میں تمثال ہوں: اردو کے بیضہ مور ناقدین اور فحاشی کا الزام


کچھ دن قبل، میں نے ”میں تمثال ہوں“ کے متعلق ایک تبصرہ لکھا جو ”ہم سب“ پر شائع ہوا۔ جیسے ہی وہ تبصرہ فیس بک پر شیئر کیا، مجھے بہت سے میسجز موصول ہونے لگے جن میں ناول کی تکنیک، کردار نگاری، منظر نگاری اور اسلوب کے حوالے سے اعتراض اٹھائے گئے تھے۔ کچھ دوستوں نے چند مشہور ادبی شخصیات کے اس ناول پر لکھے جانے والے تبصرے بھی بھیجے جو میرے سابقہ تبصرے کی نفی کر رہے تھے۔ میرے لیے ہر میسج کا الگ الگ جواب لکھنا آسان نہیں تھا لہذا میں نے ایک اور مفصل تبصرہ لکھ کر اس بحث کو نمٹانے کا فیصلہ کیا جس میں مندرجہ بالا تمام اعتراضات کا غیر جانبدار انداز میں جائزہ لیا جائے۔

اصل میں اردو کے بہت سے ناول نگار اور ناقدین کسی نہ کسی لابی کا حصہ ہوتے ہیں اور جب اس لابی کا کوئی ایک رکن، کسی کتاب کے متعلق اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے تو باقی تمام وہ کتاب پڑھے بغیر ہی اس کی ہاں میں ہاں ملانے لگ جاتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر نیا تخلیق کار یا تو ان کی لابی کا حصہ بن جائے یا ان کی بالادستی قبول کرلے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اپنی تمام تخلیقات انہی کے بتائے ہوئے پیمانوں پر پرکھے اور لکھے۔

اگر کوئی تخلیق کار اس سے انحراف کرے تو وہ اس کی تخلیقات کو ادبی تخلیق ماننے ہی سے انکار کر دیتے ہیں۔ یہی صورتحال ”میں تمثال ہوں“ کو بھی درپیش ہے۔ بیشتر قابل صد احترام ناقدین نے ”میں تمثال ہوں“ میں ناول کی کسی بھی تکنیک کے استعمال ہی کی نفی کر دی۔ انھوں نے اسے ایک ایسی ”کتاب“ قرار دیا جو چند بے معنی صفحات کا مجموعہ ہے۔ نیز اس میں صرف فحاشی ہے اور اس کا ادب سے دور دور کا واسطہ نہیں۔ انھوں نے اس ناول کی طرف لوگوں کی رغبت دیکھتے ہوئے، فنی سطح پر اس کی بیخ کنی کی ٹھان لی۔

اسے ڈائری یا ایک عام سے نفسیاتی مسئلے کی وضاحت قرار دیا گیا اور وہ اسے اس سے ہٹ کر دیکھنے کو تیار ہی نہیں۔ ایک صاحب نے تو اس کتاب سے ای میلز نکالنے کا مشورہ دیا کیونکہ ان کے مطابق ای میلز کے فارمیٹ سے طوالت اور بوریت پیدا ہو رہی ہے۔ اسی تبصرے میں آگے چل کر تبصرہ نگار نے نسبتاً وسعت قلب کا مظاہرہ کرتے ہوئے، اس کتاب کو مصنفہ کی رائے کے احترام میں ناول مان لینے کا مشورہ بھی دیا۔ اس پس منظر میں، میں مکتوباتی ناول (Epistolary Novel) کی تعریف نقل کرنا چاہوں گا تاکہ کسی بھی قسم کا ابہام نہ رہے :

”Epistolary novel; a novel told through the medium of letters written by one or more of the characters. Originating with Samuel Richardson ’s Pamela or Virtue Rewarded (1740)“

