کہانی دینِ محمد کی


عرب کے لق و دق صحرا میں جب میری آنکھ کھلی تو ایک نایاب سفید گھوڑے کے طور پر میرا تذکرہ دور دور تک پھیل گیا۔ میرا ظاہری حسن و جمال اور طاقتور متن مجھے ہر نسل کے دیگر گھوڑوں سے الگ اور ممتاز کر رہا تھا۔ وہاں کے باسی مجھے رشک اور حسد کی نگاہ سے چھپ چھپ کر تاکتے رہے۔ کسی نے میرے سفید رنگ کو سادگی، وقار، پاکیزگی اور امن کہا تو کسی نے میرے چوڑے ماتھے کو ذہانت کی علامت اور رحمت خداوندی گردانا۔ میرا مضبوط اور چوڑا سینہ ہمت، جرأت، اور بے باکی کی دلیل ٹھہرایا گیا تو میری صراحی دار گردن فخر اور بہادری کی علامت تصور کی گئی۔

میری مضبوط کمر کو میرے فرائض کی ادائیگی کی دلیل اور غیرت و خوداری کی فصیل تصور کیا گیا۔ میری لمبی، گہری اور چمکدار آنکھوں کو ذہانت، وفاداری اور سچائی کا منبع قرار دیا گیا۔ میری مضبوط ٹانگیں استقامت، خوداری اور نفاست گردانی گئیں۔ میری رگوں میں بہتا ہوا گرم خون جنگ و جدل کے لیے مسلسل جوش مارتا رہا۔ میرا دل ان تمام خواص کو لیے اپنے مالک سے وفا نبھانے کو بے قرار تھا، جس نے میرا نام دین محمد رکھا۔ وقت کے ساتھ مجھے معلوم پڑا کہ میری قابلیت، کشش اور خوبصورتی کے باعث مجھے سب سے مشکل اور آخری معرکے کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔

میں بہت خورسند تھا، لیکن میری روح ہر اس توہماتی اور غیر منطقی عقیدے سے مضطرب تھی کہ جس کی بنا پر مجھ سے مماثلث رکھنے والے دیگر گھوڑوں کی زندگی مجھ سے یکسر مختلف تھی۔ ان میں سے جو بھی میدان میں اترا زخمی حالت میں واپس آیا۔ ان کے شاہسوار کے گھائل ہوتے ہی ایک ہجوم ان گھوڑوں کی جانب بڑھتا، رواج کے مطابق جو ان پر اپنی چادر ڈال دیتا ، یہ اس کی ملکیت گردانے جاتے اور یوں ان کی زندگی ان رواجوں کی اسیر بن کر رہ جاتی۔

رسموں کا پالم کرتے ہوئے کبھی ان کی پیٹھ پر لادے ہوئے بتوں کو گھر گھر کی زینت بنا کر ان کی پوجا ہوتی تو کبھی ان گھوڑوں کی تعظیم پر واری گئی حوا کی بیٹیاں پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دی جاتیں۔ اس قوم نے نادانی سے ڈرانے والی موت اور بڑھاپے کو نظرانداز کر دیا تھا۔

اس بنجر زمین اور تپتے صحرا پر ان گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز ان لوگوں کے اجڈ پن، سختی اور ہٹ دھرمی کے شور میں دب سی گئی تھی۔ یہ لوگ ان گھوڑوں کے سایوں میں ہونے والی اخلاقی گراوٹ پر نادم نہ تھے ، اس لیے کہ ان کی عقل و فکر پر توہمات کی حکومت تھی۔ حسب و نسب کی جنگ عداوتوں کا موجب بنتی اور حسد کی آگ انتقام سے بجھائی جاتی تھی۔ آباء و اجداد کی غلامی کے نام پر رزیل قسم کی میراث کا حصول ان کا مطمح نظر تھا ، رواجوں سے روگردانی ان کے وراثت کے حقوق سے محرومی کا سبب بنتی۔

مجھ پر یہ راز افشا کیا گیا کہ دستور کے مطابق میرے شاہسوار کے دست متبرک سے ہی میری صنف پروان چڑھائی جائے گی۔ اور پھر دہر نے دیکھا کہ جہالت کی اس اندھیری رات میں یکایک بجلی چمکی اور میں نے دور سے ایک کالی کملی والے شاہسوار کو اپنی جانب آتے ہوئے دیکھا۔ میری نظر نے اس سے پہلے حسن کی ایسی شوخیاں، جمال کے ایسے قرینے اور خوبصورتی کا ایسا بانکپن ایک ہی ذات میں یکجا نہیں دیکھا تھا۔ ”حسن یوسف، دم عیسی ، ید بیضا داری، آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری“ ۔

اس مجمع کمالات نے اپنے دست شفقت سے جب میری باگ سنبھالی تو اس کے نفس کی پاکیزگی مجھے میری روح میں اترتی ہوئی محسوس ہوئی۔ میرا دل اس کی تمنائے قرب میں اینچنے لگا، میری روح اس کی جلوت کے سحر میں مقید ہو چکی تھی۔ اس نے مضبوطی سے میری کمر پر زین کسی اور انتہائی محبت سے سوار ہوا۔ میں نے چلنا شروع کیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ آسمان کے بادل ہم پر سایہ کیے ہوئے ہیں، میرے قدموں کے نیچے کی سخت اور بنجر زمین روئی کی مانند نرم پڑھ گئی۔ آگ برساتی ہوئی عرب کی گرم ہوا ٹھنڈک کا احساس دلانے لگی اور فضا میں صدائیں گونج اٹھیں، تاجدار حرم، یا شاہ امم، خیرالبشر، یا بدرالدجا، سیدالمرسلین، رحمت للعالمین، خاتم الأنبیاء مرحبا مرحبا، مرحبا مرحبا۔

میرا دل ہر نئے پہر کے ساتھ اپنے شاہسوار کا قرب پا کر خوشی سے جھوم اٹھتا تھا کہ جس کی ذات سے جڑا ہوا میں کبھی خسارے سے آشنا نہ ہو سکا۔ میری وضع قطع میں میرے مالک کا ظہور ہوتا تھا۔ جس کی نسبت کے متعلق ہر عظمت منسوب تو کی جا سکتی ہے مگر وہ اس کی شخصیت اور کردار کے سامنے پھیکی اس لئے پڑ جاتی کہ نہ ہی اس کی فضیلت کی کوئی حد ہے اور نہ ہی کمال، جمال اور مراتب کا یہ پیکر اپنی فردیت میں تقسیم ہونے کی خاصیت رکھتا ہے۔

میرے مالک کا سب سے لاڈلا اور پیارا شاہسوار کہ جس نے کبھی بھی ان معرکوں کا انتخاب نہیں کیا کہ جس کا مقصد منتظر دنیا کو حیران کرنا تھا، وہ مجھ پر سوار ان منزلوں کا امین تھا کہ جو شک اور وہم سے صاف تھے اور واضح تھے۔ ”ارادے اس کے پختہ تھے، نظر اس کی خدا پر تھی پھر کیسے ممکن تھا کہ تلاطم خیز موجوں سے وہ کبھی گھبرا پاتا“ ۔ اس کے فہم، جرأت اور سچ کے کمالات نے وقت کے ساتھ سب کو ہیچ کر دیا۔ اپنے مالک، اپنے رب کے حکم کا تابع فرمان میرا بہادر شاہسوار، اپنی تلوار لہرائے حنین، بدر، احد، خیبر اور اس طرح کے کئی معرکوں میں مجھ پر سوار، میری باگیں تھامے، اپنے عزیز اور جان نثار ساتھیوں کے ہمراہ اپنے دشمنوں سے برسرپیکار رہا یہاں تک کہ دشمنوں کے ناپاک جسموں کا کوئی بھی حرف بغیر نقطے کے نہیں رہنے دیا۔

ان کے خون میں رنگی ہوئی یہ تلواریں یا تو کامیابی کے آگے رکتیں یا حکم خداوندی کے آگے جھکتیں۔ ان فتوحات کا موجب کبھی تلواروں کی کھنک بنتی تو کبھی اس ذات کی کمال خلاق پر مشتمل پرجمال ہستی کی محبت اور معجزات۔ کسریٰ کے محلات پاش پاش ہو گئے۔ آتش کدوں کے شعلے ٹھنڈے پڑنے لگے۔ بحر ظلمات میں ایسے داخل ہوئے کہ نہر فرات کو اپنی جگہ بدلنا پڑی۔ آسمانوں پر شہاب ثاقب ٹوٹنے لگے، زمین پر بت گرنے لگے۔ ابرہہ کی فوج کو بیت اللہ سے بھاگنا پڑا اور مکہ کو فضل خداوندی سے فتح ہونا پڑا۔

