بائیس برس بعد جنت سے ابا کا پہلا خط


ایک خط آیا ہے ہمارے نام!

بے پناہ محبت سے گندھی ہوئی سطریں کسی مضراب کی طرح روح کی تاروں کو ایسے چھیڑتی ہیں کہ آنکھ کے ساکت پانیوں میں طغیانی آ جاتی ہے اور وہ بے شمار بھولی بسری یادیں ملتجی نظروں سے ہمیں یوں دیکھتی ہیں گویا اس قفس سے رہائی چاہتی ہوں۔

جان پدر!

بہت ہفتوں سے دل چاہ رہا تھا کہ تمہیں خط لکھوں بالکل ویسے ہی جیسے کبھی تمہاری طالب علمی کے زمانے میں ہفتہ واری خط لکھتا تھا۔ کئی دفعہ قلم اٹھایا مگر نہ جانے کیوں کچھ لکھنے سے پہلے ہی رکھ دیا۔

لیکن آج تمہاری اماں کا اصرار ہے کہ تمہیں آج یہ خط بھیجا جانا چاہئے۔ وہ جانتی ہیں کہ تم اہم دنوں کو یادوں کی ڈور سے باندھ کے رکھتی ہو اور سات فروری تمہارے لئے اہم دن ہے۔ بلکہ یوں کہنا مناسب ہو گا کہ نہ صرف تمہارے لئے بلکہ میرے لئے بھی!

سات فروری 2019 کو تم نے وہ روپ اوڑھ لیا جو زندگی کی ہماہمی میں تم کہیں رکھ کے بھول گئیں تھیں۔ شاید دو چھتی پہ پڑے پرانے جستی ٹرنک میں، یا تہہ خانے میں پڑی پرانی بوسیدہ کتابوں میں، یا پھر کسی الماری کے ایسے گوشے میں جہاں تک ہاتھ یا نظر نہ پہنچتی ہو۔ یا پھر کسی پرانی البم کی سال خوردہ تصویروں کے درمیان جہاں وقت کی گردش سے مہ وسال کی گرد تو جمتی جائے لیکن اس کے باوجود اس کے دلنشین رنگ چھپائے نہ چھپیں۔

کیا جانتی ہو تم کہ میں بہت برسوں سے اس لمحے کے انتظار میں تھا۔ مجھے علم تھا تمہارے اندر بہت سے لفظ جمع ہو چکے ہیں جو سر پٹخ پٹخ کے رہائی چاہتے ہیں۔ تم ان کی آواز پہ کان نہیں دھرنا چاہتی تھیں اور تم اس خزینے کو اپنے آپ سے بھی چھپا کے رکھتی تھیں۔ جیسے کسی خزانے کی حفاظت پہ بیٹھا سانپ اس سے آپ ہی آپ لطف اندوز ہوتا رہے لیکن کسی کو پاس نہ پھٹکنے دے۔

مجھے علم تھا کہ جلد یا بدیر تمہیں کہنی ہو گی وہ سب باتیں! ہاں وہی سب جو تم نے اوائل عمری میں کرنا سیکھیں اور بنا کسی جھجھک کے کہنا شروع کیں، بے لاگ، بلا خوف وخطر، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے۔

کہاں سے بات شروع کروں؟ کیا یاد کروں اور کیا نہیں؟ یادوں اور باتوں کا ایک طوفان بلا خیز ہے جو امڈا چلا آتا ہے۔

چلو پھر بات کرنی ہی ہے تو وہیں سے کرتے ہیں جب اس داستان کا آغاز ہوا تھا۔ تم نے مجھے ہمیشہ خاموش اور گم سم دیکھا لیکن یہ خاموشی مقدر نے چپکے سے اس وقت میرے دامن میں ڈال دی تھی جب میں تمہاری بڑی بہن سے جدا ہوا۔ طاہرہ، میری سب سے پہلی اولاد!

میں نے اسے ایسے ہی چاہا جیسے ہر کوئی اپنی پہلی اولاد کو چاہتا ہے لیکن اب یوں لگتا ہے کہ نہیں بات کچھ اس سے زیادہ تھی۔ وہ میری زندگی کی ایسی کشش تھی کہ جب وہ بچھڑی تو میرا مدار ٹوٹ گیا۔ مجھے ایسا لگتا تھا کہ میں کسی خلا میں معلق ہوں اور میرے چاروں طرف گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا ہے۔ دن اور رات کی تقسیم بے معنی ہو چکی تھی۔ ایسے ہی کچھ برس گزرے اور پھر اس اندھیرے میں ایک جگنو چمکا۔ میں جو اس خلا میں معلق رہتے رہتے تھک چکا تھا، بے اختیار اس جگنو کو اپنی ہتھیلی میں لے لیا۔ وہ جگنو تم تھیں!

تم میرا جگنو تھیں مگر میں تم سے ڈرتا تھا۔ میں سوچتا تھا کہ اگر تم نے بھی جدائی کا داغ دے دیا تو پھر میں جی نہیں پاؤں گا۔ میں تم سے زیادہ باتیں نہیں کرتا تھا اگر چہ تم اپنی ہر بات سنانے کے لئے میرے پاس پہنچ جاتیں۔ میں ہوں ہاں کرتا رہتا اور آنکھ اٹھا کے بھی تمہاری طرف نہ دیکھتا کہ کہیں میری ہی نظر تمہیں نہ لگ جائے۔

ایک اور بات بھی بتانا ہے تمہیں، میں اس خلا سے باہر تو نکل آیا تھا لیکن تب تک کم گوئی میرے اندر سرایت کر چکی تھی۔ میں باتیں کرنا چاہتا تھا لیکن زبان پہ رکھے لفظ منجمد ہو جاتے۔ لیکن تم نے اس دیوار کو کبھی درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ تم میرے قریب آتیں، جو دل میں آتا کہتیں اور جواب کے لئے کبھی امید کی شمع نہ جلاتیں۔ تم میرے منہ پہ آنے والی خفیف سی مسکراہٹ سے بھانپ لیتیں کہ میں نے نہ صرف تمہیں سنا ہے بلکہ لطف بھی اٹھایا ہے۔

تم ہر وقت میرے اردگرد منڈلاتیں رہتیں، میں جس کتاب کو پڑھتا، تم اسے بغور دیکھتیں اور پھر پڑھنے کی کوشش کرتیں۔ یہیں سے تم نے کتابوں سے محبت پال لی اور رفتہ رفتہ اس محبت میں تم مجھ سے آگے نکل گئیں۔ اب چاہے الماری میں بچھا پرانا اخبار ہو یا مصالحہ بندھی پڑیا کا کاغذ، پرانے کاغذات سے نکلا کوئی بوسیدہ کاغذ کا ٹکڑا، حساب کتاب کا روزنامچہ، بڑے بہن بھائیوں کے نصاب میں شامل ناول، تمہاری اماں کے رسالے، مذہبی ہدایت نامے، ابن صفی کے ناول، کچھ بھی تو تمہاری آنکھ سے نہ بچ پاتا۔ تم وہ کیڑا بن چکی تھیں جو کاغذ اور حرف کی محبت میں تمام عمر انہی بوسیدہ اوراق سے چپک کے گزار دیتا ہے۔

میرے کسی دوست کے ہاں اگر تم ساتھ جاتیں تو وہاں پہنچتے ساتھ ہی عقابی نظروں سے ادھر ادھر دیکھتیں۔ میں دل ہی دل میں مسکراتا کہ جانتا تھا تمہیں کیا چاہیے؟ اگر تمہاری نظر بے مراد رہ جاتی تو تم واپسی پہ منہ بسورتے ہوئے کہتیں، یہ کتنے اکتائے ہوئے لوگ تھے ابا، ان کے گھر میں نام کو بھی کتاب نہیں تھی۔ بھلا لوگ کتابیں کیوں نہیں پڑھتے ابا؟

اتنی کتابیں پڑھنے کا نتیجہ جلد ہی سامنے آنے لگا۔ وہ رات جب تم میرے بستر پہ دراز مجھے کہانی سنا رہی تھیں اور بادشاہ اور وزیر کی گفتگو کی منظر کشی کے دوران تمہارا وہ جملہ ” جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں ” مجھے ششدر کر گیا تھا۔ الفاظ کا ذخیرہ تمہارے اندر جمع ہو رہا تھا اور تم ان کے استعمال پہ بھی قادر تھیں، یہ اسی دن میں نے جان لیا۔

اسی زمانے میں تم نے مختصر کہانیاں اور نظمیں لکھنی شروع کیں۔ اتنی چھوٹی عمر میں یہ بہت حیران کن تھا۔ تم لفظوں سے کھیلنے کے کھیل کا آغاز کر چکی تھیں اور میں نے حیران ہونا چھوڑ دیا تھا۔

شاید تمہیں یاد نہ ہو کہ تم نے بہت سے ان مقابلوں میں شرکت کی جہاں کسی بھی موضوع پہ ایک گھنٹے کے اندر مضمون لکھنا ہوتا تھا۔ تم نے کبھی نہیں بتایا کہ تم نے کیا لکھا مگر تمہارے ہاتھوں میں تھاما انعامی پیکٹ تمہارے لکھے ہوئے لفظوں کی سچائی اور طاقت کی گواہی دیتا تھا۔

پھر تم نے تقریری مقابلوں میں حصہ لینا شروع کیا اور انعامات والی الماری میں دھیرے دھیرے جگہ تنگ ہوتی چلی گئی۔ کاغذ اور قلم کا رشتہ تو قائم تھا لیکن اب اس میں کچھ اور رنگ بھی بھرے جا رہے تھے۔

اور پھر بھاگتی دوڑتی زندگی نے تمہارا شوق نگل لیا بالکل اسی طرح جیسے چاند بدلیوں کے پیچھے چھپ جائے اور چھپن چھپائی کا یہ کھیل برسوں پہ محیط ہو جائے۔ تم نے ان اہلے گہلے الفاظ کو دفن کر دیا اور زندگی کو اس کے اصل رنگ میں برتنے نکل کھڑی ہوئیں۔

میرا اور تمہارا ساتھ بہت مختصر رہا۔ میں بھی وہی چپ سادھے اگلی منزلوں کو روانہ ہوا اور وہ بہت کچھ تم سے نہ کہہ سکا جس کو جاننے کی چاہ آج تک تمہارے اندر شور مچاتی ہے۔

میری جدائی تمہارے لئے ایک ایسا زخم تھی جس سے رہ رہ کے ٹیسیں اٹھتی تھیں مگر پھاہے رکھنے کو تمہاری ماں موجود تھی۔ تمہاری اماں جس نے میرے جدا ہو جانے کے بعد تمہیں میری نظر سے دیلھنا اور سمجھنا شروع کیا۔ وہ وقت کربناک تو تھا مگر ماں نے تمہیں بہلائے رکھا۔

میں تمہاری زندگی کے ہر موڑ پہ تمہیں دیکھتا رہا، میری دعائیں شامل حال رہیں مگر وہ… پل جس کا مجھے انتظار تھی، تم ہمیشہ اس پل سے کترا کے گزر جاتیں۔ قلم اور کاغذ کو اجنبی نظر سے دیکھتے ہوئے رخ موڑ لیتیں۔ اس خول کو چٹخنے کی ضرورت تھی جو تم نے اپنے احساس، درد، اور آگہی پہ چڑھا رکھا تھا۔ میں جانتا تھا جلد یا بدیر ایسا ہو گا، اس خزینے کو آخر کب تک مدفون رکھو گی تم؟ اور پھر وہ وقت آ گیا۔ وہ لمحہ جب تمہاری ماں نے تمہاری بانہوں میں اپنا آخری سانس لیا اور کشش کا وہ مرکز گم ہوگیا جس کے گرد تم طواف کیا کرتی تھیں۔

مجھے علم تھا، تم ایک ایسے خلا میں معلق ہو جاؤ گی جہاں تم تک کوئی آواز نہیں پہنچے گی۔ آخر یہی تو ہوا تھا میرے ساتھ اور تم میرے نقش پا پہ چلنے کی تو کوشش کرتی تھیں۔ مگر میں یہ بھی جانتا تھا کہ جیسے اس خلا سے مجھے تم واپس لائیں تھیں، ویسے ہی تم بھی اپنے قدم زمین پہ ضرور جماؤ گی۔ اس اثاثے اور سرمائے کے ذریعے جس کی بنیاد میں نے رکھی تھی اور جس کو تم نے برسوں اپنے خون جگر سے پالا تھا۔ قلم، کاغذ، الفاظ، احساس، انسانیت کا درد، آگہی پھیلانے کی آرزو، صنفی مساوات اور انصاف کی تمنا!

 پھر درد سے بھرے اس خلا سے وہ آتش فشاں بہہ نکلا جس کا میں مدت سے منتظر تھا۔ تم نے کھویا ہوا قلم اپنے ہاتھ میں تھام لیا تھا اور تم ایک ایسی جنگ کا آغاز کر چکی تھیں جس کا بنیادی مہرہ عورت تھی۔ وہی عورت جو خود بھی نہیں جانتی کہ وہ عورت ہونے سے پہلے ایک انسان بھی ہے!

پیچھےمڑ کے دیکھتا ہوں تو سمجھ نہیں پاتا کہ میرے اندر عورت کو انسان سمجھنے کی یہ آنکھ کب بیدار ہوئی؟ میں ایک چھوٹے سے دیہات کا رہنے والا تھا۔ ابا کی چھوٹی سی زمینداری تھی لیکن وہ زیادہ تر بیمار ہی رہا کرتے تھے۔ عسرت اور تنگدستی گھر میں ڈیرے ڈالے بیٹھی تھی۔ علم حاصل کرنے کے مواقع عنقا تھے۔ لیکن میری ماں نے مجھے باور کرایا کہ مجھے علم کے زینے پہ ہر صورت چڑھنا ہے۔ یہ میری ماں کا خواب تھا جسے ایمان سمجھ کے میں نے نہ صرف آنکھ میں سجا لیا بلکہ یہ بھی جان لیا کہ ایک کمزور عورت بھی وہ بیج بو سکتی ہے جس سے امن و آشتی اور آگہی کا تناور درخت معاشرے کو رہنے کے قابل بنا دے۔ سو اب سمجھ میں آتا ہے کہ میرے اندر کی آنکھ ایک عورت کے احساس سے بیدار ہوئی۔

 گاؤں سے پانچ جماعت پڑھنے کے بعد میری تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو گیا کہ مڈل سکول تھا ہی نہیں۔ میرے اضطراب اور دلگیری کا علاج پھر ماں نے ڈھونڈا۔ قریبی قصبے میں رہائش پذیر ماموں کا گھر میری منزل بنا، سکول کا خرچہ میرے وظیفے کی رقم سے پوری ہوتی تھی اور رہائش ماموں کے گھر۔ میٹرک میں نے وہیں سے کیا۔ قصبے میں نہ کالج تھا نہ ہی مزید پڑھنے کے اسباب، سو میں نے نوکری کرنی شروع کی اور ساتھ میں پرائیویٹ ایف اے، بی اے اور منشی فاضل تک پہنچ گیا۔ کتاب سے محبت تو اوائل عمری سے تھی لیکن پھر یہ شوق جنون میں بدل گیا۔ کتاب نے مجھے نہ صرف انجانی منزلوں کی سیر کروائی بلکہ انسانی قدروں سے آگہی بھی کتاب کے زریعے ہوئی۔ تب ہی میں نے عہد کیا کہ میں اپنے گھر کی بنیاد کتاب پہ رکھوں گا۔ ہر قسم کی کتاب پڑھنے پہ نہ کوئی پابندی اور نہ کوئی عمر کی قید!

زندگی کے نشیب وفراز سے گزرتے ہوئے جس بھی سوال نے مضطرب کیا اس کا جواب مجھے کتابوں سے ہی ملا۔ اور یوں میرا گھر کتاب دوست بنا جہاں کتاب سب کا اوڑھنا بچھونا بن گئی۔ کتاب کی روشنی میں مجھے وہ سب نا انصافیاں نظر آنے لگیں جو معاشرہ عورت کے ساتھ روا رکھتا ہے اور جونہی وہ احتجاجا زبان کھولتی ہے، وہ سر ہی قلم کر دیا جاتا ہے، رسوم اور اقدار کی آڑ میں کھیلا جانے والا مکروہ کھیل!

حقوق کی اس جنگ کا آغاز جب میں نے کیا، میری مخالفت میں کھڑے ہونے والے پہلے شخص میرے اپنے ابا تھے۔ میری چھوٹی نو عمر بیوہ بہن جس کی دوسری شادی خاندان کی روایات پہ بٹہ لگا سکتی تھی لیکن میں نے سب کا بائیکاٹ سہتے ہوۓ بہن کو اپنے گھر سے رخصت کیا۔ بغیر مانگے اسے وراثت میں حق دیا۔ تم بہنوں کی تعلیم روزگار اور مالی خودمختاری کے متعلق میرے پاس کوئی متبادل سوچ نہیں تھی۔ وصیت لکھتے وقت وراثت میں تم لوگوں کے حق کے متعلق کوئی دوسرا خیال نہیں آیا۔

میری بیٹی! کیا بتاؤں کیسا محسوس ہوتا ہے جب میں تمہیں بے شمار بیٹیوں کی جنگ لڑتے دیکھتا ہوں۔ میرا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے کہ میری تپسیا رائیگاں نہیں گئ۔ جب تعلیم، انسانی حقوق اور ظلم کے خلاف تمہاری احتجاجی تحریریں دیکھتا ہوں تو سجدہ شکر بجا لاتا ہوں کہ میری ریاضت ٹھکانے لگی۔

تمہارا ہر ہر لفظ میرے دل پہ اترتا ہے اور مجھے فخر و انبساط سے ہمکنار کرتا ہے ۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ تم نہیں، میں ہوں۔ یہی سب تو میں بھی سوچتا تھا۔ عورت کی تعلیم، عورت کی آزادئ راۓ، شادی اور طلاق کا حق، وراثت میں حق، مالی خود مختاری کا حق، صنفی امتیاز کی مخالفت۔

تم نے میری ہر سوچ کو قلم میں پرو کے دنیا کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ یہی کچھ تو میں کرنا چاہتا تھا۔ بالکل یہی کچھ، عورت کی اپنی زمین اور اپنا آسمان!

مجھے علم ہے کہ آج تمہارے دوسرے جنم دن کی دوسری سالگرہ ہے اور مجھے یہ بھی خبر ہے کہ تم ہر دن کو کیسے احساس و جذبات میں پرو کے منانا چاہتی ہو۔ میری بیٹی، جان لو کہ تم نے مجھے حیات دوام بخش دی ہے۔ وقت کے نامی گرامی لکھاریوں کے قلم سے میرا نام لکھا جانا، میرا حوالہ تم اور تمہارا حوالہ میں۔ کیا اس سے زیادہ کی تمنا کوئی کر سکتا ہے؟

سلیم الرحمن کی ایک نظم سنا کر اجازت چاہوں گا۔

کوئی جس نے تم کو چاہا،

سرد پا تالوں سے چل کر،

دھند میں لپٹے محاذوں سے پلٹ کر،

کھڑکیوں سے جھانکتا ہے۔

سر اٹھاؤ!

تم اگر جیتی ہو آنکھیں تو ملاؤ۔

کھیلتے ہیں اپنا اپنا کھیل

دنیا میں سپاہی۔

جتنی چالیں، اتنی ماتیں۔

انت میں خالی بساطیں۔

تم اکیلی فوج ہو،

بالکل نہتی؛

زچگی کے مورچوں میں،

باورچی خانے کی کالی خندقوں میں ۔

میری بیٹی! یاد رکھنا تم اکیلی نہیں ہوں، میں تمہارے ساتھ ہوں، ہر پل، ہر گھڑی۔

تمہارے ابا

شوکت علی کاظمی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).