ظاہر ہے کہ ای میلز مکتوبات کی ہی جدید شکل ہیں اور میں تمثال ہوں صحیح معنوں میں ایک مکتوباتی ناول ہے۔ مکتوبات کی شکل میں ناول لکھنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کردار کے خیالات اور جذبات مصنف کے ذاتی خیالات سے گڈمڈ ہوئے بغیر کہانی میں در آتے ہیں جس سے واقعات میں ڈرامائی تقویت پیدا ہوتی ہے۔ یہ کوئی نئی تکنیک نہیں بلکہ عرصہ دراز سے عالمی اور اردو فکشن میں برتی جا رہی ہے۔ فیودر دوستوفسکی کے ناول Poor Folk میں دو دوستوں کے درمیان خطوط کے ذریعے روس میں انقلاب سے پہلے کے حالات سے نبردآزما ہونے کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ اسی طرح ورجینیا وولف کے ناول Three Guineas میں بھی یہی تکنیک برتی گئی ہے۔

اگرچہ ناول کی تکنیک کے حوالے سے میرا کوئی تفصیلی مطالعہ نہیں لیکن ایم اے کے ابتدائی دنوں میں دو چار کتابیں پڑھنے کا اتفاق ضرور ہوا جس سے چند بنیادی مباحث سے شد بد ہوئی۔ ناول میں عموماً پہلا باب تعارف، کرداروں کے نام اور حالات و واقعات کے متعلق ہوتا ہے تاکہ قاری کو مفہوم سمجھنے میں کوئی دقت نہ ہو۔ تاہم ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا جیسا کہ ”میں تمثال ہوں“ میں پہلا ای میل کہانی کے وسط کے واقعات پر مشتمل ہے۔ اس میں ڈاکٹر احسن، مرکزی کردار تمثال کی نفسیاتی کشمکش پر مبنی ان ای میلز کو دوسرے ایسے مریضوں کی رہنمائی اور بہتری کی غرض سے چھپوانے کے متفقہ فیصلے کے حوالے سے بات کر رہا ہے۔ اس ای میل سے پتا چلتا ہے کہ قبل ازیں تمثال اور ڈاکٹر احسن میں کئی ای میلز کا تبادلہ ہو چکا ہے۔ کہانی بیان کرنے کی یہ تکنیک جس میں آغاز، وسط کے واقعات سے ہو؛in medias res کہلاتی ہے۔ یہ تکنیک ہومر کی اوڈیسی میں بھی استعمال کی گئی ہے۔

اسی طرح تیسرے باب؛ بہ عنوان، تمثال سے سوال، میں Bathos کی تکنیک سے کام لیتے ہوئے کلائمکس کو اینٹی کلائمکس میں بدلا گیا ہے۔ پہلے ستر صفحات کو محیط واقعات، تمثال کے شادی سے قبل اور بعد کے عشقیہ تعلقات پر مبنی ہیں جو معاشرتی، مذہبی اور سماجی روایات کے خلاف ہیں۔ قاری یہ توقع کرتا ہے کہ ناول کے اختتام پر یا کسی کامیاب عشق کا قصہ ہو گا یا تمثال توبہ تائب ہو جائے گی جیسا کہ عموماً ہمارے اخلاقی ناولوں میں ہوتا ہے۔

Nabokov

ناول، میں تمثال ہوں پڑھتے ہوئے قاری عجیب مخمصے میں پڑ جاتا ہے جب ستر صفحات کے بعد تو کیا آخری باب تک کوئی واضح اختتام نہیں ہوتا۔ ستر صفحات کی ڈائری میں بیان کردہ کہانی کے بعد تمثال سے سوال و جواب اور پھر اس کے نفسیاتی تجزیے پر مبنی ای میل شروع ہو جاتی ہے۔ کیا اس عمل نے ناول کو زک پہنچائی ہے؟ کیا یہ ناول کے فن کے خلاف ہے؟ کیا یہاں سے ناول کی بجائے سائیکالوجیکل تھراپی کا سا تاثر حاوی ہو گیا ہے؟ شاید کم نظر قاری اور ناول کی تکنیک سے ناآشنا نقاد کا جواب ہاں میں ہو۔ مگر عالمی ادب اور اس پر گہری نظر رکھنے والا نقاد، اس حصے کو Bathos کی تکنیک کے آئینے میں بہ آسانی شناخت کر لے گا یعنی غیر شعوری طور پر کلائمکس کو اینٹی کلائمکس میں بدلنے کی تکنیک۔

بغیر کسی فیصلے اور واضح نتیجے کے کسی ناول کے اختتام کو بھی ایک الگ تکنیک مانا جاتا ہے اور انگریزی میں اسے Cliffhanger کہتے ہیں۔ میں تمثال ہوں میں Cliffhanger کا استعمال اور تمثال کا پھر ساتویں عشق کے ساتھ اسی ڈگر پر لوٹ جانا، ہمارے بیشتر اخلاقی ناقدین کے لیے بھی بے چینی کا باعث ہے جن کے مطابق ادب کا مقصد صرف اور صرف اخلاقیات کی ترویج ہی ہونا چاہیے۔

اس ناول میں جزئیات کے ساتھ، منظر نگاری نہ ہونے کا الزام تو محض اعتراض برائے اعتراض ہے۔ کوئی نفسیاتی مریضہ بھلا اپنے ڈاکٹر کو لکھے جانے والی ای میل میں تمام تر جزئیات کے ساتھ منظر نگاری کیوں کرے گی؟ کیا ایسے ناقدین کے خیال میں ایک نفسیاتی مریضہ کواپنے ای میل میں لیپ ٹاپ کی کمپنی، کی بورڈ کا رنگ اور انٹرنیٹ فراہم کرنے والی سروس کا نام بتانا چاہیے یا جب وہ اپنے کسی عاشق کے ساتھ گزارے ہوئے وقت کی روداد بیان کرے؟

یا بجائے اس کردار کے رویے اور ان باتوں کے جنھوں نے اسے نفسیاتی سطح پر زک پہنچائی، اس کے کپڑوں اور جوتوں کا رنگ بتائے؟ کیا کردار نگاری سے مراد کردار کی حلیہ نگاری ہے؟ ”میں تمثال ہوں“ ایک نفسیاتی ناول ہے لہذا اس کا تعلق کرداروں کے رویوں اور اطوار سے تو ہو سکتا ہے لیکن ظاہری حلیے کی تفصیل سے اسے کیا لینا دینا۔

کچھ تبصروں میں ناول کی زبان کے حوالے سے سوال اٹھائے گئے۔ مبصرین کو یہ ناول دوبارہ پڑھنا چاہیے، شاید انہیں اس سوال کا جواب مل جائے کہ کردار نگاری اور مکالمہ نگاری کے اصولوں کے تحت ایک نفسیاتی مریضہ کے مکالمے استعاراتی یا فلسفیانہ کیونکر ہوں؟ اس کا جواز ہی کیا ہے؟

ناول کے تین راوی ہیں ؛ ڈاکٹر احسن، تمثال اور عارفہ شہزاد۔ یہ ایک ناول کے تین تین راوی؟ چہ معنی دارد۔ اعتراض وارد ہوا۔ عرض یہ ہے کہ ہر باب میں نئے راوی کی تکنیک تو جیمس جوائس کے نمایاں ناولوں میں بھی برتی گئی ہے تو یہاں کیا اعتراض ہے؟ اگرچہ تمام ناول میں ہر راوی کے لیے صیغۂ واحد متکلم استعمال کیا گیا ہے لیکن اس سے کہانی کی تفہیم میں کہیں الجھاو پیدا نہیں ہوا ہے۔ کہا گیا، ناول میں مصنفہ ”عارفہ شہزاد“ یعنی خود کو بہ طور کردار کیوں ڈال رہی ہے؟

پہلے ای میل کے بعد یہ کردار کہاں گیا؟ اس حوالے سے بھی بہت چہ میگوئیاں ہوئیں ایک فاضل تبصرہ نگار نے تو طنزاً یہ تک کہا کہ کیا ناول میں عارفہ شہزاد کا کردار محض زبان و بیان اور گرامر کی اغلاط کی درستی کے لیے لایا گیا ہے! اچھا چلیں بالفرض ان کا اعتراض درست بھی مان لیتے ہیں تو یہاں اس بات کا تذکرہ کرنا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ یہ تکنیک ولادمیر نوبوکوف کے ناول لولیتا/Lolita میں بھی استعمال کی گئی ہے جس میں ہمبرٹ یعنی کہانی کا مرکزی کردار، جیل سے اپنی یہ کہانی ڈاکٹر جان رے کو بھیجتا ہے تاکہ وہ اس کی نوک پلک سنوار دے۔

ناول ”میں تمثال ہوں“ کے پہلے ہی ای میل میں یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ ”عارفہ شہزاد ہی اس ناول کی فارمیٹنگ کریں گی“ ۔ گویا ناول کا یہ کردار یعنی ”عارفہ شہزاد“ ناول کی ایڈیٹر ہو گی۔ اسے کلی اختیار نہیں بخشا گیا کہ کہانی کے واقعات بدل دے۔ اس کے ہاتھ کردار نگاری کی تکنیک نے باندھ رکھے ہیں کہ وہ ڈاکٹر اور مریضہ کے مکالمے میں فلسفیانہ جملوں اور اپنے خیالات اور حکیمانہ نکتوں کی آمیزش نہیں کر سکتی۔ یہی اس مکتوباتی تکنیک کا تقاضا ہے۔

لیکن ناول لولیتا اور ”میں تمثال ہوں“ میں فرق یہ ہے کہ تمثال اپنی کہانی جسے ایڈٹ کرنے کے لیے بھیجتی ہے، اسے لوگ عارفہ شہزاد اور ایک شاعرہ کے طور پر حقیقت کی دنیا میں بھی جانتے ہیں۔ وہ کوئی فرضی راوی نہیں ہے۔ چنانچہ اس کی ادبی حیثیت کے باعث قارئین کی اس سے توقعات، بالخصوص زبان و بیان کے حوالے سے، بڑھ جاتی ہیں۔ وہ توقع کرتے ہیں کہ شاید اس میں زبان کا شاعرانہ استعمال ہو گا، حالانکہ ایک نفسیاتی مریضہ کی کہانی کے لیے شاعرانہ الفاظ اور اسلوب کی کوئی توجیہہ نہیں ہے۔

اس سے قارئین، تمثال اور عارفہ شہزاد کے کردار کے متعلق الجھ کر رہ گئے کہ آیا یہ تمثال کی کہانی ہے یا عارفہ شہزاد کی۔ میرے خیال میں، عارفہ شہزاد نے جان بوجھ کر یہ تکنیک استعمال کی ہے تاکہ قاری کو زیادہ سے زیادہ ناول میں دلچسپی پیدا ہو اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوئی ہیں۔ کچھ ناقدین نے اسے ذاتی ڈائری یا آپ بیتی قرار دیا اور یہ ظاہر کیا جیسے انہوں نے کوئی راز دریافت کر لیا ہے اور مصنفہ کے سر پر بم پھوڑ دیا ہے! حالانکہ غور کیا جائے تو صاف سمجھ آ جاتا ہے کہ عارفہ شہزاد نے جان بوجھ کر یہ انداز اپنایا ہے تاکہ قاری الجھے اور حقیقت کا رنگ گہرا ہو۔ ناول کے بیک ٹائٹل پر درج عارفہ شہزاد کی بطور مصنف تحریر بھی اس بات کی توثیق کرتی ہے :

”تمثال! تم نے اچھا کیا اندر کے زہر کو باہر کو انڈیل دیا۔ اس زہر کو لفظوں کا روپ دیتے ہوئے میری انگلیاں نیلی پڑ گئی ہیں۔ لوگوں کے خوف میں الجھے ہم چھوٹے چھوٹے روزن اور دریچے تلاش کرتے ہیں اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ در بند رہے گا۔ ہمیں ان لوگوں کے بیچ رہنا ہے اپنے اپنے نقاب اوڑھے ہوئے۔ میری دوست! تمھیں میں نے سنا ہے، محسوس کیا ہے، اپنے اندر اتارا ہے اور تمھیں اوڑھ کر ہی لکھ پائی ہوں یہ سب، اب تو لگتا ہے میں تمثال ہوں۔“

یہاں عارفہ شہزاد ایسے دو چہروں والے لوگوں یا ادبیوں کی تمثال بن گئی ہے جن کے ظاہر اورباطن میں تضاد ہے۔ جو چھپ کر سب کچھ کرنا جائز سمجھتے ہیں مگر آئینہ دکھانے پر چیخ اٹھتے ہیں۔ یوں کہہ لیجیے کہ اس مقام پر آ کر عارفہ شہزاد اور تمثال کے کردار ایک چہرے کے دو روپ بن گئے ہیں۔ بہت سے ایسے لوگ جنہیں اس ناول کے کردار،

” عارفہ شہزاد“ کے آئینے میں اپنا چہرہ نظر آ رہا ہے وہ شور و غل مچا رہے ہیں۔ وہ اس جرات پر انگشت بدنداں ہیں کہ ایسا سب کیوں لکھ دیا گیا۔ ان کی ذاتی زندگیوں کو کیوں طشت از بام کر دیا گیا۔ دوہرے چہروں پر سے نقاب کیوں کھینچی گئی۔ یہ کھیل جاری رکھنے کے لیے اس ناول تمثال کو جنسی ہیجان کا شاخسانہ قرار دیا گیا۔ کہا گیا ساتویں عشق کے تمثال کو ٹھکرا دینے پر، تمثال نے برافروختہ ہو کر معاشرے میں موجود اصل کرداروں کا منہ نوچنے کو یہ ناول لکھا۔ ایسے نقادوں نے آخری باب یا ناول کا اختتام پڑھنے کی زحمت نہیں کی جہاں ساتواں عشق واپس پلٹ آیا ہے!

ایک تبصرے میں ولادمیر نوبوکوف کے ناول Lolitaاور میں تمثال ہوں کا تقابل فحاشی کے اعتبار سے کیا گیا۔ کہا گیا کہ لولیتا ایک ادبی شاہکارجبکہ میں تمثال ہوں فحش ناول ہے۔ مجھے لگا شاید واقعی ایسا ہو لہذا میں نے لولیتا پڑھنا شروع کیا۔ لولیتا ختم کرنے کے بعد میں دنگ رہ گیا کہ اگر پیڈوفلک مردوں کی وکالت، فحاشی کی زمرے میں نہیں آتی تو عشقیہ تعلقات کی کہانی کا بیان کیوں غیر اخلاقی ہے؟ میں تمثال ہوں، میں مصنفہ کا مقصد جنس کے حوالے سے مشرقی تصورات پر کچھ سوالات اٹھانا ہے چنانچہ ایسے ایک آدھ لفظ کا در آنا لازمی تھا۔ نفسیاتی مسائل میں جنسی الفاظ کا بیان قطعاً لذتیت یا چسکے بازی کے زمرے میں نہیں رکھا جاسکتا۔ رحمان عباس نے اس ناول پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے :

”اس ناول پر فحاشی کا مقدمہ بھی ہو سکتا ہے اوراگر ایسا ہوا تو میں عارفہ کی حمایت میں بیان دینے کے لیے کورٹ میں حاضر ہو سکتا ہوں۔ کہ جمالیاتی سطح پر یہ ادب ہے، فحش تو وہ نظر، صاحب، صاحبہ یا کلچر ہے جس کے ذہن میں لفظ کلیٹرس مکھی کی طرح بھنبھناتا رہتا ہے“ ۔

جہاں تک زبان کا تعلق ہے تو دونوں ناولوں میں ہی بولڈ الفاظ برتے گئے ہیں۔ لولیتا میں ایسے مقامات کا بیان، عشق اور جسم کے لازم و ملزوم ہونے کا تصور ہے جسے بالعموم مغربی کلچر کی دین کہا جاتا ہے۔ میں یہاں لولیتا سے صرف ایک پیراگراف نقل کرتا ہوں :

”A polka dotted black kerchief tied around her chest hid from my aging eyes, but not from the gaze of my young memory, the juvenile breasts I had fondled one immortal day. And as if I were the fairy tale nurse of some little princess (lost, kidnapped, discovered in gypsy rags through which her nakedness smiled at the king and his hounds) , I recognized the tiny dark brown mole on her side. With awe and delight (the king crying for joy, the trumpets blaring, the nurse drunk) I saw again her lovely in-drawn abdomen where my southbound mouth had briefly paused and these puerile hips on which I had kissed the crenelated imprint left by the band of her shorts that last mad immortal day behind the Roches Roses.“

(باب 10، صفحہ نمبر 41 )

مغربی ناول میں ایسے الفاظ کا بیان تعجب کی بات نہیں۔ اس بحث کا مقصد قطعاً یہ ثابت کرنا نہیں کہ لولیتا ایک فحش ناول ہے۔ میں صرف اتنا کہنا چاہ رہا ہوں کہ جس طرح کا تقابل لولیتا اور میں تمثال ہوں کا کیا جا رہا ہے وہ سراسر غلط ہے۔ میرا نہیں خیال کہ ان میں سے کوئی بھی ناول فحش ہے۔ ہاں ایسا ہو سکتا ہے کہ یہ ناول کسی کے مذہبی، سماجی اور معاشرتی اعتقادات سے متصادم ہوں۔ ادب کبھی بھی کسی ایک طبقے یا مذہب کے لیے نہیں لکھا جاتا۔

ادب ان تمام پابندیوں سے ماورا ہوتا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی مسئلے پر مبنی ناول ہے، اس کا مقصد شادی سے پہلے یا بعد کے تعلقات کی تبلیغ نہیں بلکہ ان مسائل کی موجودگی کا احساس دلانا اور ان مسائل سے نبرد آزما لوگوں کی نفسیاتی کہانی سامنے لانا ہے۔ پورے ناول میں تمثال اپنے ضمیر، مذہب اور سماجی اعتقادات سے نبردآزما دکھائی دیتی ہے۔ سماج کی غیر لچکدار ساخت، شوہر کے سرد مہر رویے اور جبلی جذبات اسے جس عذاب میں دھکیلتے ہیں وہ کسی قاری سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ہمارے ایک اور فاضل نقاد نے تمثال پر ایک اور اعتراض وارد کیا کہ اگر شادی کے بغیر تعلقات نفسیاتی، مذہبی یاسماجی مسئلہ ہیں تو محبت کی عالمگیر کہانیوں مثلاً ہیر رانجھا وغیرہ کو کس زمرے میں رکھا جائے گا؟

ان متضاد بیانات پر میں سوائے مسکرانے کے اور کیا کر سکتا ہوں جہاں ایک طرف اس ناول میں نفسیاتی کشمکش کو عشق میں روح و جسم ایک ہونے کے تصور کو جھٹلانے کے مترادف یعنی بے معنی نفسیاتی الجھن پر مبنی اور دوسری طرف فحش قرار دیا جا رہا ہے۔

جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں، یہ اردو کے لابی زدہ ناقدین کی ”تکنیکی خرابی“ ہے کہ جب کوئی نیا آنے والا تخلیق کار ان سے ہٹ کر راہ نکالنے کی کوشش کرے تو اس کے خلاف پروپیگینڈہ شروع کر دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں تمثال ہوں کی اشاعت کے بعد اس نوعیت کے آوازوں کی گونج میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments