اخلاقی اقدار میں گراوٹ اور عوامل کا تعین


حسن خلق یا اخلاق وہ معاشرتی قدر یا پیمانہ ہے جس سے ہم کسی بھی معاشرے کے حسن و قبح کو ماپ کر اس کے متعلق کوئی رائے قائم کرتے ہیں۔ اور یہی وہ قدر ہے جو کسی بھی قوم، معاشرے یا ملک کی دنیا میں پہچان بنتی ہے۔ یہی وہ صفت ہے جس کو مؤرخ تاریخ میں محفوظ کر کے، بعد میں آنے والوں کے لئے تعارف کے واسطے چھوڑ کر جاتا ہے۔ اخلاقی اقدار کی بنیاد کن پہلوؤں پر رکھی، پرکھی اور دیکھی جاتی ہے، اس میں دو آراء ہیں۔ ان میں ایک طبقہ اخلاقی اقدار کی بنیاد مذہب کو جبکہ دوسرا طبقہ آفاقی سچائیوں کو بنیاد مان کر معاشرے کے اخلاقی حدود و قیود کا مقام متعین کرتا ہے۔ تاہم وہ معیار جو مذہب اچھے اخلاق کے لئے قائم کرتا ہے، تقریباً انہی شرائط کے ساتھ دوسرا طبقہ بھی متفق نظر آتا ہے، لیکن بادی النظر میں مذہب کی تعلیمات کے آ جانے کی بدولت مؤخر الذکر طبقہ اس طرف توجہ نہیں کرتا اور یوں ایک علیحدہ مکتب فکر کی صورت میں اپنے افکار اور اعمال کی ترویج کرتا ہے۔

اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو یہاں ہمیں ایک بات شدومد کے ساتھ ہر دوسری محفل میں سننے کو ملتی ہے کہ ہمارے یہاں اخلاقی گراوٹ کی جڑیں اس حد تک سرایت کر چکی ہیں کہ اب کوئی بھی طبقہ اخلاق مذمومہ سے خالی نہیں، لہٰذا اخلاقی گراوٹ کو دور کرنے کا واحد راستہ انفرادی سطح پہ تبدیلی ہے کہ جس کی بدولت جب معاشرے کی بنیادی اکائی یعنی ایک عام فرد کے افکار و اعمال درست ہو جاویں گے تو یوں رفتہ رفتہ اس کے اثرات سے پورا معاشرہ مستفید ہونا شروع ہو جائے گا اور پھر اس کے نتیجے میں ہمارے اجتماعی اخلاق بھی سنور جائیں گے۔

لیکن کیا یہ بات درست ہے؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ ہمارے یہاں خود ساختہ دانشور، نام نہاد دینی اور کٹ حجتی کرنے والے حضرات اور معاشرے کی نبض سے ناواقف لوگ اسی رجحان کے اسیر پائے جاتے ہیں کہ مملکت پاکستان میں جو اخلاق کا جنازہ نکل چکا ہے، اس کی واحد وجہ رعایا کے وہ اعمال قبیحہ ہیں کہ جن کی بدولت پورا معاشرہ گویا غلاظت کے ایک انبار کی شکل اختیار کر کے اس مقام پر آ پہنچا ہے جہاں تعفن کی وجہ سے ایک انسان کا سانس لینا محال ہو چکا ہے۔

ہمارے یہاں کے یہ دیسی دانشور ہمیں بار بار اس احساس کمتری کو اجاگر کرنے اور باور کرانے میں کوئی عار یا جھجھک محسوس نہیں کرتے کہ اخلاقی اقدار کا واحد نمونہ اگر کوئی ہے تو بس مغرب ہی ہے، اور رہے تم لوگ تو، تمہاری مثال اس گندے کیڑے کی سی ہے جو غلاظت پہ پلتا اور اسی کے اندر زندگی بسر کرتا ہے۔ تاہم اس بات کا جائزہ لینے کے لئے کوئی تیار نہیں کہ آخر وہ کون سے عوامل ہیں جن کی بدولت ہمارا معاشرہ جو کسی دور میں امن و آشتی کا گہوارہ، محبتوں کا آنگن اور درد دل سے معمور ہوا کرتا تھا، وہ ایک ایسے گھر کی شکل اختیار کر چکا ہے جہاں ان اقدار کا اب ڈھونڈنے سے بھی کوئی نام نہیں ملتا۔

