جنرل میکارتھر اور ایمل کانسی کا طریق جنگ


جنگ عظیم دوم میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے گئے جس سے لاکھوں لوگ لقمۂ اجل بن گئے۔  یہ حملے اتنے شدید تھے کہ چاپانیوں نے ہتھیار پھینک دیے کیونکہ ان کی کمر ٹوٹ چکی تھی۔ اتحادیوں نے چاپان کو جنرل ڈگلس میکارتھر کے حوالے کر دیا۔

جنرل میکارتھر ایک زیرک انسان تھے، انہوں نے جاپانی قوم پر دلچسپ دستاویزات تیار کیں جس میں انہوں نے کہا کے جاپانیوں میں خودکشی کا رجحان پایا جاتا ہے اور ہیروشیما اور ناگاساگی کے بعد جاپانیوں کی زندگی کا ایک ہی مقصد تھا، امریکہ کو تباہ کرنا، امریکیوں کو قتل کرنا۔ جنرل میکارتھر نے اس خطرے کو بھانپ لیا اور اس خطرے سے نمٹنے کے لئے ایک فارمولہ بنایا گیا جو امریکہ کی منظوری کے بعد جاپان کا آئین بن گیا جس کے مطابق جاگیردارانہ نظام اور خفیہ پولیس کے محکمہ بند نوجوانوں کو رائے دہی کا حق دے دیا گیا، تعلیم عام کر دی گئی۔

میکارتھر نے کہا کہ ہمیں مستقبل میں ایسے خطرات سے نمٹنے کے لئے جاپانیوں کے دلوں میں امریکی نفرت ختم کرنا ہو گی۔ جاپانی ذہن تبدیل کرنا ہوں گے، امریکہ کو جاپانیوں کے لئے اپنی جامعات کے دروازے کھولنا ہوں گے۔ دوسری طرف میکارتھر نے جاپان میں ادیبوں کا ایک طبقہ پیدا کیا جو نوجوانوں کو بتاتا کہ اب جنگ کا رخ بدل چکا ہے، اب اگر ہم نے امریکہ سے بدلہ لینا ہے تو ٹینکوں، بندوقوں اور بموں کی جگہ کارخانے، لیبارٹریاں اور سکول بنانے ہوں گے۔ یہ سب ایک شخص کا نظریہ تھا جس نے جاپانی تاریخ کو بدل کر رکھ دیا۔

دس فروری 1964 کو کوئٹہ کے ایک پشتون قوم پرست سیاسی گھرانے میں ایک بچہ جنم لیتا ہے، پہلے دن سے ہی الگ مزاج رکھنے والے اس بچے نے ابتدائی تعلیم گرائمر سکول کوئٹہ سے حاصل کی، گریجویشن کی ڈگری بھی گورنمنٹ ڈگری کالج کوئٹہ سے حاصل کی، گریچویشن کے بعد جامعہ بلوچستان سے انگلش لٹریچر میں ماسٹر کیا، یہ انتہائی قابل اور ذہین بچہ میر ایمل خان کانسی تھا، جسے آج دنیا ایمل کانسی کے نام سے جانتی ہے۔

میر ایمل خان کانسی کا تعلق چونکہ قوم پرست گھرانے سے تھا، یوں زمانۂ طالب علمی میں ہی اس کی توجہ پشتون قوم پرست سیاست کی جانب مبذول ہو گئی۔ جامعہ میں تعلیمی سلسلہ شروع کرنے کے بعد انہوں نے عوامی نیشنل پارٹی کی طلبا تنظیم پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن میں شمولیت اختیار کی۔ بعد میں وہ پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کی طلبا تنظیم پشتون سٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے وابستہ رہے۔

ایمل خان کانسی 3 مارچ 1990 کو سیاسی پناہ کی خاطر امریکہ گیا، وہاں ایک کورئیر کمپنی ”ایکسل“ میں ملازمت کی، یہ کمپنی امریکی خفیہ ایجنسی کو حساس دستاویزات پہنچاتی تھی، ایمل کانسی بھی دستاویزات لے کر ہیڈ کوارٹر جایا کرتا تھا۔

پچیس جنوری 1993 کی صبح سات بج کر 7 منٹ پہ ورجینیا میں مکلین کی سڑک پر ایک گاڑی رکی جس پر ایک نوجوان نے فائر کھول دیا جس کے نتیجے میں دو امریکی شہری ڈاکٹر لاسنگ پینٹ اور فرینک ڈارلنگ جاں بحق ہو گئے، فائرنگ کرنے والا نوجوان پاکستان کے شہر کوئٹہ کا ہونہار طالب علم میر ایمل خان کانسی تھا۔ ایمل کانسی فائرنگ کے بعد پاکستان فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔

ایمل کانسی نے امریکہ سے شدید نفرت کی بنا پہ سی آئی اے کے ایک سابق ڈائریکٹر کو قتل کرنے کا پروگرام بنایا تھا کیونکہ اس کا خیال تھا کہ عراق اور مشرق وسطیٰ میں امریکہ نے ناجائز حملے کر کے ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کیا ہے۔  اسے امریکہ کی اسرائیل نواز خارجہ پالیسی سے شدید اختلاف تھا کیونکہ وہ فلسطینیوں کے خلاف تھی۔ اس کا مقصد امریکہ سے بدلہ لینا تھا۔

امریکہ نے مسلسل چار سال تک اس کا تعاقب کیا اور 15 جنوری 1997 کو اسے گرفتار کر لیا۔ کانسی کی مخبری کرنے والے شخص کو 35 لاکھ ڈالر دیے گئے اور 14 نومبر 2002 کو ایمل کاسی کو زیریلا انجیکشن لگا کر ابدی نیند سلا دیا گیا۔

امریکہ نے اس وقت پوری دنیا کے مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں، چاہے افغانستان، ایران، عراق، شام ہو یا فلسطین۔ کوئی بھی ریاست امریکہ ظلم و جبر سے محفوظ نہیں۔ اب نوجوانوں میں اسی طرح کا رویہ پایا جاتا ہے جیسا ایمل کاسی کا تھا، اسی لیے ہر مسلمان نوجوان امریکہ اور امریکیوں سے نفرت کرتا ہے۔

ہمیں اس وقت جنرل میکارتھر جیسے لیڈر کی ضرورت ہے جو ہمیں سمجھا سکے کہ اب جنگ کا زاویہ اور میدان بدل چکا ہے۔ اب تم لوگ بموں اور رائفلوں سے امریکہ کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اگر تم لڑنا چاہتے ہو تو تعلیم اور ٹیکنالوجی کے میدان میں امریکہ کا مقابلہ کرو۔ امریکہ کو بھی جاپانیوں کی طرح پاکستانیوں، افغانیوں اور دوسرے ممالک کے لوگوں کے لئے اپنی جامعات کے دروازے کھولنا ہوں گے ورنہ القاعدہ، جیش محمد، طالبان اور ان جیسی درجنوں تنظیموں کے نوجوان سر پہ کفن باندھ کر گھومتے رہیں گے اور ایمل خان کانسی کی طرح امریکہ سے بدلے لیتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).