کشیدگی میں کمی حکومت کے لیے ضروری ہے


قائداعظم کے بعد ذوالفقار علی بھٹو سے زیادہ مقبولiت کسی سیاستدان کو نہیں ملی۔ ان کے بد ترین مخالف بھی تسلیم کرتے ہیں کہ وہ نہایت ذہین، بیدار مغز اور صاحب علم شخص تھے۔ وہ جہاں جاتے عوامی سمندر ان کی جھلک دیکھنے کو امڈ آتا، ننگے پیر اور پھٹے کپڑوں والے لوگ گھنٹوں پہلے سے ان کی گزرگاہ پر کھڑے ہوتے تھے۔ کوئی شک نہیں کہ وہ عوامی نفسیات سے کھیلنا جانتے تھے اور اس پذیرائی میں روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے کا بھی ہاتھ تھا لیکن ماننا پڑے گا ان کی ذات میں بھی عوام کے لیے کشش تھی۔

انہوں نے جب حکومت سنبھالی اپوزیشن اس وقت بالکل منتشر تھی اور عدلیہ اور افواج سمیت تمام ریاستی اداروں کا مورال گرا ہوا تھا اور ان کی حکمرانی کو کسی قسم کی رخنہ اندازی کا سامنا نہیں تھا لہذا وہ چاہتے تو ملک کی تقدیر بدل سکتی تھی۔ وہ مگر کامیاب کیوں نہ ہو سکے اس کی واحد وجہ اگر بیان کی جائے تو وہ یہ ہے کہ اپنی تمام تر قابلیت کے باوجود وہ انتقامی نفسیات کے اسیر رہے۔ اپوزیشن کا وجود برداشت کرنا درکنار اپنی جماعت میں بھی خلاف طبیعت بات کرنے والوں کی زندگیاں انہوں نے اجیرن کر کے رکھ دیں۔ یہی جاگیردارانہ اور انتقامی سوچ تھی جو اس قدر ذہین قیادت کے باوجود نہ صرف ملکی ترقی میں رکاوٹ بنی بلکہ خود ان کے انجام کا سبب بھی۔

ذوالفقار علی بھٹو کے بعد جس شخصیت کو سب سے زیادہ شہرت ملی وہ ہے عمران خان صاحب کی۔ ان کی پذیرائی کی وجہ ورلڈ کپ کی جیت، شوکت خانم ہسپتال، نمل یونیورسٹی اور کرپشن سے پاک پاکستان، ایک کروڑ نوکریوں، پچاس لاکھ گھروں کے وعدے ہی نہیں بلکہ ان کی شخصی کشش بھی ہے۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد ان کی پرسنالٹی اور فی البدیہہ تقاریر کی مداح ہے۔ یہی نہیں عالمی فورمز اور بین الاقوامی میڈیا میں بھی ان کی بات توجہ سے سنی جاتی ہے۔

جب وہ اقتدار میں آئے انہیں جو اپوزیشن ملی تاریخ میں اتنی کمزور اپوزیشن شاید ملکی تاریخ میں کسی حکومت کو نہیں ملی۔ اپوزیشن رہنما خود آگے بڑھ بڑھ کر انہیں تعاون کی پیشکشیں کرتے رہے۔ افواج اور عدلیہ سمیت تمام ریاستی اداروں کا کماحقہ تعاون انہیں حاصل تھا اور اب تک ہے۔ نہایت بد قسمتی کی بات ہے اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بھٹو صاحب کی طرح عمران خان صاحب بھی انتقامی نفسیات کے اسیر ہیں اور اپنی مقبولیت اپوزیشن کی کمزوری اور اداروں کے تعاون کا فائدہ اٹھا کر ملک و قوم کی تقدیر سنوارنے کے بجائے خوامخواہ کی محاذ آرائی سے ملکی معیشت کا مزید بھٹہ بٹھا دیا۔ بھٹو صاحب کے کھاتے میں تو متفقہ آئین، ایٹمی پروگرام کی بنیاد اور بھارت کی قید سے نوے ہزار جنگی قیدیوں کی رہائی کا کارنامہ پھر بھی موجود ہے جس پر پیپلز پارٹی آج تک فخر کرتی ہے عمران خان کے کریڈٹ پر کون سا کارنامہ ہے جس پر وہ کل فخر کریں گے؟

جب بھی حزب اختلاف کی جانب سے دست تعاون دراز ہوا عمران خان صاحب نے یہ کہہ کر دھتکار دیا کہ کرپشن پر سمجھوتہ کریں گے نہ کسی کو این آر او دیں گے۔ وہ یہ سب نہ کرتے اور احتساب سے متعلقہ اداروں کو آزادی سے اپنا کام کرنے دیتے مگر کاش وہ ملک و قوم کے مستقبل کے لیے اپوزیشن سے ضروری ورکنگ ریلیشن ہی قائم کر لیتے۔ ملک کی موجودہ حالت کی وجہ معاشی و خارجی پالیسیز میں عدم تسلسل ہے۔ جب خان صاحب نے اقتدار سنبھالا ایک سے زائد مرتبہ شہباز شریف اور آصف زرداری نے انہیں متفقہ معاشی پالیسی بنانے کے لیے تعاون کی پیشکش کی۔

آج مگر حکمرانوں کے رویے کی وجہ سے حالت یہ ہے کہ سیاستدان ایک دوسرے کی شکل تک دیکھنے کی رودار نہیں۔ ایف اے ٹی ایف کے بل پر اپوزیشن نے داغ بدنامی مول لے کر حکومت کو سپورٹ کیا اس کے بعد حکومت نے شکریہ ادا کرنے کے بجائے جس طرح اسے بدنام کیا اپوزیشن بھی طے کر چکی ہے کہ حکومت کی مزید کسی ایشو پر مدد نہیں کرنی۔ ملک میں آج جتنی سیاسی محاذ آرائی ہے تاریخ میں شاید کبھی نہیں رہی، اور یہ لڑائی اب سیاسی کے بجائے ذاتی ہو چکی ہے۔

کس قدر شرمندگی کی بات ہے حالیہ سیشن میں قومی اسمبلی میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان آپس میں گتھم گتھا ہو گئے، ایک دوسرے کو انہوں نے ننگی گالیاں دیں اور جوتے لہرائے۔ پارلیمنٹ کے ایک اجلاس پر قوم کے خون پسینے کی کمائی سے کروڑوں روپے برباد ہوتے ہیں اس پارلیمنٹ کو وجود میں آئے ڈھائی سال ہو چکے کوئی بتا سکتا ہے اس میں عوامی مسائل کے حل پر کتنا غور و خوض ہوا؟ کیا عوام کی کمائی ایک دوسرے کو گالیاں دینے اور ذاتی حساب چکتا کرنے کے لیے ہے اور ریاست مدینہ میں عوامی پیسہ باہم رستاخیز کی نذر ہو سکتا ہے؟

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اپوزیشن بھی خرابی میں برابر کی شریک ہے، یہ بات درست ہوگی لیکن سیاسی ماحول ٹھنڈا رکھنے کی زیادہ ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ کیا حکومت کو ادراک نہیں کہ خطے اور دنیا کہ حالات کس تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں اور ان بدلتے حالات میں ہمیں کن چیلنجز کا سامنا ہوگا، ان پر بحث اور اتفاق رائے پیدا کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟ ہماری حالت مگر یہ ہے کہ کشمیریوں سے یکجہتی کے لیے پارلیمنٹ میں مشترکہ قرارداد تک منظور نہیں ہو سکی۔

ہمارے لیڈران جب بھی آزاد کشمیر جاتے وہاں بھی ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے سے باز نہیں آتے۔ جب کشمیر جیسے حساس مسئلے پر یکسوئی ہمیں نصیب نہیں تو دیگر مسائل پر اتفاق کس طرح ہو سکتا ہے؟ امریکا اور افغان طالبان کے معاہدے کے بعد ہمارے مغربی بارڈر پر سکیورٹی صورتحال بہتر ہونے کے امکان پیدا ہوئے تھے۔ اب مگر امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے افغان صدر اشرف غنی کو کہا ہے کہ امریکا، فروری 2020 میں دوحا میں ہونے والے معاہدے کا جائزہ لے رہا ہے اور دیکھ رہا ہے کہ کیا طالبان افغانستان میں تشدد میں کمی کے لیے دہشت گرد گروپوں سے اپنے تعلقات ختم کرنے اور افغان حکومت اور دیگر فریقین سے با معنی مذاکرات کے اپنے وعدوں پر پورا اتر رہے ہیں یا نہیں۔

دوسری طرف افغان طالبان نے بھی امریکا پر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا ہے جس کے بعد معاہدے کے مستقبل پر شکوک و شبہات پیدا ہو چکے ہیں جس کا سیدھا سا مطلب ہے کہ ہمارے ہاں بھی امن کی فی الحال امید نہیں۔ پھر ایشیاء پیسیفک (جسے امریکی میڈیا اب انڈو پیسیفک پکارتا ہے ) میں چین اور امریکا کی کشیدگی میں خاموشی سے اضافہ ہو رہا ہے اس حوالے سے بھی ہمارے لیے پریشانیوں میں اضافہ ہوگا۔ یہ تو طے ہے کہ کسی بھی دباؤ کے باوجود ہم چین کے خلاف اتحاد کا حصہ نہیں بن سکتے تاہم یہ بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ چین ہماری معاشی ضروریات پوری نہیں کر سکتا۔

ہمیں آئی ایم ایف کی ضرورت رہے گی اور اسے امریکا ہم پر دباؤ بڑھانے کے لیے استعمال کرے گا۔ حکومت اور حزب مخالف سے درخواست ہی کر سکتے ہیں کہ خدارا ایک دوسرے کی پگڑیاں ضرور اچھالیں مگر پارلیمنٹ میں بیٹھ کر ملکی مستقبل کی خاطر متفقہ خارجی اور معاشی پالیسی پر ہی اتفاق کر لیں۔ اس کے لیے مگر عمران خان صاحب اور ان کے رفقاء کو ”شیریں گفتار“ پر قابو پانا پڑے گا۔ اور یہ ان کا کسی پر احسان نہیں ہوگا بلکہ خود ان کے اپنے لیے ضروری ہے کیونکہ اگلے انتخابات میں زیادہ وقت باقی نہیں رہا اور حکمراں جماعت کے پاس کوئی ایسا کارنامہ نہیں جیسے وہ عوام کے روبرو لے کر جا سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments