کراچی کوئٹہ چمن روڈ پر ڈر کا سفر


پاکستان بھر کے لوگوں کی بلوچستان کے اہم مسئلے کی جانب توجہ مبذول کرانا ضروری ہے۔ ’بلوچستان کو ڈبل روڈ دو‘ کے سلوگن کے تحت کراچی کوئٹہ چمن روڈ پر آئے روز پیش آنے والے حادثات کا سدباب کرنے کیے حکومت کو متوجہ کرنا مقصود ہے۔ لوگوں تک اس خونی سڑک کے بارے میں جو خبریں پہنچ سکی ہیں، اس میں الیکٹرانک میڈیا کا خاص کردار نہیں کیونکہ وہ فی الحال گوادر کے اسٹیڈیم کی پذیرائی میں مشغول ہے، میڈیا کا کام موجودہ حکومت میں مثبت چیزوں پر فوکس کرنا ہے ، مگر بلوچستان کے مجھ سمیت کئی سوشل میڈیا کے نان پیڈ لکھاریوں بالخصوص جو بلوچستان سے منسلک ہیں، انہوں نے تہیہ کیا ہے اس اہم مسئلے پر قلم کو حرکت دینی ہو گی اور حکام بالا کی توجہ اس اہم مسئلے کی جناب مرکوز کروانی ہو گی۔

آپ کو تحریر کے عنوان سے محسوس ہو رہا ہو گا کہ میں ’ڈر کے سفر‘ سے منسلک میں کوئی کہانی، آخرت کے عذاب، زندگی اور موت کے درمیان کے فاصلے وغیرہ کو شیئر کرنا چاہتا ہوں لیکن ایسا نہیں ہے۔

یہاں ڈر کے سفر سے مراد کراچی سے کوئٹہ چمن تک کا سفر ہے اور اس اہم شاہراہ پر اب سفر اب ڈر کا سفر ہی ہے۔ مصدقہ اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں سال 2020ء کے دوران قومی شاہراہوں پر 8 ہزار 605 ٹریفک حادثات میں ایک ہزار 2 لوگ لقمۂ اجل بنے ہیں جبکہ ایک اندازے کے مطابق 90 فیصد سے زائد حادثات اس اہم شاہراہ پر ہی رونما ہوئے ہیں جو کراچی سے کوئٹہ چمن تک جاتی ہے۔ حادثات کی تعداد سے اندازہ ہوتا ہے کئی افراد گہری چوٹیں لگنے کے باعث معذور ہو چکے ہوں گے ۔ ان میں ہزاروں افراد ایسے ہوں گے جو اپنے گھر کے کفیل ہوں گے ۔

کئی حادثات میں پوری کی پوری فیملی موت کا شکار ہوئی۔ یہ 2020 کا ڈیٹا ہے ۔ گزشتہ سال کی نسبت اس سال میں حادثات میں 50 فیصد زیادہ اضافہ دیکھنے کو ملا ہے مگر بلوچستان حکومت بشمول وفاقی حکومت کی جانب سے اس حوالے سے کوئی خاطر خواہ پیش رفت دیکھنے کو نہیں مل رہی۔ اس مسئلے کے حل کے لیے لانگ مارچ سے لے کر ہر سطح پر عوامی احتجاج ریکارڈ ہو چکا ہے اور اب بھی احتجاج جاری ہیں۔

وزیراعظم نے بلوچستان وزٹ پر کہا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان اچھے ہیں جبکہ وزیراعلیٰ بلوچستان جب وفاق سے ہو کر آتے ہیں، وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ وزیراعظم اچھے ہیں۔ تاحال اس دو طرفہ مدح سرائی کے علاوہ اور کچھ عوام کو حاصل نہیں ہو سکا ہے۔ بلوچستان میں عالمی وبا کورونا سے زیادہ خطرناک یہ قومی شاہراہ ہے جس سے جڑے خطرات سے نمٹنے کے لیے ویکسین کی نہیں بلکہ اسے ٹو وے یعنی دو رویہ بنانا ضروری ہے۔

کراچی ٹو کوئٹہ چمن قومی شاہراہ کو اس وقت ملک کی سب سے زیادہ ٹریفک والی مصروف روڈ تصور کیا جاتا ہے، جہاں پر اتنے حادثات ہونے کے باوجود موٹروے یونیفارم ڈیزائن تبدیل کرنے، این ایچ اے پلستر کرنے، ٹول ٹیکس مخصوص گھرانے چلانے، چوکیاں مال بنانے اور حکام بالا سمیت سیاسی اکابرین اپنا دھندہ چلانے میں مصروف عمل ہیں۔ جبکہ حکومت ہر حادثے پر اظہار افسوس کر کے اپنی ذمہ داری نبھا رہی ہے۔

سی پیک کے حوالے سے بھی اس روڈ کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ اگر کالے دھندے کی بات کی جائے تو بھی یہ شاہراہ اپنی مثال آپ ہے۔ غیرقانونی تیل کی اسمگلنگ، غیرملکی اشیاء کی اسمگلنگ اور ہر قسم کے نشے کی اسمگلنگ کے لیے بھی یہ اہمیت کی حامل شاہراہ تصور ہوتی ہے۔ ان تمام معاملات کے باعث اس قومی شاہراہ پر سفر کو ’ڈر کا سفر‘ہی کہا جا سکتا ہے۔

میرے نزدیک بلوچستان کے عوام کا سب سے اہم مسئلہ اس روٹ کا سنگل وے سے ٹو وے بننا ہے۔ اس کا حل تاحال نظر نہیں آتا۔ حکومت کو اگر یہ مسئلہ اہم نہیں  لگتا تو کوئی منسٹر،وزیراعظم یا وزیراعلیٰ اس سٹرک پر سیکیورٹی اور وی آئی پی پروٹوکول کے بغیر سفر کر کے دکھائے ۔ اگر تجربہ کامیاب ہوا تو اس عوامی مطالبے کو رد کر دیا جائے۔ اگر تجربہ کامیاب نہ ہوا تو عوامی مطالبے پر توجہ کی جائے۔

اس تصور سے بھی اختلاف ممکن نہیں کہ احتیاط افسوس سے بہتر ہے مگر اس کے لیے بھی انتظامیہ کا مؤثر کردار لازمی ہے۔ سیفٹی پلان کا ہونا، روڈ بریکرز کا لگانا، روڈ ٹیگز، اوورلوڈنگ، اوور اسپیڈ بالخصوص کوچ مالکان کے خلاف کارروائی عمل میں لانا، نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کو کسٹڈی میں لینا ۔ ہیلمنٹ اور ڈرائیونگ لائسنس پر عمل درآمد یقینی بنانا ضروری ہے۔

ہم سب جانتے ہیں اب سفر ہر عام و خاص کا معمول بن چکا ہے۔ مگر بلوچستان کی اس شاہراہ پر سفر کرنے والے لوگ زندگی سے زیادہ موت کو قریب سے دیکھنے لگے ہیں۔ ریاست کو اپنی ذمہ داری سے غافل رہ کر خاموش قاتل بننے اور روایتی سیاسی اداکاری کی بجائے عوام کو درپیش اس اہم مسئلے کو حل کرنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).