گی، یہ ریاست کی تباہی کا راستہ ہوگا۔“

دنیا کی جمہوری ریاستوں نے افلاطون کے ان الفاظ کو آج بھی سینے سے لگا رکھا ہے۔ فوج کو ہر اس سرگرمی سے دور رکھا جاتا ہے جو عوام اور فوج کے درمیان فاصلوں کا باعث بنے۔ آئین میں نہ صرف فوج کے سیاسی کردار کی واضح طور پر نفی کر دی گئی بلکہ فوج کو حتی المقدور کاروباری سرگرمیوں سے بھی دور کر دیا گیا۔ کیونکہ فوج کی پیشہ ورانہ ذمے داریوں کے تقاضے تاجروں، صنعتکاروں اور دولت مند طبقوں سے یکسر مختلف ہوتے ہیں۔ دولت کی ہوس ”جذبہ حب الوطنی“ کو ”حب ذات“ میں بدل دیتی ہے۔ یوں، سرحدوں کی حفاظت کے عظیم تر اور اصل مقصد سے فوج کے دور ہونے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔

قرون وسطی کا عام نظریہ تھا ”ساہوکار مشکل ہی سے خدا کو خوش کر سکتا ہے، وہ سجدے میں بھی درہم اور دینار گنتا ہے۔“ فرانسیسی لکھاری گیبریل بینو ڈی مابلی ( Gabriel Bonnot de Mably ) تو کچھ اور آگے نکل گیا۔ بقول اس کے ”تاجروں کی کوئی مادر وطن نہیں ہوتی، اکثر اوقات ان کے ہاتھ میں دھوکے کا ترازو ہوتا ہے۔“ انیسویں صدی کے ایک اور سیاسی دانشور گریشس بیوف (GRACCHUS BABEUF) نے ایک خط میں لکھا ”کاروباری دماغ ہر کسی کا خون پسینہ نچوڑنے کے بارے میں ہی سوچتا رہتا ہے تاکہ اپنے ذاتی فائدے کے لیے سونے کے تالاب بناسکے۔“ تاہم بعض ملکوں میں فوج کو مخصوص حالات میں کاروبار کی اجازت دی گئی۔ 1970 میں چین نے فوج کو کاروبار کے مواقع دیے لیکن یہ تجربہ ناکام رہا۔ دفاعی امور سے فوج کی توجہ بٹنے لگی، جس پر فوج کو رفتہ رفتہ کاروباری سرگرمیوں سے الگ کر دیا گیا۔

دیکھا جائے تو پاکستان اور ترکی کے سیاسی حالات میں کافی باتیں غیر معمولی طور پر مشترک ہیں۔ ترکی میں بھی پاکستان کی طرح فوجی حکومتوں کی طویل تاریخ رہی ہے۔ پہلی فوجی بغاوت 1920 میں خود مصطفیٰ کمال اتاترک نے کی۔ 1960، 1971 اورپھر 1980 میں بھی فوج نے منتخب حکومتوں کا خاتمہ کر کے اقتدار پر قبضہ کیا۔ اس دوران فوج نے سیاسی معاملات کے ساتھ ملکی معیشت پر بھی اپنی گرفت مضبوط بنالی لیکن جیسے ہی جمہوری حکومت نے اپنے پاؤں جمائے فوج کی معاشی سرگرمیوں کا دائرہ محدود سے محدود تر ہوتا گیا۔

فوج کی سیاست میں ”عدم مداخلت“ کو ترکوں نے ایمان کا درجہ دے رکھا ہے۔ ترک فوج کا سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا ناقابل معافی جرم ہے۔ 15 جولائی 2016 کو ناکام فوجی بغاوت کے اگلے روزصدر طیب اردوان نے عوامی اجتماع کے سامنے اسی ”عوامی جذبے ’کی گواہی دی۔“ کل رات لوگوں کے پاس بندوقیں نہیں تھیں، ان کے پاس پرچم تھے اور سب سے بڑھ کر ان کے پاس ایمان تھا۔ جن لوگوں نے ترک عوام کے ایمان پر حملہ کیا یہ سزا سے نہیں بچ پائیں گے۔ ”

