وکلاء کے کھوکھے اور ہنگامہ آرائی


ڈنگ ٹپائوکالم لکھنے کا مواد پیر کی دوپہر اسلام آباد کے وکلاء نے فراہم کردیاتھا۔ میرے گھرسے تھوڑی ہی دور اسلام آباد کا F-8 مرکز ہے وہاں ضلعی انتظامیہ اور نچلی عدالتوں کے دفاتر بھی ہیں۔ ان سے رجوع کرنے والے سائلین سے رابطہ کیلئے وکلاء نے ’’کھوکھے‘‘ بنارکھے ہیں ۔ہراعتبا ر سے وہ ’’تجاوزات‘‘ہی شمار ہوتے ہیں۔ ہمارے سیکٹر کے کئی گھرانے ان سے نالاں رہتے ہیں۔ ہمسایوں سے ملاقات ہو تو اکثر مجھے’’صحافتی ذمہ داریاں ‘‘یاد دلاتے ہوئے تجاوزات کے بارے میں ’’کچھ لکھنے‘‘کو اُکسایا جاتا ہے ۔ذاتی طور پر عرصہ ہوا میں نے ’’کچھ لکھنے‘‘کی’’اوقات‘‘ دریافت کرلی ہے۔ بغیر کوئی وعدہ کئے موضوع بدل دیتا ہوں۔

سوشل میڈیا کے محتاج ہوئے کالم نگاروں کو اگرچہ تجاوزات جیسے موضوع پرلکھنے سے گریز نہیں برتنا چاہیے۔’’وکلا گردی‘‘کی اصطلاح ویسے بھی ہمارے ہاں گزشتہ چند برسوں سے بہت مقبول ہوچکی ہے۔ اسے بنیاد بناکرسیاپا فروشی سے آج کی روٹی کمانے کا بندوبست کرلینا چاہیے تھا۔دل مگر مائل نہیں ہوا۔ اسلام آبادہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے مذکورہ واقعہ کا انتہائی سنجیدگی سے جائزہ لینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ہنگامہ آرائی کے مرتکب افراد کی نشاندہی ہوچکی۔ان کیخلاف مقدمات بھی قائم ہوگئے ہیں۔اُمیدہے وکلاء کی سینئر قیادت کو آن بورڈ لے کر اس امرکویقینی بنانے کی کوشش ہوگی کہ آئندہ ایسے واقعات نہ ہوں۔ قانون پر مہارت کی بدولت رزق کمانے والے خود بھی قانون کا احترام کرتے نظر آئیں۔

ایک عام شہری ہوتے ہوئے اگرچہ یہ سوچنے کو بھی مجبور محسوس کررہاہوں کہ وکلاء کے کھوکھے اور تجاوزات ’’اچانک‘‘نمودار نہیں ہوئے۔1990سے F-8 مرکز کے اِردگرد آباد محلوں میں قیام پذیرہوں۔ دفتری اوقات میں جب بھی روزمرہّ ضروریات کی وجہ سے خریداری یا بینک جانے کی مجبوری لاحق ہوئی تو بے ہنگم ہجوم، ٹریفک اور تجاوزات نے ہمیشہ خون کھولادیا۔سوال اٹھانا لازمی ہے کہ ’’تجاوزات‘‘ختم کرنے کے فیصلے ’’اچانک‘‘کیوں ہوتے ہیں۔اس ضمن میں کارروائی ہوتی ہے تو ہنگامہ کھڑا ہوجاتا ہے۔’’مذاکرات‘‘سے نام نہاد درمیانی راہ نکالنے کی کاوشیں ہوتی ہیں اور بالآخر ’’آنے والی تھاں‘‘ پر واپسی ہوجاتی ہے۔ کوئی مستقل بندوبست ہوا نظر نہیں آتا۔ امید باندھ لیتے ہیں کہ اب کی بار کوئی مستقل حل میسر ہوجائے گا۔ سیاپا فروشی کے ذریعے ڈنگ ٹپانے سے لہٰذا پرہیز برتاجائے۔

میرے ساتھ ویسے بھی مسئلہ یہ ہوگیا ہے کہ چند روز قبل نیویارک ٹائمز میں ایک تفصیلی مضمون پڑھا ہے ۔ یہ ایک محقق Michael Goldhaber کے بارے میں تھا۔ابلاغ کے ہنر سے علمی اعتبار سے ناآشنا ہوتے ہوئے بھی اس محقق نے آج سے دودہائیاں قبل حیران کن ذہانت سے دریافت کرلیا تھا کہ انٹرنیٹ بالآخر معاشرے میں فقط ہیجان ہی بھڑکائے گا۔اسے استعمال کرنے والے اپنی پسند کے موضوعات پر صرف سیاپا فروشی کرینگے اور کسی ایک بھی اہم موضوع پر سنجیدہ بحث وتمحیص کی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔

انٹرنیٹ کی بدولت پھیلے ہیجان کی وقت سے کئی برس قبل پیش گوئی کرتے ہوئے مذکورہ محقق نے ایک اصطلاح استعمال کی -Attention Economy- ’’توجہ کی معیشت‘‘غالباًاس کااُردو متبادل ہوسکتا ہے۔ اپنے تئیں یہ دونوں اصطلاحات مگر اصل معاملے کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ذرا غور کرنے کے بعد ہی یہ حقیقت اجاگر ہوتی ہے کہ انسان جبلی طورپر دوسرے انسانوں کی توجہ کا طلب گار رہتا ہے۔دُنیا کے ہرموضوع کے بارے میں اس کی اپنی ’’رائے‘‘ہوتی ہے۔ وہ شدت سے خواہش مند ہوتا ہے کہ اس کے گرانقدر خیالات سنے جائیں۔ اظہار کے ذرائع پر لیکن مخصوص لوگوں کا اجارہ رہاہے ۔