اگر انسانی تہذیبوں کا مطالعہ کیا جائے، تو یہ نتیجہ اخذ کرنے میں چنداں مشکل پیش نہیں آتی کہ اخلاقی اقدار کی گراوٹ میں نمایاں اسباب حکمران طبقے کی عادات و اطوار، غربت، بنیادی حقوق سے محرومی، احساس ذمہ داری سے پہلو تہی اور کمزور نظام انصاف شامل ہیں۔ جب ہم معاشرے میں انفرادی تبدیلی کی بات کرتے ہیں تو جن بری عادات کو سامنے رکھتے ہیں ، ان میں رشوت، اقربا پروری، ملاوٹ، طبقۂ نسواں پر ظلم، جہالت اور دیگر دوسرے جرائم شامل ہیں اور ان کی بنیاد انفرادی افکار و افعال کو مانتے ہوئے فرد کی اصلاح پہ زور دیتے ہیں۔

تاہم اس کی طرف نہ جانے ہماری توجہ کیوں نہیں جاتی کہ کسی بھی معاشرے میں حسن اخلاق کے درخت کا بیج صرف اسی صورت میں نمو پا سکتا ہے کہ جب وہاں ایک صالح سیاسی، معاشی اور عدالتی نظام موجود ہو۔ کیونکہ ایک صالح سیاسی نظام جس کی بنیاد انسان دوستی پہ مبنی سمجھوتے یعنی آئین پر ہوتی ہے، وہ اس بات کی معاشرے کے ہر فرد کو ضمانت فراہم کرتا ہے کہ اس کے حقوق کی پامالی کی یہاں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ایک صالح معاشی نظام اس یقین کو پختہ کرتا ہے کہ معاشرے میں موجود تمام افراد کو روزگار کمانے اور اپنے معاشی بندوبست کو بہتر بنانے میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کیا جائے گا، اور یہاں ان اسباب کی بیخ کنی کی جائے گی جو چند افراد یا اداروں کی اجارہ داری کو قائم کرتے ہوئے معاشرے کی اکثریت کو نان جویں جیسی بنیادی ضرورت تک سے محروم رکھتے ہیں۔

ایک صالح عدالتی نظام فرد کے اندر اس جرأت کو پیدا کرتا ہے کہ جہاں اس کے بنیادی حقوق کی فراہمی میں کسی بھی وجہ سے رکاوٹ آئے گی، وہاں اس کو بلامعاوضہ انصاف فراہم کر کے اس کی شکایت کو دور کیا جائے گا۔ لہٰذا جب ایک انسان کو اس بات کی مملکت ضمانت فراہم کرتی ہے کہ وہ وہاں یکساں مساوات پہ منبی سیاسی نظام، اعتدال پہ مبنی معاشی نظام اور انصاف پہ مبنی عدالتی نظام کو بروئے کار لاتے ہوئے تمام افراد کی اجتماعی اور انفرادی ضروریات کو پورا کرے گی تو لامحالہ اس معاشرے کے اخلاق درست بھی ہوں گے اور وہ معاشرہ اجتماعی ترقی بھی کرے گا۔ لیکن ہماری مملکت خداداد پاکستان میں ایک عام فرد کے بنیادی حقوق پہ سب سے پہلا اور ڈاکہ کوئی اور نہیں بلکہ یہاں کی سرکار ہی ڈالتی چلی آئی ہے، اور اپنے شاہکار کارناموں اور افعال شنیعہ کی بدولت معاشرے کو اس مقام پر لے آئی ہے کہ جہاں بنیادی انسانی ضروریات کو پورا کرنا محض ایک خواب لگتا ہے۔

ایک ایسا معاشرہ جہاں حکومت آئین، تعلیم، صحت اور روزگار جیسے بنیادی مسائل سے یکسر غافل ہو کر، محض اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کی خاطر جائز و ناجائز کی تمیز کیے بغیر سب کچھ روا رکھنے کو اپنا حق سمجھتی ہو، جہاں کچھ خاص افراد اور ادارے آئین کی حدود و قیود سے آزاد ہوں، جہاں حاکم وقت احتساب کے کٹہرے میں کھڑا ہونے کو اپنی توہین سمجھتا ہو، جہاں اس ملک کی سب سے مقدس دستاویز یعنی آئین کو نہایت ہی رعونت اور فرعونیت کے ساتھ اپنے پاؤں تلے پامال کرنے کو اپنی سب سے بری کامیابی گردانا جاتا ہو، جہاں اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے واسطے مذہب کو استعمال کر کے بھی ضمیر کی تشفی کی جاتی ہو، جہاں عدالت میں بیٹھے منصف کا قلم کسی کے اشارۂ ابرو پہ انصاف کرتا ہو، جہاں سوال پوچھنے کو گستاخی اور اپنے حقوق مانگنے کا مطلب غداری لیا جاتا ہو، جہاں ایک وقت کی روٹی کی خاطر عصمتیں سرعام لٹ رہی ہوں، جہاں عید کے روز بھی ماتم ہو، جہاں ملک توڑنے والوں کو عزت و احترام سے دفن کیا جاتا ہو، جہاں اسکول کے بچوں کے مبینہ قاتل کو فرار ہوتا دیکھ کر ماؤں کے کیلجے منہ کو آتے ہوں، جہاں دوسرے ممالک سے بھیک میں امداد ملنے کی اشاعت فخر سے کی جاتی ہو، جہاں اپنی دھرتی سے غداری کرنے والوں کو معزز اور اشراف کا لقب دیا جاتا ہو، جہاں قلم بکتے ہوں وہاں ہم اعلیٰ اخلاق کی بات کریں تو کیا یہ دیوانے کی بڑ نہیں ہے؟

ہم مذہب کی بنیاد پہ یا چاہے اس کے علاوہ دوسرے طریقے سے معاشرتی اخلاق کو بہتر بنانا چاہتے ہوں، مگر اس کے لئے بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی سے یکسر غافل ہوں تو بھلا کیا اخلاق ایک بھوکے انسان کا پیٹ بھر سکتا ہے؟ کیا ہم اس انسان کو چوری سے روک سکتے ہیں جس کے گھر میں کئی دن سے چولہا نہ جلا ہو؟ ہم اس عفت مآب بی بی کو عصمت فروشی سے بچا سکتے ہیں جس کے گھر غربت کے دیو نے بسیرا کر لیا ہو؟ کیا ہم اس سرکاری افسر کو رشوت سے روک سکتے ہیں جو اپنی کم تنخواہ کی وجہ سے اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنا چاہتا ہو؟

اگر ہم ایسا سوچ رہے ہیں یا ایسا چاہ رہے ہیں تو اس کا مطلب ہم صرف بیماری کی ظاہری علامت کو ہی دیکھ کر اس کے اوپر لیپ کر رہے ہیں اور ہماری توجہ اس طرف نہیں جا رہی جو ہیماری کی اصل جڑ ہے اور جس کا علاج کیے بنا بیماری کا خاتمہ ناممکن ہے۔ہمارے یہاں کے چند دانشور تو یہاں تک چلے گئے ہیں کہ وہ اپنے گریبان میں جھانکنے کی بجائے یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اتنے لوگوں کو اگر پھانسی دے دی جائے، تو معاملہ حل ہو جائے گا۔اگر ہمیں اپنے طریقے سے کام کرنے دیا جائے تو اس ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔ ہم ہی وہ لوگ ہیں جو اس ملک کے محافظ ہیں وگرنہ ہم نہ ہوں تو یہ غدار اس ملک کو لوٹ کر کھا جائیں وغیرہ وغیرہ، مگر اپنے آپ کو آئین کی حدود میں لانا، اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کرنا اور اپنے افعال کی بابت باز پرس کی جو بات کی جائے تو معاملے کا رخ کچھ ایسے طور کر دیا جاتا ہے کہ جہاں اس ملک کی مٹی کی محبتوں میں جواں ہونے والے شخص کو غدار، اس ملک کی ترقی کی خاطر رات دن محنت کرنے والے کو ملکی سلامتی کے لیے خطرہ، اس ملک کی معاشی ترقی کے لئے مصروف عمل شخص کو راستے سے ہٹانا عین قومی مفاد سمجھا جاتا ہے اور پھر اس پہ مستزاد میڈیا پر بیٹھے وہ بھاڑے کے ٹٹو ہیں جن کی مثال اس کتے کی سی ہے جو اپنے مالک کے اشاروں پہ بھونکتا اور اسی کے کہنے پہ کاٹتا ہے۔ وہ کہیں بیچ چوراہے میں نظر آتے ہیں تو کہیں کسی نام نہاد درویش کی محفل میں رفیق بن کر جذبہ سرشاری اور حب الوطنی کی لے میں اقبال کا یہ شعر زبان حال سے ادا کر رہے ہوتے ہیں کہ

کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).