بدقسمتی سے ہمارے یہاں آج بھی یہ تصور اپنی جگہ مضبوط ہے کہ فوج اقتدار میں ہو نہ ہو اختیارات کی اصل قوت اسی کے پاس ہوتی ہے جو نیم جمہوری حکومتیں آئیں ان کی مثال سکون آور ادویات جیسی رہی، جس سے ہماری تکلیف وقتی طور پر کم ضرور ہوئی لیکن مرض اپنی جگہ موجود رہا۔

تاریخی طور پر جنرل ایوب خان نے فوج میں سیاست کے تخم بوئے۔ پاکستان کے دوسرے آرمی چیف جنرل سر ڈگلس ڈیوڈ گریسی شروع ہی سے جنرل ایوب کے سیاسی عزائم سے واقف تھے۔ جنرل گریسی کے سابق اے ڈی سی میجر جنرل ریٹائرڈ وجاہت حسین لکھتے ہیں۔ ”1956 کے شروع میں وہ جنرل گریسی سے لندن میں ملے، جنرل گریسی نے جھٹ سے پوچھا“ ایوب ملک پر کب قبضہ کر رہا ہے؟ جنرل گریسی نے یہاں تک کہا کہ انہوں نے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو خبردار کیا ہے ”دھیان رکھے، ایوب اونچی ہواؤں میں ہے۔“ پھر وہی ہوا، ایوب خان نے سول حکومت کی بساط لپیٹنے کی ایسی غلط روایت ڈالی جسے پھر روکا نہ جاسکا۔ دفاعی ادارے کی ”نفسیاتی بنیادوں“ میں لگنے والی اس ٹیڑھی اینٹ نے پوری عمارت کی نفسیات ہی کو ٹیڑھا کر دیا، جسے ہم آج تک سیدھا کرنے میں لگے ہیں۔

چند سال پہلے دبئی میں سابق مشرقی پاکستان کے ایک صحافی سے ملاقات کا موقع ملا، اسے یقین تھا بنگلہ دیشی فوج اب کبھی اقتدار پر قابض نہ ہوگی۔ اس کی منطق بھی سنیں ”جس دن ہمارے ملک (بنگلہ دیش ) میں کاکول اکیڈمی کا پڑھا ہوا آخری فوجی افسر ریٹائر ہوا ہم بنگالیوں کو یقین ہو گیا اب یہاں مارشل لا کبھی نہیں لگے گا۔“ یہ الفاظ اتنے سخت تھے جس کی چبھن میں آج تک محسوس کرتا ہوں۔

فوج کی جانب سے سیاست میں عدم مداخلت کا ”سحر انگیز سر“ بار بار ہماری سماعتوں سے ٹکراتا ہے لیکن روح کی غذا نہیں بنتا، ہمارا تاریخی معدہ اسے ہضم کرنے پر آمادہ ہی نہیں ہوتا۔ سادہ سی بات ہے کسی دعوے کی ”تکرار“ اسے جانا پہچانا تو بنا سکتی ہے لیکن سچا نہیں۔ سچ کو انصاف کی طرح نظر بھی آنا چاہیے۔

ملک کے اندر سے فوج کے کردار پرآج جتنی انگلیاں اٹھ رہی ہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ایک ایسا ادارہ جو ہر لحاظ سے قابل تکریم ہے اور قابل تکریم رہنا چاہیے، اسے کٹہرے میں کھڑا کیا جا رہا ہے۔ سیاسی جلسے جلوسوں، ڈرائنگ روموں، چوک چوراہوں حتی ٰ کہ پارلیمنٹ میں بھی فوج سے متعلق بات کرتے ہوئے روایتی حجاب ختم ہو رہا ہے۔ ملک کی اہم ترین اور بڑی سیاسی جماعتیں فوج کی سیاسی مداخلت پر کھلے عام گفتگو کر رہی ہیں۔ رئیل اسٹیٹ سمیت فوج کی دیگر کاروباری سرگرمیوں پر بھی عدالتوں میں سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ”پاپا جونز پیزا“ کے طعنے تو سیاسی جلسوں میں اب معمول ہیں۔