قدیم زمانے میں مثال کے طورپر شاعر ہوا کرتے تھے ۔ وہ انسانی جذبات کے اظہار کے ’’اجارہ دار‘‘بن گئے ۔ صنعتی انقلاب کے بعد پریس ایجاد ہواتو اخبارات کی صنعت بھی نمودار ہوگئی۔ یہ صنعت لوگوں کو ’’’باخبر‘‘رکھنے کی دعوے دار بن گئی۔ خبروں کا سیلاب آیا تو ان کے ’’تجزیے ‘‘کیلئے مبصرین کی طلب بڑھی ۔ یوں کالم نگاری کا آغاز ہوا۔ وہ’’ذہن ساز‘‘شمار ہوناشروع ہوگئے ۔

اخبارات کے بعد ریڈیو اور ٹیلی وژن بھی آگئے۔ان سب نے باہم مل کر Mass Mediaکی صورت بنائی ۔ خلق خدا کی بے پناہ اکثریت کی مگر تسکین نہ ہوئی ۔وہ شدت سے محسوس کرتی رہی کہ نام نہاد ماس میڈیا فقط چند موضوعات کی تکرار اور مباحثے تک محدود رہتاہے۔ بتدریج یہ احساس بھی اجاگر ہوا کہ ماس میڈیا درحقیقت منافع کمانے ہی کا ایک اوردھندا ہے۔ اپنے دھندے کو بچانے اورمنافع کمانے کی قوت برقراررکھنے کو ماس میڈیا کے ’’مامے ‘‘ہوئے لکھاری اور اینکر ایسے کئی موضوعات کو نظرانداز کردیتے ہیں جو خلق خدا کی اکثریت کو حقیقی معنوں میں پریشان کئے ہوئے ہیں۔

خلق خداکی اس پریشانی کی تسکین کے لئے فیس بک اور ٹویٹر جیسی Appsایجاد ہوئی۔ انہوں نے عام انسانوں کی اکثریت کو گماں دلایاکہ اسے اپنی رائے کے اظہار کیلئے پلیٹ فارم میسر ہوگئے ہیں۔ وہ انہیں بہت لگن سے استعمال کرناشروع ہوگیا ۔ کئی برس گزرجانے کے بعد اب دریافت ہورہاہے کہ اپنی رائے کے اظہار کے بجائے عام انسانوں کی اکثریت نے مذکورہ پلیٹ فارموں کو درحقیقت لوگوں کی توجہ کے حصول کیلئے استعمال کیا۔ ٹک ٹاک اور انسٹا گرام جیسی Apps اس ضمن میں بہت کامیاب رہیں ۔

انہوں نے صارفین کو ’’مداحین اور شائقین‘‘فراہم کئے ۔ ’’اظہار رائے ‘‘کے بجائے یہ دونوں Apps خودنمائی کومریضانہ حد تک پھیلانا شروع ہوگئے۔ سوشل میڈیا پر اصل مقابلہ اب زیادہ سے زیادہ Likes اور Shares حاصل کرنے کیلئے ہوتا ہے ۔Michael Goldhaber نے دودہائی قبل پیش گوئی کردی تھی کہ سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کی تڑپ بالآخر سیاست دانوں کو بھی گھیرلے گی۔وہ اپنے معاشرے اور ملک کو درپیش مسائل پر سنجیدگی سے غور کے بعد کوئی ممکنہ حل پیش کرنے کے بجائے لوگوں کی توجہ طلب کرنے کی خاطر ’’ڈھٹائی کی حد تک بے شرم‘‘ہوجائینگے۔امریکہ میں ڈونلڈٹرمپ کے عروج نے اسے برحق ثابت کردیا۔

نیویارک ٹائمز میں شائع ہوئے مضمون کو بہت غور سے پڑھنے کے بعد میں جب بھی یہ کالم لکھنے کیلئے قلم اٹھاتا ہوں تو فوراً یہ سوال ذہن میں اُمڈ آتا ہے کہ آج کا کالم لکھتے ہوئے میں کیا کرنا چاہ رہاہوں۔ لوگوں کی کونسے موضوع پر ’’ذہن سازی‘‘مقصود ہے یافقط نظرآنے والے حقائق کوہوبہوبیان کردینا ہی مناسب ہوگا۔’’حقائق‘‘کی بات چلے تو ایسے بے شمار معاملات بھی ذہن میں آجاتے ہیں جن کے بارے میں کوئی ’’ذاتی مفاد‘‘ نہیں بلکہ دیگر مجبوریاں خاموش رہنے کو مجبور کردیتی ہیں۔

اس کے علاوہ ’’خوف فساد خلق‘‘کے خدشات بھی لاحق رہتے ہیں۔ ایسے خدشات کے اعتراف کے بجائے ’’ڈنگ ٹپائو‘‘کالم نگار مجبورہوجاتا ہے کہ ’’تجاوزات‘‘کی بابت ہوئے ہنگاموں تک محدود رہتے ہوئے شہری متوسط طبقے کے دلوں میں’’وکلا گردی ‘‘کیخلاف اُبھرتے غصے کو تلخ اور جذباتی الفاظ کے ذریعے مزیداُجاگر کردیاجائے ۔منگل کی صبح اس جانب مگر جی مائل نہیں ہوا۔ توجہ طلب گاری والے تصور سے گھبرا گیا ہوں۔رزق کمانے کی مجبوری مگر کالم لکھنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں دکھاتی۔اُمید ہے جلد ’’آنے والی تھاں‘‘پر واپس لوٹتے ہوئے اپنے ’’گرانقدر خیالات ‘‘کا اظہارشروع کردوں گا۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).