پی ڈی ایم کا لانگ مارچ کا اعلان: ’جب ہر طرف لڑائی ہی لڑائی ہو اور آپ اسمبلی میں بات بھی نہ کر سکتے ہوں، تو پھر کیسے صلح کی بات ہو سکتی ہے‘


اپوزیشن

ٹی وی سکرینز پر قومی اسمبلی کے مناظر براہ راست دکھائے جا رہے ہیں۔ سیٹیاں بج رہی ہیں، اراکین نے بینرز اٹھا رکھے ہیں۔ کچھ کھڑے ہیں، کچھ بیٹھے ہوئے ہیں۔ حکمراں جماعت پی ٹی آئی کے خلاف فلک شگاف نعرے لگ رہے ہیں اور وفاقی وزیر فواد چوہدری پورے انہماک سے اس کی ویڈیو بنانے میں مصروف ہیں۔

گذشتہ روز ہونے والے اس اجلاس کے بعد وفاقی وزیر کی جانب سے ٹویٹ آتی ہے جس میں وہ لکھتے ہیں: پی ڈی ایم کے غبارے میں سے ہوا نکل گئی ہے۔

دوسری جانب ایوان سے باہر اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے گذشتہ رات اعلان کیا کہ وہ سینیٹ الیکشن میں مشترکہ طور پر حصہ لے گی اور 26 مارچ سے پورے ملک سے لانگ مارچ کا آغاز ہو گا۔

اس کا مطلب یہ کہ حزب اختلاف کی استعفوں کی بات 31 جنوری کے ساتھ ہی پیھے رہ گئی ہے اور وزیراعظم پر دباؤ ڈالنے کے لیے نئی سٹریٹیجی بنا لی گئی ہے۔

جمعرات کو پانچ گھنٹوں کے طویل اجلاس کے بعد پی ڈی ایم نے حکومت کی طرف سے اوپن بیلٹ سے متعلق بل کی مخالفت کا فیصلہ بھی کیا لیکن پی ڈی ایم کی لیڈر شپ کی مختصر پریس کانفرنس کے بعد وزیر اطلاعات شبلی فراز نے اسے ناٹک اور غبارے سے ہوا نکلنے اور ڈرامے کی مختلف قسطوں کا نام دیا۔

پی ڈی ایم نے اب عدم اعتماد اور استعفوں سے متعلق کسی بھی فیصلے کو سینیٹ کے انتخابات کے بعد تک ملتوی کر دیا ہے۔

لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟ اس بارے میں مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال کہتے ہیں کہ پی ڈی ایم سب کچھ مشاورت سے کر رہی ہے اور وہی کیا گیا جس کا پہلے اعلان کیا گیا تھا کہ اگر وزیر اعظم عمران خان استعفیٰ نہیں دیں گے تو پھر لانگ مارچ ہو گا۔

اسی حوالے سے مزید پڑھیے

پی ڈی ایم کا لانگ مارچ: اب کور سٹوری مہنگائی ہے

اپوزیشن کی کون سی حکمت عملی حکومت پر دباؤ کا باعث بنے گی؟

نواز شریف کے جنرل قمر باجوہ پر ن لیگ حکومت کو ’رخصت‘ کرانے، عمران خان حکومت کے لیے ’جوڑ توڑ‘ کرنے کے الزامات

نواز شریف فوج کو بغاوت کرنے کا کہہ رہے ہیں: وزیراعظم کا الزام

لیکن اس حوالے سے سیاسی صورتحال پر نظر رکھنے والے حلقوں کا کیا کہنا ہے اور سوشل میڈیا پر صارفین کیا سوچ رہے ہیں؟

صحافی و کالم نگار سہیل وڑائچ نے کہا کہ اپوزیشن کا یہ حق ہے کہ وہ احتجاج کرے۔ وہ اپنا حق کر رہی ہے اور قومی اسمبلی اور سینیٹ کی ورکنگ تو چل نہیں رہی تو اس کے بعد آپشن کیا رہ جاتا ہے۔

لیکن کیا یہ سٹریٹیجی کی تبدیلی نہیں ہے جب پہلے 31 جنوری کو استعفے نہیں دیے گئے اور اب یہ نیا اعلامیہ سامنے ہے۔