کہیں تو فتح کا یہ عالم تھا کہ مدینہ کی بچیاں دف بجاتی میرے شاہسوار کی آمد پر جھوم اٹھیں۔ وہ بلند ہمت بھی تھا ، وہ بلند ارادہ بھی تھا، وہی ایک رہبر سب کی منزل ٹھہرا اور ایک ہی سب کا جادہ ٹھہرا۔ وہ آزمایا گیا، اولاد سے، رشتے ناتوں سے، مال سے، جان سے لیکن یہ تمام اسے عشقِ خداوندی سے نہ پھیر سکا۔ امین و صادق ایسا کہ مخالفوں کی نگاہ نے بھی اس صٖفت سے انکار نہ کیا۔ جو وقت آنے پر اپنا دامن لہو سے بھر دیتا وہ ہر قضیے کو رب کی رضا کی خاطر اپنے سر لے لیتا۔ جس نے گداؤں اور بے سہاروں پر دست شفقت رکھا، غریبوں کا ساتھ تھاما۔ ”وہ خلوتوں میں بھی تھا وہ صف بہ صف بھی۔ محاذ و ممبر اس کا ٹھکانہ ٹھہرے۔ وہ سر بہ سجدہ بھی وہ سر بکف بھی“ ۔

بالآخر سرزمین عرب سے شروع ہونے والی یہ فتوحات دیکھتے ہی دیکھتے کئی براعظموں میں پھیل گئیں۔ کیوں نہ ہوتیں میری باگ جو امام شاہسوار کے ہاتھ میں جو تھی، جو شرح احکامات میں شعور لایا تھا، وہ ایسی کتاب لایا جو حشر تک کا نصاب گردانا گیا۔ وہ زندگی کا ایسا نصاب لایا جو انقلاب بن کر ابھرا۔ پھر ایک دن آسمان ٹوٹ گیا جب مجھے گیان ہوا کہ شاہسوار نے دنیا سے پردہ فرما لیا۔ میرا حوصلہ ٹوٹ گیا، دل سنبھلنے کی بجائے غم ناک ہوتا گیا۔

آنسوؤں اور لاغری نے زرد گلاب کی مانند درد غم کے نقش میرے چہرے پر نمایاں کر دیے۔ ہر نسبت اس کی غم اوٹ میں فنا ہو کر رہ گئی۔ اللہ رحمت برسائے اس شاہسوار کی آل پر، اس کے بھروسہ مند رفقاء پر، صحابہ کرام پر، تابعین، تبع تابعین، اہل تقویٰ، پاکبازوں اور اصحاب علم و کرم پر جو آگے بڑھے اور میری باگ سنبھالی۔

دین محمد کا خون نہ بہے، وہ اپنا خون بہاتے رہے۔ دین محمد پروان چڑھے، وہ اپنا تن من دھن مجھ پر لٹاتے رہے۔ صرف اس بنیاد پر کہ ان کی نسبت شاہ شاہسوار سے جڑی تھی اور یوں ان کا ہر درد ملامت کرنے والے کی ملامت سے بے نیاز ہو گیا۔ یہ تعلق منطقی نہ تھا کہ فقط ایک دوسرے کو جان جائیں، یہ رشتہ من کا تھا کہ اپنے شاہسوار کو مان لیں۔

کچھ سال بعد مجھے حکم ملا کہ میں ہند میں داخل ہو جاؤں۔ یہاں پر آباد قوموں سے مجھے اپنے شاہسوار کی نسبت کی بنا پر بہت پیار ملا اور میرے آتے ہی مجھ پر محبت اور خلوص کی چادریں چڑھائی گئیں۔ میرا دل افسردہ تب ہوا کہ جب وقت کے ساتھ ساتھ مجھے ان میں دور جاہلیت کے رنگ فتنوں کی صورت میں نظر آنے لگے۔ جاہل صوفی اور کاہل مُلا کے پھندے میں پھنس کر سال کے مخصوص تہواروں میں مجھ پر ایسی چادریں چڑھائی جانے لگیں کہ میں چند مخصوص چراہ گاہوں تک محدود ہو کر رہ گیا۔

مجھ تک عام فرد کی رسائی ان فتوؤں کی بنیاد پر ناممکن بنا دی گئی کہ عام آدمی اور نیک آدمی میں فرق ہے۔ عام آدمی جب تک اخلاقی گراوٹ میں مبتلا ہے ، وہ مجھے چھو بھی نہیں سکتا۔ پاکی شرط ہے اور یوں صرف نیک آدمی کی چادریں مجھ پر ڈالی جانے لگیں۔ عبادت کا تسلسل اس لیے مٹ گیا کہ فرائض کے ساتھ نفل شرط ٹھہرا۔ ہر فرقہ، ہر گروہ شاہ شاہسوار کے ساتھ اپنی منفرد اور خاص نسبت جوڑتا رہا اور یوں ہر گروہ کی مخصوص چادر مجھ پر ڈال دی جاتی۔

میں یہ دیکھ کر پریشان تھا کہ ہند کی اسلامی سلطنت میں تو رب کے حکم کا اتباع کرتے ہوئے فرد کی جان، مال ، عزت اور آبرو کی حفاظت کی جانی چاہیے مگر یہاں تو زمانۂ جاہلیت کی مانند رنگ، نسل، زبان اور رواج کی بنیاد پر ان عقائد کی چادریں مجھ پر چڑھائی جانے لگیں کہ جس میں حیوانیت تو عروج پا گئی مگر انسانیت کہیں گم ہو کر رہ گئی۔ یہ لوگ من کی دنیا سے ناآشنا کیوں ہیں؟ حسن انسانیت کیوں ختم ہو گئی؟ شاید اس لیے کہ شرف انسان کو حضور ﷺ کے دامن سے چھڑوا کر فقط ان کی تعظیم کی چادر کے ساتھ جوڑ دیا گیا؟

دین محمد کے ہوتے ہوئے بھی آج انسانیت کی تکریم نہیں ہے، حقوق اور فرائض کے معرکے میں عزتیں لوٹی جا رہی ہیں، انصاف کے منبر پر بیٹھے منصفوں کی آستینوں سے لہو ٹپک رہا ہے۔ رسموں کے نام پر مجبوریاں خریدی اور بیچی جا رہی ہیں۔ ابلیس کی ہر نصیحت کو مجبوری کی چادر میں لپیٹ کر اوڑھ لیا گیا ہے۔ ”کردار کے غازی کیوں گفتار کے غازی بن بیٹھے؟ یہ فرنگی صوفے، یہ ایرانی قالیین، یہ تن آسانی، کیا یہ مسلماں ہے، کیا یہ یہی اندازہ مسلمانی ہے؟‘‘ اس خطے کے مسلمان کا کردار لوگوں کے ایمان لانے میں رکاوٹ بن کر رہ گیا۔ ”حیدری فکر ہے اور نہ ہی دولت عثمانی ہے، روح بلالی ہے اور نہ ہی تلقین غزالی ہے۔“ یہ اپنے اسلاف کی نسبت کی روحانی چادر کو اوڑھنے سے کیوں خائف ہیں؟ جگہ جگہ میرے شاہسوار کو اس لیے پکارا جا رہا ہے کہ یہ ان کی حقیقت اور نصیحت کی چادر سے محروم ہو کر اپنے ہی خیال و قیاس میں گم ہیں؟

آج یہ نت نیا، رنگ برنگی چادروں میں گھرا ہوا دین محمد ان سرکشوں کی سرکشی کو نہیں روک پا رہا۔ ان چادروں میں میرا دم گھٹ رہا ہے۔ خدارا یہ چادریں اتارو کہ ان کا وزن اور رنگ میری شان، ہیبت اور اصل کو چھپا رہا ہے۔ خدارا مجھے ایسے ہندوستان سے منسوب مت کرو جہاں مجھ میں اور ٹانگے میں جتے ہوئے گھوڑے میں کوئی فرق باقی نہ رہے۔ خدارا اس بات کو سمجھو کہ میری شان، میری آن میرے اصل رنگ میں ہے۔

میں عربی النسل ہوں۔ میرا عہد و پیماں میرے شاہسوار سے ہے اور اس کی پہنائی گئی باگیں کٹ جانے والی نہیں ہیں، فیض و کرم کی امید سے محروم کرنے والی نہیں ہیں، دامان رحمت میں پناہ دینے والی ہیں، معزز کرنے والی ہیں، نجات دینے والی ہیں، خسارے سے بچانے والی ہیں۔ اگر یہ ایمان نہیں ہے تو قہر خداوندی کے سامنے کوئی بھی چادر تمہاری ڈھال نہیں بن سکتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments