یہ خط آپ کو یاد رکھنا پڑے گا


ہیلو!

اگر السلام علیکم سے آغاز کرتی تو آپ کو حیرت سے غش پڑ سکتا تھا۔ اور میں نہیں چاہتی کہ اپنے جنم دن پہ آپ کو ایسا کچھ ہو۔ کیونکہ اتنے ادب آداب سے کبھی سلام نہیں کیا ناں آپ کو۔ آپ کی خیریت بھی فی الحال مطلوب نہیں کہ کچھ دیر پہلے آپ نے سالگرہ وش کرنے پہ جو رپلائی عنایت فرمایا ہے۔ اس سے پتہ چل گیا ہے کہ فٹ فاٹ ہیں۔ بڑے ہی سال ہو گئے ہمیں ساتھ رہتے۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ جیسے میں پیدا بھی آپ کے گھر ہی ہوئی تھی۔ اور بقول آپ کے جب آپ نے اپنی عقل مندی کی دھونس مجھ پہ چلانی ہو تو یہی کہتے ہیں۔ جھولے سے ہی لایا تھا، عقل مت تے ہے نئیں تینوں۔

پہلے پہل اس بات پہ مجھے قسم سے بڑی خوشی ہوتی تھی۔ یاد ہے تب میں عمیرہ احمد کو آئیڈیلائز کرتی تھی اور اس کے ناولوں کے جیسی ہیروئن بننے کی کوشش کرتی تھی۔ اللہ مجھے اس کے لیے ضرور معاف کر دے۔ لیکن اب اس بات پہ اس قدر غصہ آتا ہے کہ پیروں سے آگ لگ کے سر پہ پہنچتی ہے، اور سر سے واپس پیروں تک جاتی ہے۔ خیر کون سا میرے کہنے سے آپ نے یہ بات کہنا چھوڑ دینی ہے۔ ہم دونوں ہی اپنے اپنے مداروں کے ڈھیٹ سیارے ہیں۔ مخالف بھی ہیں مگر کشش بھی ہے۔ گھوم رہے ہیں مسلسل اور گھومتے رہیں گے۔

کئی سال پہلے کی پہلی ملاقات سے لے کر آج صبح تک ہونے والی ساری بات چیت میں سے مجھے یاد نہیں پڑتا کہ مجھے کچھ بھولا ہو۔ ہاں وقتی روزمرہ کی باتیں بھول جاتی ہیں۔ مگر مجھے اب بھی یاد ہے کہ کیسے مجھے جھوٹ موٹ کی منگیتر بننے کا کہہ کے گھر سے لے کر گئے تھے۔ پھر جب کارڈز میں مجھ سے شرط ہارے تو بندو خان پہ بیٹھے میری بات پہ آپ کے ہاتھ سے سگریٹ اچھل کے گر پڑا تھا۔ ریڈ اور بلیو چیک والی شرٹ اور اس کا ٹوٹا ہوا ایک بٹن۔ اور ہاں وہ تو آپ کو بھی نہیں بھولا کہ جب جوتوں سمیت کارپٹ پہ آئے تھے تو میں نے کہا تھا جوتے باہر اتار کے آئیں۔ آپ کی انا پہ بڑی چوٹ پڑی تھی کہ یہ چھٹکی سی لڑکی نے مجھے کہا کہ جوتے باہر اتاروں۔ سارا زور مجھ پہ تھا۔

جب باتوں باتوں میں سال گرہ کی تاریخیں پوچھی گئیں تو پتہ چلا کہ ہمارا تو مہینہ بھی ایک ہے اور ڈیٹس میں بھی چار دن کا وقفہ ہے۔ تب مجھے تو بے حد خوشی ہوئی تھی۔ مگر اب آپ کو لگتا ہے کہ میں Aquarius نہیں، اور میں آپ کو یہی طعنہ دیتی ہوں۔ مگر سالگرہیں تو فروری میں ہی مناتے ہیں۔ چاہے کوئی Aquarius ہے یا نہیں ہے۔ کیہہ فرق پیندا۔

آپ کو لگتا ہے کہ مجھے عقل نہیں آ سکتی۔ مجھے بھی یہی لگتا ہے، کہ آپ نے اتنی عقل کا کرنا کیا ہے۔ اصل مسئلہ میری یا آپ کی عقل نہیں ، یہ جو ہمارے بیچ نو دس سالہ عمر کا فرق ہے۔ یہ فساد کی جڑ ہے۔ آپ نے ہمیشہ اپنی عمر سے بھی دس سال آگے سوچنا ہے اور میں نے اپنے سے دس سال آگے سوچنا ہے تو وہ مجھ سے سوچا ہی نہیں جاتا۔ اچھا سوری، پر سچ یہی ہے۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے اتنا کچھ سوچا ہے اور سوچ سے ہمیشہ الٹ ہوتے دیکھا ہے کہ اب سوچنے کا دل بھی نہیں کرتا۔

کبھی کبھی میں بیٹھ کے سوچتی ہوں کہ ہمارا رشتہ عجیب و غریب ہے۔ اللہ معاف کرے جیسے ہم اب کبھی کبھار لڑتے ہیں۔ ویسے تو لوگوں کے پیسے لگائے مرغے نہیں لڑتے۔ مگر پھر بھی ہم ساتھ ہیں۔ میں تو خیر شروع سے ہی آپ کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی۔ کبھی کبھی تسی وی خیال کر لیتے ہو۔ مگر کچھ تو ہے جو ہمیں جوڑے ہوئے ہے۔ اب تو بچے بھی کہہ دیتے ہیں۔ آپ دونوں کا کچھ نہیں ہو سکتا۔

حقیقت یہ ہے کہ میں نے جب محبت اور عشق کو محسوس کیا تو آپ کے ساتھ محسوس کیا۔ یہ سوچ کے ہی سانس بند ہوتا تھا کہ اگر شادی نہ ہوئی تو کیا ہو گا۔ پھر شادی اور شادی کے بعد کی زندگی۔ آپ کو میرا پروپوز کرنا اور پہلا بوسہ بھی یقیناً یاد ہو گا۔ ہوں تو میں شروع سے ہی لفنٹر۔ جو دل میں آئے کر لیتی ہوں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ زندگی کے بہت سے سبق آپ نے مجھے سکھائے۔ ایک طرح سے میرے استاد بھی ہیں۔ مگر ہمارا واحد اتفاق صرف احمد بشیر پہ ہوتا ہے، وہ بیک وقت ہم دونوں کو پسند ہیں۔ اور شاید یہ واحد پسند ہے جو ہماری مشترک ہے، ورنہ میں مغرب اور آپ مشرق ہیں۔

وقت نے مجھے مہلت دی تو میں نے اپنی آٹو بائیو گرافی لکھنی ہے، جیسا کہ آپ بھی کہتے ہیں میں بھی لکھوں گا۔ آپ نے یقیناً مجھے ولن بنانا ہے۔ مگر آپ میری سٹوری کے ولن نہیں ہیرو ہی رہیں گے۔ تب میں تفصیل سے لکھوں گی اس رشتے کی کہانی۔ ابھی تو میں نے یہ اس لیے لکھا کہ آپ نے کہا کہ سوکھی مبارک دے رہی ہو تو اتنی دور بیٹھے میں مبارک کو گیلا کیسے کروں،  سمجھ نہیں آیا۔ یہ پڑھ کے آپ کی آنکھیں ضرور گیلی ہو جائیں گی۔ شرطیہ کہہ رہی ہوں۔

مجھے اتنی ساری باتیں یاد آ رہی ہیں مگر تحریر طویل ہو جائے گی۔ اور شاید پڑھنے والے بھی بور ہو جائیں۔ میں سوچ رہی تھی کہ جیسے آپ نے مجھے سلیم کے نام خطوط و طاہرہ کے نام خطوط پڑھوائے تھے۔ یہ تو بالکل بھی ویسا خط نہیں ہے۔ مگر مجھے یہ خوشی ہے کہ آپ نے کم سے کم اب مجھے جیسی ہوں جہاں ہوں کی بنیاد پہ قبول کر لیا ہے۔ میری بولڈنیس میں آپ کا ہاتھ ہے۔ چاہے تنقید ہی کیوں نہ ہو۔ میرے کام آتی ہے۔

تو کل ملا کے بات یہ ہے کہ جنم دن مبارک ہو۔ ہمیشہ خوش رہیں۔ بھرپور جئیں۔ عمر کے ساتھ زندگی جینے کا کوئی تعلق نہیں۔ ہم دریا کے دو کناروں کی طرح ساتھ چلتے ہیں۔ پھر سمندر میں گر کے ایک ہو جاتے ہیں۔ ہمارا رشتہ بھی ویسا ہی ہے۔ کیونکہ ہم نے بہت ساری چیزوں کا شعور حاصل کر لیا ہے۔ محبت کبھی نہیں مرتی۔ کسی نہ کسی شکل میں زندہ رہتی ہے اور ہمارے بیچ وہ زندہ ہے، ہمارے بچوں کی صورت اور ہمارے ساتھ رہنے کی صورت۔

اب پلیز یہ مت کہہ دینا کہ یہ سب تمہیں کون لکھ کے دیتا ہے۔ میں نے بقلم خود یہ خط لکھا ہے۔ اپنا اور بچوں کا خیال رکھیں۔ اور ہاں کیک کاٹ لینا۔ کنجوسی مت دکھانا۔ لو یو میری پہلی پھڑکتی ہوئی محبت۔ دعا کریں کہ میری اور آپ کی موجودہ محبتیں یہ خط پڑھ کے نہ پھڑک جائیں۔ قسمے ہنسی آ رہی ہے سوچ کر، مگر میری تو خیر ہے پر تیرا کیا ہو گا کالیا۔

اگر یہ کل چھپ گیا تو لنک بھیجوں گی۔ سمجھنا سالگرہ کا تحفہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).