ہشت نگر میں کیا ہوا تھا؟


بھارت کے سکھ کسان عزیمت کی ایک نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ مودی سرکار انھیں دبانے کے لیے دلاسے، دباؤ اور دھمکی سمیت ہر حربہ استعمال کر رہی ہے، اسے خدشہ ہے کہ سکھ دہقانوں کی یہ تحریک جو خالصتاً طبقاتی اور معاشی بنیاد پر استوار ہے، کہیں پورے ملک میں نہ پھیل جائے، اگر ایسا ہوا تو کندھے سے کندھا جوڑے مختلف مذاہب کے حامل اور الگ الگ زبانیں بولنے والے کسان ایک طرف بھارتیہ جنتا پارٹی کی ہندوتوا کی سیاست پیروں تلے روند ڈالیں گے، دوسری طرف ان سرمایہ داروں کے مفادات تہس نہس ہوجائیں گے جن کا چندہ بی جے پی کے لیے آکسیجن کا کام کرتا ہے۔

چناں چہ اس تحریک سے ڈری ہوئی مودی حکومت اور اس کا وظیفہ خوار میڈیا کبھی اپنے حق کے لیے سڑکوں پر نکلنے اور موسم کی سختیاں جھیلنے والے ان کسانوں کو خالصتان کی تحریک سے جوڑتے ہیں، کبھی پاکستان سے، ان کی کوشش ہے کہ اس تحریک کو مذہبی رنگ دیا اور ”دیش کا دشمن“ ثابت کیا جائے۔ بھارتی حکم راں اس تحریک کے حوالے سے دنیا بھر میں ہونے والے ردعمل سے بھی پریشان ہیں۔ یہ پریشانی بوکھلاہٹ کی صورت بڑھتی جا رہی ہے۔ حال ہی میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر مظاہرین سے منسلک متعدد اکاؤنٹس کو بند کر دیا گیا۔

انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق بند کیے گئے اکثر اکاؤنٹس کا تعلق کسان ایکتا مورچہ اور کاروان سے ہے جنہیں بظاہر بھارتی حکومت کی جانب سے ٹویٹر کو قانونی نوٹس بھیجنے کے بعد بند کیا گیا۔ جن اکاؤنٹس تک رسائی روک دی گئی ہے ان میں کسان ایکتا مورچہ، دی کاروان انڈیا مانک گویال، ٹریکٹر 2 ٹویٹر اور جٹ جنکشن سمیت دیگر شامل ہیں۔ دوسری طرف بھارت میں کسانوں کے احتجاج، خاص طور پر یوم جمہوریہ پر دہلی میں ان کی پیش قدمی، کو رپورٹ اور اس پر آن لائن پوسٹس کرنے پر کئی صحافیوں کو بغاوت کے الزامات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق کم از کم 5 ریاستوں میں جن صحافیوں کے خلاف پولیس مقدمات درج کیے گئے ہیں ان میں انڈیا ٹوڈے ٹی وی چینل کے معروف اینکر راج دیپ سردیسی اور کارواں نامی جریدے کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ونود جوز بھی شامل ہیں۔

حیدر بخش جتوئی

ان سب کارروائیوں کے باوجود بھارتی حکومت دھرنا دیے کسانوں کو واپس بھیجنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ یہ سوال وقت پر چھوڑ دیتے ہیں کہ ڈری اور بوکھلائی ہوئی مودی حکومت اس مسئلے کا حل طاقت کے اندھے استعمال میں تلاش کرے گی یا پاکستان سے عملاً الجھ کر جنگ کا ماحول بناتے ہوئے بھارتی عوام کو جنگ کے بخار میں مبتلا اور مظاہرین کو دیش کے نام پر بلیک میل کرتے ہوئے پسپائی پر مجبور کرنے کی کوشش کر کے گی؟ اس وقت مجھے اپنے ملک کے مظلوم کسانوں کی ایک ایسی ہی تحریک یاد آ رہی ہے جس کا تذکرہ تاریخ کے صفحات میں گم کر دیا گیا ہے۔

کسانوں کے حقوق کی یہ شان دار تحریک موجودہ خیبرپختون خوا کے علاقے ہشت نگر میں برپا ہوئی تھی۔ ہشت نگر آٹھ دیہات پر مشتمل علاقہ ہے جو ضلع چارسدہ میں واقع ہے۔

ستر کی دہائی میں اس سرزمین کے بے زمین کسان اپنے خانوں کے خلاف مزارعت کے قانون پہ عملدرآمد نہ ہونے پر اٹھ کھڑے ہوئے اور پھر ایک مسلح لڑائی کے بعد ان کو اس علاقے سے باہر دھکیل دیا تھا۔ اس تحریک یا بغاوت کی تنظیم میجر اسحاق کی مزدور کسان پارٹی نے کی تھی، یہ وہی راولپنڈی سازش کیس والے میجراسحاق ہیں۔ 1968 میں خیبرپختون خوا، جس کا نام اس وقت صوبہ سرحد تھا، میں قائم کی جانے والی مزدورکسان پارٹی نے پشاور کے گردونواح کے دہقانوں اور بے زمین کسانوں کو منظم اور بیدار کرنے کا بیڑا اٹھایا۔

1970 کے آغاز میں مزدورکسان پارٹی اور اس سے اشتراک رکھنے والی مقامی کسان تحریکوں نے جاگیرداروں پر اپنے مطالبات کے حق میں دباؤ ڈالنا شروع کیا۔ یہ پرامن تحریک جاگیرداروں اور ان کے اشاروں پر کسانوں کو کچلنے کے لیے کمربستہ پولیس کے تشدد کے باعث فریقین میں تصادم پر مبنی چھوٹے چھوٹے معرکوں کی صورت اختیار کرنے لگی۔ ان معرکوں میں جان ہتھیلی پر رکھ کر لڑنے والے کسانوں کا پلہ عمومی طور پر بھاری رہا، اور ان میں سے کتنے ہی کرایہ ادا کیے بغیر خانوں سے زمین حاصل کرنے میں کام یاب ہو گئے۔

اس سرزمین پر خانوں کے استحصال کا آغاز برطانوی راج میں انیسویں صدی کے شروع میں ہوا تھا، جب پشاور کی وادی میں نہریں بناکر یہاں زراعت کو فروغ دیا گیا۔ اس عمل میں وادی میں زرعی زمین کی نجی ملکیت کا رجحان پروان چڑھایا اور بعض افراد راتوں رات ہزاروں ایکڑ اراضی کے مالک بن بیٹھے۔ پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں اس علاقے میں خانوں کے ہاتھوں کسانوں کا استحصال انتہا پر پہنچ چکا تھا۔ کسانے سے کرائے دار کاشت کاروں اور کھیت مزدوروں سے مال بٹورنے کے ساتھ بلا اجرت مشقت لینے کا چلن بھی عام ہو چکا تھا۔ ایوب خان کے دور میں ہونے ہونے والی زرعی اصلاحات اور سبزانقلاب کے لیے ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کی حکمت عملی نے افلاس کا شکار ان کسانوں کے لیے حالات مزید ناسازگار کردیے۔

اس صورت حال میں ہشت نگر کے کسانوں کے لیے مزدورکسان پارٹی مسیحا کے روپ میں سامنے آئی، جس نے انھیں منظم کیا اور ان کی ہر طرح اعانت کی۔

1970 میں جب اس تحریک کا آغاز ہوا تو ملک پر یحیٰی خان کی آمرانہ حکومت مسلط تھی، لیکن 1972 میں منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھال لیا۔ اس تحریک کے نتیجے میں نہ صرف ہشت نگر کے کسانوں کی معاشی حالت بہتر ہوئی بلکہ انھیں سیاسی آزادی بھی نصیب ہوئی، اور وہ جاگیرداروں کے دباؤ سے نکل کر اپنی مرضی سے ووٹ دینے کے قابل ہو گئے۔ آخرکار ہشت نگر میں آنے والا یہ انقلاب حکومت کی جانب سے کیے جانے والے آپریشن کے باعث دم توڑ گیا۔

گویا ہشت نگر کا یہ چھوٹا سا اور ادھورا انقلاب ”حسرت ان غنچوں پہ ہے جوبن کھلے مرجھاگئے“ کی تفسیر ہے۔ آج ہمارے ملک میں نہ وہ سیاسی جماعتیں اور مخلص اور غریب دوست قیادتیں ہیں جو کسانوں، مزدوروں اور کچلے ہوئے طبقات کو منظم کریں اور انھیں اعتماد اور ان کے حقوق کا شعور دیں اور نہ ہی ایسی کوئی فکری تحریک جو یہ فریضہ انجام دے سکے۔ ہمارے ملک کی سیاست ان طبقات کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال تو کرتی ہے، لیکن انھیں اپنے حق کے لیے آگے بڑھانے سے جان بوجھ کر گریزاں رہتی ہے، کیوں کہ تمام سیاسی جماعتوں کی قیادتیں خود بھی سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے ہاتھ میں ہیں اور ان جماعتوں کا انحصار بھی اسی بالادست طبقے پر ہے۔ ان حالات میں ہم جیسے قلم کار اتنا تو کر ہی سکتے ہیں کہ عوام کو یہ بتا کر ان میں حالات کو خود بدل ڈالنے کا حوصلہ اور امنگ جگاتے رہیں کہ ہشت نگر میں کیا ہوا تھا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments