جہیز اور بَری: ذرا اپنے گریبان میں جھانکیں


انسان کے نصیب میں وہی کچھ ہے جس کی وہ چاہ کرتا ہے، جسے سوچتا ہے۔ انسان کی سوچ اس کے ساتھ رونما ہونے والے واقعات پر پوری طرح سے حاوی ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے اکثر سنتے ہیں جیسا اپنے لیے سوچتے ہیں ویسا ہی دوسرے کے لیے سوچیں۔ جیسا اپنے بچوں کے لیے سوچتے ہیں ویسا ہی دوسروں کے بچوں کے لیے سوچیں۔ تو آئیے ایک جائزہ لیتے ہیں اپنے اردگرد کا۔

بیٹیوں کے لیے مائیں بچپن سے ہی جہیز کا سامان اکٹھا کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ کوئی اچھا کپڑا، برتن ان کو استعمال کرنے نہیں دیا جاتا کہ یہ جہیز کے بکسے میں رکھا جائے گا۔ اس کے باوجود ساری زندگی اس بات پر کڑھتے گزرتی ہے کہ جہیز لعنت ہے ، بھلا لوگ لیتے کیوں ہیں؟ مائیں یہ سوچ کر دل کو راضی بھی کر لیتی ہیں کہ بیٹی کا مستقبل محفوظ ہو گا ، جہیز جتنا قیمتی اور زیادہ ہو گا، اتنا ہی بیٹی سسرال میں عیش کرے گی۔ لیکن یہی مائیں بہو لانے پر اتنی خود غرض کیسے ہو جاتی ہیں؟ بیٹی کے لیے جس عدم تحفظ کا شکار یہ مائیں ہوتی ہیں ، وہی سوچ اگر اپنی بہو کے لیے ٹھیک کر لی جائے تو دنیا جنت نہ بن جائے۔

کیا یہی مائیں بہو لاتے وقت اس لڑکی کی ماں کو یہ یقین دہانی نہیں کروا سکتی کہ میں اپنی بیٹی کے لیے جو سوچ کر پریشان ہوتی رہی ، وہ آپ سوچ کر پریشان نہ ہوں ، آپ کی بیٹی کا مستقبل جہیز میں آنے والے ٹرک کے سائز پر منحصر نہیں ہو گا۔ بس میری اور آپ کی دعائیں اس نئے شادی شدہ جوڑے کو خوش اور آباد رکھنے کے لیے درکار ہوں گی۔

یہ تو ہو گئی اس سوچ کی بات ، جس پر ہم عرصۂ دراز سے بات کر رہے ہیں اور سالہا سال سے ”جہیز ایک لعنت ہے“ کا موضوع یہاں زیربحث ہے۔ آئیے ایک نظر تصویر کے دوسرے رخ پر بھی ڈال لیتے ہیں۔

دوسرا پہلو اس رسم پر مبنی ہے جس کو معاشرے کا حصہ بنا دیا گیا ہے ، پدرسری معاشرہ ہونے کے باوجود اس معاشرے میں اکثر معاملات میں مردوں کا بھی استحصال کیا جاتا ہے ، شادی کے دوران جہاں جہیز پر لعنت بھیجی جاتی ہے ، وہیں دوسری طرف شاندار بَری (لڑکے کے گھر والوں کی طرف سے لڑکی کے کپڑے اور اشیائے ضروریہ) کا انتظار کیا جاتا ہے۔

آج کل کے دور میں لڑکیاں اپنے لئے برینڈڈ کپڑوں کی فرمائش کرتی ہیں ، جو بظاہر بری نہیں ہے، نہ ہی صاحب استطاعت لوگوں کے لیے بڑی بات ، لیکن سفید پوش لوگوں کے لیے یہ مطالبہ اتنا ہی بھاری ہوتا ہے جتنا لڑکی والوں کے لیے جہیز دینا۔ حق مہر میں لاکھوں روپے اور جائیدادوں کا مطالبہ لڑکی کے گھر والوں کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ یہ بات جانتے ہوئے بھی کہ پیسہ باغات میں اُگنے والی چیز نہیں بلکہ یہ بہت محنت سے کمایا جاتا ہے۔

جس طرح لڑکے والے جہیز لیتے وقت یہ جملہ استعمال کرتے ہیں کہ ”جو دے رہے ہیں اپنی بیٹی کو ہی دے رہے ہیں“ بالکل اسی طرح لڑکی والے یہ کہہ کر لاکھوں حق مہر لکھواتے ہیں کہ ”بعد میں دونوں خوشی سے حل کریں تو معاف ہو جائے گا“ ۔

سوچیے ہم کس راہ پر گامزن ہیں؟

خواتین کی حق تلفی ہم فوراً محسوس کر لیتے ہیں لیکن لڑکوں پر زبردستی اپنا حق سمجھ کر کرتے ہیں۔ حقوق نسواں اور خواتین مارچ کے لئے فوراً گھروں سے نکل آتے ہیں۔ لیکن ایک لڑکی ہونے کے باوجود مجھے خواتین مارچ کبھی بھی اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکا۔

چند روز پہلے ایک فیشن شو کی وائرل ہونے والی تصویر دیکھتے ہی یہ خیال میرے ذہن میں آیا کہ ہم اعتدال میں رہنا کب سیکھیں گے؟ اپنے رویوں میں میانہ روی کب لائیں گے؟ ’جہیز لعنت ہے‘ کا رونا کب تک روتے رہیں گے؟ اور لڑکوں کی کمائی کو اپنے شوق میں فضول خرچ کرتے رہیں گے۔ یہاں بات صرف شوہر نہیں بلکہ باپ اور بھائی کی بھی ہے۔ آخر وہ لوگ بھی تو خون پسینہ ایک کر کے کماتے ہیں۔

ضرورت صرف ایک مسئلہ زیر غور لانے اور اس پر بحث کرنے کی نہیں بلکہ اس مسئلے سے جڑے ہر پہلو پر غور کرنے کی ہے۔ ضرورت صرف مظلوم بننے کی نہیں بلکہ چند قدم خود بھی اٹھانے کی ہے۔ اپنے اقدامات پر بھی غور کرنے کی ہے۔

اگر لڑکی اپنے ماں باپ کی کمائی کو جہیز میں نہیں لٹانا نہیں چاہتی تو لڑکے والوں کو بھی منع کریں کہ وہ شاندار بَری کا انتظام نہ کریں۔ دو جوڑے اگر لڑکی اپنے گھر سے لے کر جائے تو دو ہی لڑکے کے گھر سے آئیں۔ دونوں ہی طرف اپنی استطاعت کے مطابق خرچ کیا جائے۔

برابری چاہیے تو ایسے ہوگی برابری۔ حق اتنا ہی ملے گا جتنا دیا جائے گا۔ وہی آپ کے ساتھ ہو گا جو آپ دوسروں کے لیے سوچیں گے۔ لہٰذا اچھا سوچیں نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments