فرانس، خاموشی کا کلچر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی پر اکساتا ہے


تحریر: ٹونی باربر، فنانشل ٹائمز
مترجم: تسلیم نیازی

بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا اسکینڈل جو پیرس کی ثقافتی اشرافیہ کو مجرم بنا رہا ہے، اس میں تصریحاً فرانسیسی خصوصیات موجود ہیں، تاہم یہ بدنما غیرمعمولی نئی صورتحال کوئی قومی حدود نہیں جانتی۔ اس کی دیگر مثالوں میں برطانوی انٹرٹینمنٹ کی صنعت، امریکی بدنام زمانہ سرمایہ دار جیفری ایپسٹائن اور دنیا بھر میں کیتھولک چرچ کے تنظیمی ڈھانچے میں پائے جانے والے خوفناک جرائم شامل ہیں۔

یہ معاملات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ طاقت، دولت اور شہرت کے تحفظ تلے برائی پنپتی ہے۔ جیسا کہ سیاست میں انہوں نے مظاہرہ کیا کہ جاننے والوں کو تحفظ فراہم کرنا بھی اتنا ہی برا ہو سکتا ہے جتنا کہ جرم۔ بہرحال جب گردوپیش کی صورتحال خاموشی کے رواج کو ترجیح دیتی ہو تو متاثرین کے ساتھ بدسلوکی کرنے والوں اور ان کے ساتھیوں کا نام بتانے کے لئے ہر مثال جرات کی ضرورت کا سبق دیتی ہے۔

فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے گزشتہ ماہ سوشل میڈیا پر جاری ایک ویڈیو میں اس خاموشی کو ہدف بنایا۔ ممتاز فرانسیسی دانشور ڈوہمیل کی سوتیلی بیٹی کیمیل کوچنر کی کتاب میں اولیور ڈوہمیل پر بچوں کے ساتھ زیادتی کے الزام کے بعد اپنے خطاب میں انہوں نے زنائے محرم اور بچوں کے خلاف دیگر تشدد کے متاثرین سے وعدہ کیا کہ آپ کبھی تنہا نہیں ہوں گے۔

ستر سالہ اولیور ڈوہمیل نے ان الزامات کو ذاتی حملہ قرار دیا ہے۔ کیمیل کوچنر نے الزام لگایا کہ اولیور ڈوہمیل نے ان کے دو جڑواں بھائیوں کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ معروف مصنفین، مفکر اور میڈیا سے وابستہ افراد کے قریبی پیرس کے شہریوں کے لئے ان کا بیان سخت ناگوار نہیں ہے، ان میں کچھ ایسے بھی تھے جو مبینہ طور پر جانتے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے لیکن ایسے ظاہر کرتے یا یقین رکھتے ہیں کہ یہ کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے۔ کیا کیمیل کوچنر کے ذہن میں سینٹ جرمین ڈیس پرس کا فیشن ایبل ماحول تھا جب انہوں نے اپنی کتاب کو لا فیمیلہ گرانڈ کا نام دیا۔ جس کا توسیعی خاندان کے طور پر تجربہ کیا جاسکتا ہے، اس میں خود انتخابی، ازخود دانشور طبقے کی نشاندہی جو مافیا کی طرح رویہ اختیار کرتے ہیں، خاموشی کے ضابطے انہیں تحقیقات سے بچاتے ہیں کہ کوڈ کے استعمال کے ساتھ ان کی نشاندہی اور مذمت کی گئی ہے۔

یہ یاد کرنا خلاف قاعدہ نہیں ہے کہ فرانس کے چند قابل احترام دانشوروں نے 1970 کے عشرے میں پیڈو فیلیا کو جائز قرار دینے کے لئے مطالبہ کرتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں کی تھی۔ ژان پال ساترا، سیمون ڈی باؤویر، جیکس ڈریڈا اور دیگر قابل احترام شخصیات نے پٹیشن پر دستخط کیے کہ فرانسیسی قانون میں بچوں اور نوعمروں جس کا بھی انتخاب چاہیں ان کے ساتھ تعلقات کے حق کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔

اس طرح کے رویوں نے ”بورژوا اخلاقیات“ ، جو مئی 1968 کے آفاقی انقلابی واقعے کا سبب اور نتیجہ دونوں ہی تھا، پر بڑے پیمانے پر عام حملے کا اظہار کیا۔ اس دور کا نعرہ تھا کہ مانع سے منع کرنا منع ہے۔ جب اس کا اطلاق جنسی سلوک پر ہوتا ہے تو اس معاملے میں بچوں کی کوئی شنوائی نہیں تھی۔

برطانیہ کے بدترین زیادتی کے اسکینڈل کی سب سے بدنام شخصیت کوئی دانشور نہیں بلکہ ایک ڈسک جوکی اور ٹیلی ویژن کا میزبان جمی سیوائل تھا۔ اس سے بہت پہلے کہ اس کے متاثرین نے عوامی سطح پر اپنی درد مندانہ کہانیاں پیش کیں، 1990 میں اسے فلاحی کاموں کی وجہ سے رابن ہڈ کے خطاب سے نوازا گیا تھا۔ تاہم اس کی موت کے دو سال بعد 2013 میں شائع ہونے والی ایک پولیس رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ جمی سیوائل عام نظر سے چھپ کر چھ عشروں تک کمزور لوگوں تک آزادانہ رسائی حاصل کرنے کے لئے وہ اپنی مشہور شخصیت کی حیثیت کا فائدہ اٹھاتے رہے تھے۔

سنہ 1978 کے اوائل میں جمی سیوائل کے جرائم کو روکنے کے لئے کسی کو بولنا پڑا جو اس کی موت کے بعد پتہ چلے۔ یہ سیکس پسٹل پنک راک بینڈ کے مرکزی گلوکار تھے، تاہم انہوں نے تنہا آواز بلند کی۔ وہ انٹرویو جس میں انہوں نے جمی سیوائل کی مذمت کی تھی کبھی نشر نہیں ہوا اور تقریباً 40 برس تک منظر عام پر نہیں آیا۔

بالکل پیرس کی طرح لندن میں بھی متعدد افراد حقائق سے آگاہ یا تشکیک کا شکار تھے۔ تاہم جیسا کہ فرانس کی اشرافیہ کی طرح برطانوی میڈیا اور تفریحی کاروبار اپنے سوا کسی کو جوابدہ نہیں تھا۔ کچھ ایسی ہی کہانی کیتھولک دنیا کی بھی تھی، جہاں جرمنی، آئرلینڈ، پولینڈ، امریکا اور دیگر ممالک کے مذہبی اداروں نے پیڈوفائل پادریوں کو خاموشی سے ایک علاقے کے گرجا گھر سے دوسرے علاقے کے گرجا گھر منتقل کر کے اس معاملے سے نمٹا۔

امریکا میں قانون اور دولت کا استعمال ایک امتیازی عنصر رہا ہے۔ امریکی سرمایہ دار جیفری ایپسٹائن جس کا انتقال 2019 میں ہوا تھا، اس نے سودے بازی اور عدم انکشافی معاہدوں کے ذریعے اپنے جرائم کو عوام کی نظروں سے دور رکھنے کی کوشش کی۔ پاپ اسٹار مائیکل جیکسن نے 1994 میں اس کے خلاف متنازع الزام کو عدالت کے باہر تصفیہ کر کے معاملے کو حل کر لیا تھا۔

کیا ان سب واقعات سے صحیح سبق حاصل کیا جائے گا؟ کچھ علامات حوصلہ افزا ہیں۔ اول، متعدد ممالک کے حکام بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر آنکھیں بند کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ فرانس کے سینیٹ یا ایوان بالا نے گزشتہ ماہ 13 سال سے کم عمر بچوں اور بالغوں کے مابین بدفعلی کو جرم قرار دینے کے لئے ایک بل منظور کیا تھا۔ دوم، عام لوگ بولنے کے حوالے سے زیادہ خوفزدہ دکھائی نہیں دیتے، جیسا کہ فرانس میں ہزاروں لاکھوں افراد ہیش ٹیگ می ٹو زنائے محرم کے تحت اپنی کہانیاں بیان کر رہے ہیں۔

تاہم درحقیقت بچوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتیوں اور خاموشی کا کلچر جو اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، کے خلاف جدوجہد کی ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).