اقتدار کی راہداریوں میں کیا سرگوشیاں ہو رہی ہیں؟



اسلام آباد کے سیاسی موسم میں بڑی پراسرار قسم کی تبدیلی محسوس کی جا رہی ہے۔ پہلے جیسی سیاسی سرگرمیاں جو اس شہر اقتدار کا خاصہ رہی ہیں ، کی جگہ خاموشی نے لے لی ہے۔ پی ایم ہاؤس کے وسیع و عریض لان میں تین بڑوں کی مسلسل ملاقاتوں کو مبصرین بڑی اہمیت دے رہے ہیں۔

ملک کے ایک ممتاز صحافی کے مطابق اگلے چھ مہینے ملکی سیاست کے حوالے سے بہت اہمیت کے عامل ہیں۔ انہوں نے ایک ٹاک شو میں تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ موجودہ حکومت کے لئے پی ڈی ایم کوئی بڑا خطرہ نہیں ہے بلکہ حکمران جماعت کے اندر ہی اندر کوئی کھچڑی پک رہی ہے۔ جو وزیراعظم کے لئے نیک شگون نہیں ہے اور کسی بڑی تبدیلی کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ بقول ان کے عمران خان کی سربراہی میں قائم موجودہ حکومت ڈیلیور کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ علاوہ ازیں اس کے پاس معاشی میدان میں ملک کو آگے لے جانے کے لئے کوئی ٹھوس پروگرام بھی نہیں ہے۔

دوسری طرف وزیردفاع پرویز خٹک جو بڑے منجھے ہوئے سیاستدان ہیں کے حالیہ بیان نے بھی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے۔ انہوں نے اپنے آبائی گاؤں میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ چاہیں تو عمران خان کی حکومت کو ایک دن میں گرا سکتے ہیں۔ ان کی تقریر کا یہ حصہ بڑا معنی خیز بھی ہے اور اسے تحریک انصاف کی صفوں میں ایک دراڑ کی حیثیت سے دیکھا جا رہا ہے۔

2013 کے عام انتخابات کے بعد کے پی کے میں تحریک انصاف نے باقی جماعتوں سے زیادہ نشستیں حاصل کی تھیں۔ لیکن اسے حکومت بنانے کے لئے اتحادیوں کی ضرورت تھی۔ اس صورتحال میں پرویزخٹک نے جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی کو ساتھ ملا کر پانچ سال تک کامیابی کے ساتھ صوبے میں حکومت چلائی۔

انہیں پوری امید تھی کہ 2018 کے انتخابات کے بعد چیف منسٹری کا تاج دوبارہ ان کے سر پر سجے گا لیکن عمران خان نے وفاق میں ایک غیر اہم وزارت دے کر ان کی خواہش پر پانی پھیر دیا تھا۔ سیاست بڑا بے رحم کھیل ہے۔ اس میں دوستی اور دشمنی کبھی دیرپا نہیں رہتی۔ عہدے اور طاقت کے حصول کے لئے دوستی دشمنی میں بدلتے دیر نہیں لگتی۔ شاید خٹک صاحب کے اندر دوبارہ کسی اہم عہدے کی تڑپ پیدا ہو چکی ہو۔ اسی لئے انہوں نے اپنی اہمیت ظاہر کرنے کے لئے ایسا بیان دیا ہو گا۔ بہرحال آنے والے چند مہینوں میں صورت حال واضح ہو سکے گی۔

ان کی تقریر سے چند دن قبل ایک ٹی وی ٹاک شو میں حکومت کے ایک حامی اینکر نے ڈی ایچ اے لاہور کے کسی با اثر فرد کا ذکر کرتے ہوئے ان کا تعلق ملک کی ایک طاقتور ترین شخصیت سے جوڑنے کی کوشش کی تھی۔ بعض لوگ اس ٹاک شو میں کی گئی گفتگو اور پرویز خٹک کے خطاب کو ایک پیرائے میں دیکھ رہے ہیں۔

پاکستان کی میڈیا انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے وہ نام جن کو نہ خریدا جا سکتا ہے اور نہ دھونس اور جبر کے ذریعے انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ وہ اپنے تئیں آزادی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ یہ صحافی جمہوریت کی سربلندی اورمیڈیا کی آزادی کے لئے اپنا حصہ ڈالنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ لیکن بد قسمتی سے صحافی برادری کا بیشتر حصہ کسی مجبوری، دباؤ اور لالچ کے تحت سرکار کی چوکھٹ ہر سجدہ ریز ہو چکا ہے۔ حکومت ان کو ضرورت کے وقت اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتی رہتی ہے۔ نجی چینل میں دو صحافیوں میں ہونے والی گفتگو جس میں انہوں نے ڈی ایچ اے لاہور میں ہونے والی بے قاعدگیوں کا طنزیہ انداز میں ذکر کیا تھا۔ وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت جب چاہے کسی صحافی کو استعمال کر سکتی ہے۔

اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کی طرف سے وزیراعظم کو مستعفی ہونے کے لئے دی گئی ڈیڈ لائن گزر چکی ہے۔ حکومتی ترجمان اس حوالے سے اپوزیشن پر طنز کے نشتر برسانے لگے ہیں۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران اپوزیشن کو بڑے جارحانہ انداز میں مذاق کا نشانہ بنایا۔ دوسری طرف مولانا فضل الرحمان ایک نجی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے بڑے پراعتماد دکھائی دیے۔ انہوں نے بڑے واشگاف انداز میں اس عزم کا اظہار کیا کہ اپوزیشن اتحاد اگلے چند ماہ میں موجودہ حکومت کو اقتدار سے نکال باہر کرے گا۔

مولانا صاحب اپنے ایک بیان کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنے ہوئے تھے جس میں انہوں نے ارشاد فرمایا تھا کہ ان کی اسٹیبلشمنٹ سے کوئی لڑائی نہیں ہے۔ ان کے اس بیان کو کئی صحافی دوستوں نے اندرون خانہ مقتدر حلقوں سے ڈیل کی کوششوں کے مترادف قرار دیا تھا۔ لیکن مولانا صاحب نے خاتون صحافی کو دیے گئے انٹرویو میں اس تأثر کی تردید کر دی ہے۔ مولانا صاحب جتنے بھی دعوے کریں لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اپوزیشن نے جس جوش و خروش سے تحریک کی شروعات کی تھیں، اس کا ٹیمپو قدرے ٹوٹ چکا ہے۔

پیپلز پارٹی کی طرف سے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی تجویز نے اپوزیشن اتحاد کو پریشانی سے دوچار کر دیا ہے۔ موجودہ صورتحال میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی ایک معجزہ ہی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ اپوزیشن کے پاس اراکین کی مطلوبہ تعداد موجود نہیں ہے۔ یاد رہے کہ سینیٹ میں اکثریت ہونے کے باوجود اپوزیشن صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں کرا سکی تھی۔

چار فروری کو ہونے والے پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس کے فیصلے کے مطابق 26 مارچ کو لانگ مارچ کا آغاز کیا جائے گا۔ کراچی سے بلاول بھٹو قافلے کے ساتھ لاہور کے لئے روانہ ہوں گے۔ وہاں سے بلاول بھٹو اور مریم نواز مشترکہ طور پر لانگ مارچ کی قیادت کریں گے۔ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد یا اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے آپشنز پر لانگ مارچ کے نتائج کے بعد عمل درآمد ہو گا۔ اپوزیشن اجلاس میں سینیٹ کی خالی ہونے والی نشستوں پر مشترکہ حکمت عملی کے تحت حصہ لینے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے تاکہ حکومت کو اکثریت حاصل کرنے سے روکا جا سکے۔

پی ڈی ایم کی طرف سے لانگ مارچ کے اعلان کے بعد حکومت ایوان میں بیٹھے لوگ پریشانی میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن کے خلاف بڑی سخت الفاظ استعمال کیے۔ ان کی باڈی لینگوج سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ نروس ہو چکے ہیں۔ کیونکہ وزیر داخلہ کی حیثیت سے لانگ مارچ ان کے لئے ٹیسٹ کیس بن چکا ہے۔

دوسری طرف عمران خان سینیٹ الیکشن کو لے کر ایک انجانے خوف میں مبتلا ہیں۔ کیونکہ انہیں اپنے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی پر اعتماد نہیں ہے۔ اسی تناظر میں وہ سینیٹ الیکشن میں شو آف ہینڈ کے ذریعے انتخاب چاہتے ہیں۔ دراصل وزیراعظم اپنے ان دوستوں کو سینیٹر منتخب کرانا چاہتے ہیں جو تحریک انصاف کے ممبر نہیں ہیں۔ اسی لئے تحریک انصاف کے اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی خان صاحب کے اس فیصلے سے ناخوش ہیں۔

سینیٹ الیکشن تحریک انصاف کی حکومت اور اپوزیشن اتحاد کے لئے بڑی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ اگر یہ الیکشن خفیہ رائے شماری کے ذریعے منعقد ہوتے ہیں تو آصف علی زرداری کی جادوگری سے حکومت کو مات ہونا یقینی دکھائی دیتا ہے۔ اسی خطرے کے پیش نظر حکومت نے سپریم کورٹ سے بھی رجوع کر رکھا ہے تاکہ سینیٹ کی خالی ہونے والی نشستوں پر شو آف ہینڈ کے ذریعے انتخاب ہو سکے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے نیب کو بی آر ٹی پشاور کیس کی تحقیقات سے روکنے کے فیصلے کے بعد سینیٹ الیکشن کا فیصلہ بھی حکومت کی حمایت میں آ سکتا ہے۔

بہرحال سینیٹ کی خالی ہونے والی نشستوں پر الیکشن اور اپوزیشن کے لانگ مارچ کے بعد ملکی سیاست کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھنے کا امکان ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).