اس کے جواب میں سہیل وڑائچ نے کہا کہ اپوزیشن نے اپنے ارادوں میں ترمیم کی ہے اور نظر ثانی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پی ڈی ایم کو عوام سے وہ ردعمل نہیں ملا جس کی وہ توقع کر رہی تھی۔

ان ہی کی بات کو آگے بڑھاتے ہو،ئے صحافی و کالم نگار نصرت جاوید کا کہنا تھا کہ بظاہر لگتا ہے کہ ‘اپوزیشن آہستہ آہستہ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ عمران خان نے بھی 126 دن کا دھرنا دیا تھا تو اس سے تو حکومت گھر نہیں گئی تھی۔ یہ ایک بے فائدہ کوشش ہے، تو اب وہ ایک نئی سٹریٹیجی بنا رہے ہیں اور بظاہر یہ جو اپوزیشن کا لانگ مارچ ہے یہ حکومت کا استعفیٰ لینے کے لیے نہیں ہے۔ اس کی کور سٹوری اب جو ہے وہ مہنگائی کی ہے۔‘

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ 26 مارچ کے لانگ مارچ میں اپوزیشن کے لیے چیلینج ہو گا کہ وہ کتنی تعداد میں لوگوں کو لے کر جاتے ہیں، جبکہ حکومت کے لیے بڑا چیلینج امن و امان کو قائم رکھنے کا ہو گا۔

ادھر پی ڈی ایم کے سینیٹ انتخاب میں اوپن بیلیٹنگ کی مخالفت کرنے پر سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ بظاہر اوپن بیلیٹ پر سب کا اتفاق ہوتا ہے کہ اوپنگ بیلیٹنگ میں فائدہ ہوتا ہے۔

’لیکن سوال یہ ہے کہ جب سیاسی تقسیم ہوتی ہے، اور ہر طرف لڑائی ہی لڑائی ہو، آپ اسمبلی میں بات بھی نہ کر سکتے ہوں، جو گرفتار اراکین اسمبلی ہیں ان کو سپیکر صاحب بلا بھی نہ رہے ہوں تو پھر کیسے صلح کی اور بل پاس کرنے کی بات ہو سکتی ہے۔‘

لیکن کیا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کا یہ اعلان کرنا کہ سینیٹ میں وہ ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے ان کی سیاست کے لیے نقصان دہ نہیں ہو گا؟

پاکستان

اس سوال کے جواب میں نصرت جاوید نے کہا کہ وہ ایسا نہیں سمجھتے۔

’سوشل میڈیا سیاسی عمل کو ڈکٹیٹ نہیں کرتا۔ سیاست سیاست دانوں نے اپنے حلقوں اور اپنی حدود کے اندر کرنی ہے اور میرا خیال ہے کہ یہ ایک منطقی کوشش ہے۔’

وہ مزید کہتے ہیں کہ اس سٹریٹیجی سے اگر پی ڈی ایم کی جماعتوں کو سینیٹ میں اپنی توقعات سے زیادہ نشستیں مل جائیں تو یہ حکومت کے لیے بہرحال ایک دھچکہ ہو گا کیونکہ حکومت تو یہ سوچ بیٹھی ہے کہ وہ آرام سے اکثریت حاصل کر لے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ سیاست میں ترجیحات مفادات ہوتے ہیں اخلاقیات نہیں۔

خفیہ رائے شمار کے حق پی ڈی ایم کی موقف کا حوالہ دیتے ہوئے نصرت جاوید نے کہا کہ ’اگر اوپن بیلیٹنگ کا اتنا شوق تھا تو حال ہی میں چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں خفیہ رائے شماری کیوں کروائی۔‘

سہیل وڑائچ کی نظر میں یہ ان سیاسی اتحادیوں کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے اور اس سٹریٹیجی سے وہ ایک آدھ سیٹ زیادہ لے سکتے ہیں اور ماضی میں بھی ایسا اتحاد ہوتا رہا ہے۔

پی ڈی ایم کے فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پر رد عمل

پریس کانفرنس کے بعد سوشل میڈیا پر صارفین نے پی ڈی ایم کے فیصلے پر کھل کر تنقیدی تبصرے کیے۔

صحافی طلعت حسین نے فقط یہ لکھا: ’26 مارچ کو لانگ مارچ‘، لیکن کچھ لوگ سوال بھی کرتے دکھائی دیے جیسے سلّی نامی صارف نے کہا کہ استعفوں کا کیا ہوا؟

صحافی سلیم صافی نے اپنے پیغام میں اسے پیپلز پارٹی کے بعد ن لیگ کا یوٹرن قرار دیا۔

صارف ماجد جان نے اسے ٹرک کی بتی سے تشبیہ دی۔

صحافی امتیاز عالم نے لکھا: ’وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ہو ہی نہیں سکتی۔ پی ڈی ایم متبادل حکومت کے لیے اکھٹی نہیں ہو سکتی۔ دھرنے کے بغیر لانگ مارچ بے فائدہ ہے۔ استعفوں کی بات ایک نازک آئینی صورتحال کو ہلانے کے برابر ہو گا۔ اپوزیشن کے مسائل جاری اور ادھر عمران کی حکومت غلطیوں پر غلطیاں کر رہی ہے۔‘

ایک اور صارف نے لکھا شکر ہے انھوں نے لانگ مارچ کی تاریخ دے دی لیکن ایسے لانگ مارچ میں کیا مزا۔

لیکن کچھ صارفین مولانا فضل الرحمان کو اس کا کریڈیٹ دے رہے ہیں۔ نیک امل اتمنئی نے لکھا کہ مولانا کی ہمت پر ہے کہ وہ کب تک پی ڈی ایم کی گاڑی کو دھکا دے سکتے ہیں۔

گذشتہ رات پی ڈی ایم کی پریس کانفرنس میں کیا ہوا ؟

جمعرات کی شب ہونے والی پریس کانفرنس میں مولانا فضل الرحمان نے خطاب میں کہا کہ لگتا یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو اپنے اراکین پر اعتماد نہیں اور پی ٹی آئی کچھ ایسے ناپسندیدہ لوگوں کو سینیٹ میں لانا چاہتی ہے جن کے لیے ان کے اپنے لوگ تیار نہیں۔

اس اجلاس میں پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمان کے علاوہ مسلم لیگ ن کی مریم نواز، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، امیر حیدر ہوتی، آفتاب شیرپاؤ، محمود خان اچکزئی اور دیگر رہنما شریک ہوئے۔

اجلاس کے بعد مولانا فضل الرحمان نے پریس کانفرنس میں کہا کہ پی ڈی ایم عظمت سعید کی سربراہی میں بنائے گئے براڈ شیٹ کمیشن کو مسترد کرتی ہے اور سینیٹ الیکشن سے متعلق حکومت کی آئینی ترمیم کو بھی مسترد کرتی ہے۔

مولانا فضل الرحمان کے مطابق 10 فروری کو سرکاری ملازمین اپنا احتجاج لے کر اسلام آباد کی طرف آرہے ہیں، پی ڈی ایم سرکاری ملازمین کے شانہ بشانہ رہے گی، ہم ان کے احتجاج میں ساتھ ہوں گے۔

انھوں نے مزید کہا کہ فارن فنڈنگ کیس میں سٹیٹ بینک نے 23 اکاؤنٹ بتائے ہیں، ان اکاؤنٹوں میں سے 18 کو چھپایا جارہا ہے، اس معاملے میں فوری فیصلہ ہونا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں سپیکر اور چیئرمین کے رویوں کے خلاف احتجاج جاری رہے گا اور ہم ایوان کی کارروائی میں ان سے تعاون نہیں کریں گے۔

ان کے مطابق ساری دنیا کو چور اور کرپٹ کہنے والا سب سے بڑا کرپٹ ثابت ہوا ہے ،عمران خان ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے حوالے دیا کرتے تھے۔ مولانا نے کہا کہ کل 5 فروری کو پی ڈی ایم مظفرآباد میں مظلوم کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے جلسہ کرے گی، اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کشمیر کو بیچ دیا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp