ہزار سال جینے کی دعا دے کر ہم جھوٹ نہیں بول رہے ہوتے؟



زندگی بڑی عجیب سی شے ہے۔ کبھی یہ بے مقصد لگتی ہے، اور کبھی لگتا ہے کہ ہم ہی وہ بیل ہیں جس نے دنیا کو اپنے سینگوں پہ اٹھا رکھا ہے۔ ہم نہ ہوں تو جانے کیا ہو۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہم بہت سوں کے لیے بہت ضروری و اہم بھی ہوتے ہیں۔ مگر ایک وقت کے بعد کسی کو ہماری ضرورت نہیں رہتی۔ جیسے کہ میں ہوں، اور میں نے تو جب سے سوچنا شروع کیا ہے سب سے زیادہ یہی سوچا کہ میں کیوں ہوں۔

اکثر و بیشتر لوگوں کو مجھ سے یہ شکایت ہو جاتی ہے کہ میں وہ کیوں لکھتی ہوں جو میں نے جھیلا ہے یا جو زندگی سے میں نے سیکھا ہے ، وہ کیوں بتاتی ہوں۔ میری عقل شاید چھوٹی ہے جو مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ میں وہ کیوں نہ لکھوں، جو میں نے برتا ہے۔ میں وہی بتاؤں گی جو میں نے دیکھا، جو میں نے سمجھا، جو مجھ پہ بیتا، یا جو میں نے سبق لیا۔ اگر میں کتابیں پڑھ کے کتابوں کے اقتباسات لکھتی جاؤں تو پھر مجھے چور و کاپی پیسٹ کہہ دیا جائے گا۔

خیر میں کہہ رہی تھی کہ جیسے کل میرا جنم دن تھا۔ دوست احباب چاہنے والوں نے بڑی دعائیں دیں۔ محبت کا اظہار کیا اور میرا دن بہت اچھا بنا دیا۔ عام طور پہ آپ کو چاہنے والے یہ دعا دیتے ہیں کہ آپ ہزاروں سال جئیں۔ لوجیکلی دیکھا جائے تو یہ دعا خود اپنے آپ میں ایک اذیت ہے۔ ہزار سال جینے کے لیے آب حیات ڈھونڈنا پڑے گا اور ہمارے لیے تو کوئی خضر بھی نہیں جو راہ دکھا دے۔

دوسری بات یہ ہے کہ ہزار سال جی کے ہم کریں گے کیا۔ سو سال تک پہنچتے پہنچتے انسانی جسم اپنی طاقت، حسن، جوانی، صحت سب کچھ کھو دیتا ہے۔ کتنا ہی کوئی پہلوان کیوں نہ ہو، ستر پچھتر سال میں اس کی حالت ایک بچے جیسی ہو جاتی ہے۔ کچھ صحت مندانہ سرگرمیوں کی وجہ سے بہتر ہوتے ہیں۔ مگر اکثر بوڑھے تو حروف تہجی کے قاعدے والے ض ضعیف ہی ہو جاتے ہیں۔

فرض کریں اگر ہزار سال جینے کی آپشن مل جائے تو پھر صحت و جوانی ہزار سال ہی رہے تو بات ہے۔ میں جب یہ لکھنے کا سوچ رہی تھی تو میرے ذہن میں آیا کہ میں ایک ہزار سال تک کیا کروں گی۔ یہاں تو ستر سال تک جینے کا سوچ کے ہول اٹھتے ہیں۔ مگر پھر میرے ذہن میں جھماکا سا ہوا۔ میں نے سوچا ایک ہزار سال میں تو میرے بہت سے کام ہو سکتے ہیں۔ مجھے سالسہ سیکھنے اور کرنے کا بہت شوق ہے۔ ایک سو سال تو میں مزے سے سیکھنے اور کرنے میں لگا دیتی۔ باقی کے نو سو سال میں ڈھیروں محبتیں، کرش، مطالعہ، رقص، موسیقی اور بہت سے دوست بناتی۔

اگر ہزار سال آئن سٹائن، سٹیو جابز، اور سٹیفن ہاکنگ کو مل جاتے تو دنیا پہ کتنا احسان ہوتا۔ کم سے کم جیتے جی بلیک ہول مسٹری ہی سلجھ جاتی۔ ایدھی ہمارے بیچ ہوتے۔ لیڈی ڈیانا اپنے تمام تر حسن، تمکنت اور بغاوت کے ساتھ جی رہی ہوتی۔ اور نصرت فتح علی خان صاحب سے میری ملاقات بھی ہو جاتی۔ یہ تو چلیں فرض کی گئی باتیں ہیں۔ مگر اصل بات یہ ہے کہ ہمیں ایوریج ستر پچھتر کی عمر تک جینے کا ہی موقع ملتا ہے۔ ہم ان برسوں میں آدھے سے زیادہ تو لوگوں کے ساتھ حسد، لڑائی، فساد، جھگڑوں میں گزار دیتے ہیں۔

باقی کی آدھی ہم کولہو کے بیل کی طرح کام کرتے گزار دیتے ہیں۔ ہم عجیب لوگ ہیں کہ ہم اپنی خوشی و جیت کا اظہار سرعام فائرنگ کر کے تو کر سکتے ہیں۔ مگر سرعام پھول دینے سے ہمارے کردار مشکوک ہو جاتے ہیں۔ ہم محبت کے اظہار میں ڈرپوک اور نفرت و حسد کے اظہار میں بہادر لوگ ہیں۔ اچھا ہوا ہمیں ایک ہزار سال کی زندگی نہ ملی، ورنہ ہم نو سو اٹھانوے سال تک لڑتے جھگڑتے، دھینگا مشتی کرتے، فساد مچاتے اور باقی کے دو سال ان نو سو اٹھانوے سالوں کو بخشواتے ہوئے دنیا سے چلے جاتے۔

جس طرح کائنات کی وسعتوں کا ہمیں نہیں پتہ۔ جیسے یہ کائنات لمحہ و لمحہ پھیل رہی ہے، ویسے ہی ہماری زندگی بھی لمحہ بہ لمحہ آگے بڑھ رہی ہے۔ زندگی ہمارے لیے کل کیسی ہو گی یہ ضرور سوچیں۔ مگر کل کے متعلق سوچتے ہوئے اپنے حال کو خراب مت کریں۔ میری زندگی جوں جوں بڑھ رہی ہے، ویسے ویسے میرے سامنے حقیقتیں بھی کھل رہی ہیں۔ یقین مانیں یہ ساٹھ ستر سالہ زندگی کریئر بنانے، شعور پانے، موسیقی سننے، رقص اور محبت کرنے کے لیے بہت کم ہے۔ اسے ضائع مت کریں۔ اپنی ض ضعیف والی عمر کے لیے مسکراہٹیں جمع کریں، پچھتاوے نہیں۔

اور ہاں آئندہ دوسروں کو ہزار سال جینے والی دعا دینے کی بجائے یہ دعا دیں کہ اے دوست! تم قدرت کی جانب سے جتنی عمر بھی پاؤ ، اسے اپنی مرضی سے گزار کے جاؤ۔ محبتوں اور شعور کے حصار میں رہو۔ اور مرتے وقت کوئی پچھتاوا تمہارے ساتھ نہ ہو۔ جیو جی بھر کے جیو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments