ایک پرانا دوست


میرا دوست بھگوان آج کل تہہ خانے میں رہتا ہے۔ یہ کسی کو پتہ نہیں کہ وہ خود تہہ خانے میں رہتا ہے یا کسی نے اسے وہاں رہنے پر مجبور کیا ہے۔ آپ نہیں جانتے ہوں گے کہ بھگوان کون ہے۔ میں آپ کو اس کے بارے میں بتاتا ہوں۔

بھگوان میرا دوست ہے۔ میں جب سوچنے کے قابل ہوا تو بھگوان پیدا ہو چکا تھا۔ اس حساب سے وہ میرا ہم عمر ہے۔

ہم نے لمبا عرصہ ساتھ گزارا ہے۔ تاریخ کا طویل سفر ہم نے ایک ساتھ طے کیا۔ جنگیں دیکھیں، خون کی ہولیاں دیکھیں، بھائی کو بھائی کے ہاتھوں مرتے دیکھا، باپ کے سامنے بیٹی کی عزت کو تار تار ہوتے دیکھا۔ ہم نے اجالوں کا سپنا دیکھا تھا، سچ کا ساتھ دینے کا سپنا دیکھا، بھوک و افلاس کو ختم کرنے کا بھی سپنا دیکھا، ہم دنیا کو جنت بنانا چاہتے تھے۔ لیکن ہمارا ایک بھی سپنا حقیقت کا روپ نہ دھار سکا کیوں کہ بھگوان تہہ خانے میں چلا گیا اور میں اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات کو پورا کرنے میں جٹ گیا۔

بھگوان کو آج میں نے برسوں بعد دیکھا تھا اور میں اسے پہلی نظر میں پہچان گیا کہ یہ تو میرا دوست اور ساتھی ہے۔ لیکن آج مجھے وہ ضعیف لگ رہا تھا۔ میں یہ نہیں جان سکا کہ وہ واقعی بوڑھا ہو گیا تھا یا تہہ خانے میں اندھیرے کی وجہ سے وہ ایسا دِکھ رہا تھا۔

آج اچانک اس کو سامنے دیکھ کر میں حیران رہ گیا، میں نے پوچھا ”بھگوان تم کہاں ہو۔ تم کہاں گم ہو گئے تھے۔ تم یہاں تہہ خانے میں کیا کر رہے ہو۔“

میرے کسی بھی سوال کا اس نے جواب نہیں دیا۔
میں نے پھر پوچھا ”بھگوان کیا تم نے مجھ کو نہیں پہچانا۔ میں تمہارا دوست اور ساتھی منو ہوں“
بھگوان نے میری طرف دیکھے بغیر کہا ”تم یہاں کیسے آ گئے۔“

میں نے کہا کہ ”باہر آندھی آئی تھی۔ دنیا تباہ ہو رہی تھی۔ میں پناہ گاہ کی تلاش میں ادھر ادھر بھاگ رہا تھا تو مجھے یہ غار نما تہہ خانہ نظر آیا اور میں اندر چلا آیا۔ اس کا دروازہ بھی آندھی کی وجہ سے ٹوٹ گیا تھا۔“

اس نے میری بات سنی ان سنی کرتے ہوئے ناراضی والے لہجے میں کہا ”آندھی میں تمہیں کوئی اور پناہ گاہ نہیں ملی جو یہاں آ گئے۔“

” میرے پاس اس پناہ گاہ کے سوا اور کوئی محفوظ جگہ نہیں تھی، اس لئے یہاں آ گیا۔“ میں نے جواب دیا۔

”تم ہمیشہ میرے پاس ایسی ہی حالت میں آئے ہو۔ پہلی بار جب تم میرے پاس آئے تھے تب تم نے کہا تھا کہ سیلاب آیا ہے۔“ بھگوان کی ناراضی ختم نہیں ہوئی تھی۔

میں اس کا حافظہ دیکھ کر حیران رہ گیا،  میں نے کہا کہ ”ہاں ہاں تو کیا ہوا۔ دوست ہی دوست کے پاس جاتا ہے۔“

” جب آندھی ختم ہو جائے گی اور تم یہاں سے اپنے گھر چلے جاؤ گے۔ پھر میری طرف مڑ کر دیکھو گے بھی نہیں“

مجھے بھگوان کی بات سن کر شرمندگی ہوئی لیکن میں نے اس پر ظاہر نہیں ہونے دیا۔ میں نے کہا ”اب کی بار ایسا نہیں ہو گا۔“

بھگوان میری طرف دیکھے بغیر گفتگو کر رہا تھا۔ میری بات سن کر ہنس دیا ”اچھا۔ اس بار کیا ہو گا۔“
بھگوان کی ہنسی میں طنز تھا۔ مگر میں نے اسے تحمل سے جواب دیا۔
”میں تمہارے پاس آتا جاتا رہوں گا۔ تم کو اکیلا نہیں چھوڑوں گا۔“

بھگوان مجھے اب بھی نظر انداز کر رہا تھا۔ ہم اس کے بعد کافی دیر تک خاموش رہے، نہ وہ کچھ بولا نہ ہی میں نے کچھ کہا۔ اندھیرا پھیل چکا تھا اور ہم ایک دوسرے کو دیکھ بھی نہیں پا رہے تھے۔ میں نے پھر خاموشی کو توڑتے ہوئے اپنی بات دہرائی۔

” میں تمہارے پاس آتا جاتا رہوں گا۔ تم کو اکیلا نہیں چھوڑوں گا۔“

بھگوان نے بیزاری سے کہا ”یہ بات تم نے پچھلی بار بھی کہی تھی۔ یاد ہو گی تم کو۔“ میں یہ سن کر آگ بگولا ہو گیا :

”تم ہمیشہ ملنے پر پرانی باتیں کیوں کرتے ہو۔ میں کہہ رہا ہوں ناں کہ تمہارے پاس آتا جاتا رہوں گا۔“
میں یہ کہ کر چپ ہو گیا اور کچھ دیر بعد میں نے کہا۔

” تم کو میری کہی بات یاد ہے؟ کیا تم کو اپنی باتیں یاد ہیں؟ تم ہی نے کہا تھا۔“ میں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں گا۔ پھر تم خود کیوں یہاں تہہ خانے نما غار میں آ کر چھپ گئے ہو۔ میرے ساتھ کیوں نہیں ہو؟ ”

بھگوان نے میری بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔

میں خاموشی سے جا کر ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ میں جتنا وقت تہہ خانے میں رہا بھگوان نے میری طرف نہیں دیکھا۔ میں وہاں دیر تک چپ چاپ بیٹھا رہا، رات کی کالی چادر ہٹ گئی اور اجالا پھیلنے لگا۔ تب میں باہر کی صورتحال دیکھنے کے لئے اپنی جگہ سے اٹھا اور دبے پاؤں غار سے باہر نکل آیا۔

باہر آندھی تو تھم چکی تھی مگر چار سو تباہی پھیلی ہوئی تھی۔ میرے سامنے تا حد نگاہ ایک طویل نہ ختم ہونے والی سڑک تھی اور دور پہاڑوں کے پیچھے سے سورج طلوع ہو رہا تھا اور میں سڑک پر اس جانب چل پڑا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).