اس وقت بھی ملک میں ایسی کئی جماعتیں موجود ہیں جن پر اسٹیبلشمنٹ کی سند یافتہ طفیلی جماعتوں کا ٹیگ لگا ہے۔ خود تحریک انصاف کا کردار اب تک کٹھ پتلی حکومت سے زیادہ نہیں رہا۔ تحریک انصاف کے ایک ناقد کے مطابق ”جیسے لومڑوں کا ایک گروہ اپنی دم کٹوا کر خود کو مطمئن کرتا رہتا تھا کہ اضافی بوجھ سے جان چھوٹی، تحریک انصاف نے بھی اپنے“ انتخابی منشوراور جمہوری آزادیوں ”کے ساتھ یہی کچھ کیا ہے مگر میمنے جیسی اطاعت پذیری دکھانے کے باوجود تحریک انصاف کے دامن میں کارکردگی نام کا کھوٹا سکا تک نہیں۔“

موجودہ سیاسی حالات کا اولین تقاضا ہے کہ مسئلے کی حساسیت کا درست اندازہ لگایا جائے، فوج اور عوام کے درمیان بڑھتی بے اعتمادی کا راستہ روکا جائے۔ گزشتہ سال رکن قومی اسمبلی میاں ریاض حسین پیر زادہ نے پارلیمنٹ کے فلور پر یوں تو اور بہت کچھ کہا لیکن چند باتوں کا تذکرہ ضروری ہے۔ ”چولستان اور بہاولپور میں ہماری زمینوں پر قبضے ہو رہے ہیں۔ ریٹائرڈ کرنل (مقامی لوگوں کو) ڈنڈوں سے مارتے ہیں، سرائیکیوں کے ساتھ ریڈ انڈین والا سلوک ہو رہا ہے۔ افسوس، لوگوں کے دلوں میں فوج کا احترام ختم ہو رہا ہے۔“ اسے کسی شخص کی وقتی ناراضی کہہ کر فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ سیاسی اور فوجی قیادت کو اس مسئلے کی تہہ کھرچنا پڑے گی۔

عوام میں ایسا تاثر پیدا ہونا کہ فوج ان کے وسائل پر قابض ہو رہی ہے ریاست کی بنیادو ں میں بارود بھرنے جیسا ہے، جس قوم نے اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی بو آنے کا طعنہ سنا اور بھگتا ہو، اسے تو ایسے معاملات میں اور بھی محتاط اور حساس ہونا چاہیے۔ ایسی عوام جس نے پہلے ہی اپنی بستیوں کے آگے بند باندھ کر وسائل کے دریا کا رخ فوج کی جانب موڑ رکھا ہے، وہ دھتکارنے کی نہیں سینے سے لگانے کی حق دار ہے۔

مصر کے موجودہ آمر جنرل عبدالفتح السیسی کے خلاف مظاہرے کے دوران ایک مصری فوجی نے شہری کو لاٹھی سے مارنا چاہا۔ اس شخص نے فوجی جوان سے جو کچھ کہا وہ دنیا کے ہر فوجی کو تعویز بنا کرگلے میں ڈال لینا چاہیے۔ ”تم گول مٹول، سرخ و سپید بچے کی طرح خوبصورت ہو، تمہارے بازو مجھ سے مضبوط اور قوی ہیں، تم صحت مند ہو، لیکن مجھے تکلیف پہنچانے سے پہلے یہ ضرور سوچ لینا تمہاری ساری خوبصورتی اور صحت مندی میری ہڈیوں اور نسوں سے نچوڑی گئی ہے۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).