کیا انسانوں کے بجائے بندروں کو ویکسین لگانے سے وبا پر قابو پایا جا سکتا ہے


زرد بخار ایک ایسی بیماری ہے جس سے متاثر ہونے والے 15 فیصد افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔ تاہم اس بیماری کے خلاف ایک موثر ویکسین موجود ہے۔ سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں لوگوں تک اس ویکسین کو پہنچانے میں درپیش مشکلات کے پیش نظر سائنس دان ایک حیران کن متبادل کا استعمال کر رہے ہیں۔ یہ متبادل ہے بندروں کی ویکسینیشن۔

اکتوبر کی ایک ابر آلود صبح کو سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے بندروں کی تلاش میں برازیل کے اٹلانٹک جنگل کا رخ کیا۔ ایک شخص نے پرانے ٹی وی اینٹینا جیسا کچھ اور ایک کلہاڑی اٹھا رکھی تھی۔ ان کے ساتھ موجود ایک خاتون کے ہاتھ میں دھات سے بنا ایک چھوٹا سا پنجرا تھا، اور کیلوں سے بھرے دو تھیلے۔

یہ بھی پڑھیے

کورونا وائرس: کیا آپ کے ملک میں ویکسین پہنچ گئی ہے؟

پہلی بار دو بندروں کی کلوننگ

ایمازون کے جنگلات میں ’بہتے سونے کے دریاؤں‘ کی حقیقت

ان کا مشن: بندروں میں زرد بخار کے مزید پھیلاؤ کو انسانوں تک پہنچنے سے پہلے ہی روکنا ہے۔

برازیل میں اس وقت کورونا وائرس کی وجہ سے شرح اموات امریکہ کے بعد دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ تاہم سائنسدانوں کو خدشہ ہے کہ جنوبی امریکہ کے اس ملک میں کورونا وائرس سے بھی زیادہ خطرناک اور مہلک بیماری کے پھوٹ پڑنے کا خطرہ ہے۔

زرد بخار سے ہر سال تقریباً دو لاکھ افراد متاثر ہوتے ہیں جن میں سے 30 ہزار ہلاک ہو جاتے ہیں۔ یہ تعداد دنیا بھر میں ہونے والے دہشت گرد حملوں اور ہوائی جہاز کے حادثوں میں ہلاک ہونے والوں سے زیادہ ہے۔

یہ بیماری ایک وائرس کی وجہ سے ہوتی ہے جو انسانوں اور بندروں میں مچھروں کے ذریعے پھیلتا ہے۔ اس کی علامات میں تیز بخار اور سر درد شامل ہیں اور کچھ مریضوں کو یرقان بھی ہو جاتا ہے، جس سے مریض کی جلد زرد پڑ جاتی ہے۔ شدید بیماری کی صورت میں جسم کے اندر خون بہنے لگتا ہے اور جگر کام کرنا بند کر دیتا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق ویکسین کے بغیر اس بیماری کا شکار ہونے والوں میں سے 15 فیصد اس کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ یہ شرح کووڈ 19 سے ہونے والی اموات کی شرح سے کہیں زیادہ ہے۔

پچھلے کچھ برسوں میں برازیل میں کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں زرد بخار کے سب سے زیادہ کیسز سامنے آئے ہیں۔ دسمبر 2016 میں ہونے والا پھیلاؤ میناس گیریاس میں شروع ہوا اور پھر ایسپریتو سانتو تک پھیل گیا، یہ دونوں علاقے اٹلانٹک جنگل کے وسط میں واقع ہیں۔

اس وقت تقریباً چالیس ملین ایسے لوگ تھے جنھیں یہ بیماری لگنے کا خطرہ تھا اور جن کی ویکسینیشن نہیں ہوئی تھی۔ مئی 2017 تک یہ بیماری ملک بھر میں پھیل چکی تھی، یہاں تک کہ تین ہزار میل دور ریاست پارا تک بھی، اور شدید متاثرہ علاقوں میں ریو ڈی جنیرو بھی شامل تھا۔

یہ اسی سال سے زیادہ عرصے میں پیش آنا والا سب سے شدید پھیلاؤ تھا۔ تین ہزار سے زیادہ افراد اس سے متاثر ہوئے اور کچھ ہی ماہ میں چار سو سے زیادہ لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔

بندر

سٹیٹ یونیورسٹی آف ناردرن ریو ڈی جنیرو میں بطور کنزرویشن بائیولوجسٹ کام کرنے والے کارلوس رامون روئیز میرانڈا کہتے ہیں، ’جب چھوٹے سے جنگلوں میں بہت بڑی تعداد میں بندر اور انسان موجود ہوں۔۔ تو بہت آسانی سے یہ بیماری سب کو لگ جاتی ہے۔‘

برازیل کے جنگلات جو کہ مچھروں سے بھرے پڑے ہیں وہاں یہ بیماری سنہرے بندروں سے انسانوں تک بظاہر بآسانی پھیل جاتی ہے۔ مچھر اس بیماری کو پھیلاتے ضرور ہیں لیکن اصل مسئلہ انسانوں کا ہے جو صورت حال کو مزید بگاڑ رہے ہیں۔

جیسے جیسے انسانی آبادی جنگلات تک پھیلتی جاتی ہے، علاقے کا حیاتیاتی تنوع متاثر ہوتا ہے اور انسانوں اور جانوروں کی قربت میں اضافہ ہوتا ہے۔

یہ رجحان ختم ہوتا نظر نہیں آتا جس کا مطلب یہ ہے کہ اگلا پھیلاؤ اور بھی زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے۔

ویکسین کا چیلینج

جنگل کے اس حصے سے، جہاں سائنسدان بندروں کی تاک میں بیٹھے ہیں، صرف 50 میل کی دوری پر ریو ڈی جنیرو کا شہر واقع ہے جو کہ جنوبی امریکہ کے تمام ممالک میں چھٹا سب سے بڑا شہر ہے۔ اور گاڑی سے چھ گھنٹے کا سفر آپ کو ساؤ پاؤلو پہنچا دیتا ہے جو کہ مغربی نصف کرہ کا سب سے بڑا شہر ہے۔

اتنے بڑے اور گنجان آباد شہروں کی ان جنگلات سے قربت کی وجہ سے اس بیماری کے خلاف ویکسین تیار ہو جانے کے سو سال بعد بھی اس کا بہت بڑی سطح پر وبائی شکل اختیار کر لینے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔

کارلوس رامون روئیز میرانڈا کے ساتھ کام کرنے والی جینیاتی محقق میریلا ڈی آرک کہتی ہیں کہ ایسا زرد بخار کے خلاف ایک ’نہایت ہی موثر‘ ویکسین کی موجودگی کے باوجود ہو سکتا ہے۔

سنہ 2018 میں برازیل کے وزیر صحت نے ایک مہم کا اعلان کیا جس کے تحت برازیل کی 210 ملین کی آبادی میں سے تقریباً 80 ملین کو زرد بخار کے خلاف ویکسین فراہم کی گئی۔ کچھ علاقوں میں 95 فیصد تک شہریوں کو ویکسین دی گئی۔ لیکن برازیل کے بڑے شہروں میں یہ شرح مشکل سے 50 فیصد سے زیادہ ہے۔

برازیل میں کئی لوگ حکومت کی طرف سے صحت سے متعلق ملنے والی ہدایات پر بھروسہ نہیں کرتے۔ ملک میں بدعنوانی بھی بڑا مسئلہ ہے، اور اگرچہ ویکسین مفت دستیاب ہے، کئی شہریوں کو لگتا ہے کہ ان سے ویکسین لگوانے کو اس لیے کہا جا رہا ہے کیونکہ اس سے کسی اور کو منافع ہو گا۔

اس عدم اعتماد کی وجہ سے حال ہی میں ساؤ پاؤلو اور ریو کے گرد و نواح میں رہنے والے 23 ملین شہریوں کو ویکسین دینے میں مشکلات پیش آئی ہیں۔

سنہ 2016-17 میں جب یہ بیماری پھیلی تھی تو ویکسین کے لیے لمبی قطاروں، اور میسیجنگ ایپس پر اس ویکسین کے جعلی ہونے کے بارے میں فیک نیوز کی وجہ سے بھی کئی لوگوں نے ویکسین نہیں لگوائی تھی۔

اور تو اور ایک مسئلہ ویکسین کی قلت کا بھی ہو سکتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے دوا بنانے والی کمپنیوں پر زور دیا ہے کہ وہ پیداوار میں اضافہ کریں، تاہم یونیسیف کے مطابق ویکسین کی دستیابی ’محدود پیداوار کی وجہ سے متاثر ہے۔‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریو کی آبادی کے صرف نصف حصے کو ہی زرد بخار کے خلاف ویکسینیشن لگی ہے۔

ایک دوسرا طریقہ بھی ہے۔ دنیا میں اس وقت 7.8 بلین انسان ہیں، لیکن صرف ڈھائی ہزار سنہرے ٹامارن بندر۔

یعنی مستقبل میں انسانوں میں اس بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے کا ایک منفرد طریقہ ہو سکتا ہے: کیلوں کے شوقین ان بندروں کو ویکسین لگانا۔

ڈی آرک کہتی ہیں، ’اس بیماری کو روکنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ انسانوں اور بندروں دونوں کو ویکسین لگائی جائے۔‘

روئیز میرانڈا کہتے ہیں کہ، ’اگر آپ بندروں کو ویکسین دیتے ہیں تو ان لوگوں کی تعداد میں کمی واقع ہوتی ہے جو اس بیماری کو پھیلا سکتے ہیں۔ یہ ’ہرڈ امیونیٹی‘کی طرح ہے۔‘

بندر کیا جانے۔۔۔

پہلی نظر میں سنہرہ ٹامارن بندر اس ماحول میں ذرا سٹپٹایا سا لگتا ہے: ایک ہرے بھرے جنگل میں تیز نارنجی رنگ کا ایک گولہ۔ ان کے چہرے پر مونچھ لگا دیں، اور ان کی دم ہٹا دیں تو یہ ایک دم 1971 میں شائع ہونے والی ڈاکٹر زوئیس کی بچوں کی کتاب کے کردار لوریکس جیسے دکھتے ہیں۔

اس کتاب میں وہ کردار ان انسانوں سے اپنے جنگل کو بچانے کی کوشش کرتا ہے جو تمام درخت کاٹنے کے لیے وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ کتاب میں لوریکس کو اپنے جنگل سے زبردستی دور کر دیا جاتا ہے۔

برازیل کے سہنری ٹامارن بندر کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ ایک وقت تھا جب یہ بندر برازیل کے جنوب مشرقی اٹلانٹک جنگل کے وسیع رقبے پر پائے جاتے تھے۔ لیکن 1970 کی دہائی آتے آتے اس جنگل کو لکڑی کے لیے اس حد تک کاٹا جا چکا تھا کہ ان کا گھر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا تھا۔

سنہ 1971 میں جنگل میں چار سو سے بھی کم ٹامارن بندر رہ گئے تھے، یعنی یہ معدوم ہوتی نسل بن چکی تھی۔ ان کو بچانے کے لیے انسانوں نے ڈاکٹر زوئیس کی کتاب سے ہی ایک ورق اٹھایا: ماہرین نے درجنوں بندروں کو گھٹتے ہوئے جنگل سے اٹھا کر ریو کے باہر قائم قدرتی آماجگاہ میں پہنچا دیا۔

روئیز میرانڈا کے مطابق یہ مداخلت کارآمد ثابت ہوئی۔ سنہ 2014 تک ٹامارن بندروں کی تعداد 1,700-2,400 تک پہنچ گئی تھی۔ اس نسل کے بندر اب زیادہ تر ساؤ خواو دریا کے کنارے پر بچے جنگلات میں رہتے ہیں۔

ان کی تعداد میں اس قدر بہتری آئی کہ انھیں ’انتہائی خطرے سے دوچار‘ نسل کی فہرست سے ’خطرے سے دو چار‘ نسل کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ ایسا لگنے لگا کی ٹامارن بندر بچ جائیں گے۔

لیکن پھر سنہ 2017 میں زرد بخار کی وبا پھیلی۔

روئیز میرانڈا کہتے ہیں ’ایسا لگ بھگ کبھی نہیں ہوتا کہ لوگوں کو سڑک کنارے مرا ہوا بندر ملے۔‘ اسی لیے جب سنہ 2017 میں ایسا ہوا تو وہ حیران رہ گئے۔ ایک کسان انھیں اور ان کی ٹیم کو جنگل میں ایک مرے ہوئے بندر تک لے کر گیا۔‘

بندر کا ٹیسٹ ہوا تو پتا چلا کہ اسے زرد بخار تھا۔ جلد ہی انھیں پانچ مزید مرے ہوئے بندر ملے۔ اس وبا کے ختم ہونے تک ہزاروں ٹامارن بندر اس کا شکار ہو چکے تھے۔ کچھ دوسرے بندروں میں تو موت کی شرح 80-90 فیصد تک تھی۔

ٹامارن بندروں پر اس وبا کا بہت برا اثر پڑا جن کی نسل پہلے ہی نازک حالت میں تھی۔ روئیز میرانڈا کہتے ہیں، ’مجموعی طور پر بندروں کی آبادی کا 30 فیصد ختم ہو گیا۔ جہاں پہلے 3,700 ٹامارن بندر تھے وہاں ایک سال سے کم عرصے میں صرف 2,600 بچ گئے۔‘

سنہ 2017 کی زرد بخار کی وبا سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اس کا شکار صرف انسان ہی نہیں بلکہ ٹامارن بندر بھی ہو سکتے ہیں۔

روئیز میرانڈا کہتے ہیں کہ، ’جنگلی حیات بھی انسانوں کی ہی طرح اس مرض کا شکار ہے۔‘

دنیا بھر میں بندروں کی سب سے زیادہ نسلیں برازیل میں پائی جاتی ہیں۔ انسانوں کو بچانے کے لیے اب ایسا لگتا ہے کہ ہمیں ٹامارن بندروں کو بچانا ہو گا۔ پنجرے اور کیلے لیے اکتوبر کی ایک ابر آلود صبح ڈی آرک بالکل اسی مقصد سے نکلی تھیں۔

بندر کو پکڑنا

ریو سے پوکو داس انٹاس حیاتیاتی ریزیو تک کے سفر میں انھیں جگہ جگہ انسانی آبادی کے جنگلات کے رقبے پر تجاوزات کے شواہد نظر آئے : ایک بڑی سڑک، کیلوں کے کھیت، جانور چرانے کے لیے میدان۔

روئیز میرانڈا کہتےہیں، ’جانور چرانے کے میدان جنگلات کے کنارے تک ہیں، اور ایک موٹروے ریزرو کو دیگر جنگلات سے علیحدہ کرتی ہے۔‘

جنگل میں داخل ہوتے ہی ٹیم کی نظر ایک نارنجی بالوں والی مادہ ٹامارن بندر پر پڑتی ہے جسے اس کے نمبر، ایف 16 سے پہچانا جاتا ہے۔ وہ ایک پتلی ٹہنیوں والے درخت پر بیٹھی تھی۔ سائنسدانوں کو دیکھ وہ بھاگی نہیں، بلکہ پرتجسس انداز میں ان کی طرف بڑھی۔

ڈی آرک کہتی ہیں، ’زیادہ تر جانور انسانوں سے ڈرتے ہیں، لیکن اس چھوٹے سے علاقے کے یہ سنہری ٹامارن ہم سے واقف ہیں۔‘

اینڈریا مارٹنس کی سربراہی میں گولڈن لائین ٹامارن ایسوسی ایشن، جو کہ تحفظ ماحول کا ایک غیر سرکاری ادارہ ہے، کی ٹیم کام پر لگ گئی۔ ایک محقق نے کیلوں سے بھرے دو پنجرے تیار کیے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک بندر سامنے آیا اور کیلا لینے کے لیے پنجرے میں داخل ہوا، ایسا کرتے ہی پنجرہ بند ہو گیا۔ کرتے کرتے جب کئی بندر پنجروں میں محفوظ ہو گئے تو ٹیم نے واپسی کا ارادہ کیا۔

لیب میں واپس پہنچتے ہی ٹیم نے حفاظتی لباس پہنا، اور بندروں کو بے ہوش کیا گیا۔ اس کے بعد ان کی صحت کی مکمل جانچ کی گئی، اور ان کے خون، پاخانے کے نمونے لیے گئے۔ اس کے بعد تمام بندروں کو ویکسین دی گئی۔

ویکسین لگانے کے بعد بندروں کو پنجروں میں واپس ڈالا گیا اور ان کے جاگنے سے پہلے انھیں جنگل واپس پہنچایا گیا۔ جہاں میریلا نے کیلوں کا پورا گچھا ان کے قریب رکھ دیا۔

دن ختم ہونے تک ٹیم نے آٹھ بندروں کو ٹیسٹ کرنے کے بعد، انھیں ویکسین لگا کر واپس جنگل پہنچا دیا تھا۔ لیکن ان کا کام ابھی شروع ہی ہوا تھا۔ دو سال کے عرصے میں وہ پانچ سو سنہری ٹامارن بندروں کو ویکسین لگانے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔

انسانی آبادی کے مسائل

کووڈ 19 کی ہی طرح زرد بخار کی شروعات شاید جانوروں میں ہوئی ہو لیکن اسے دنیا بھر میں انسانوں نے ہی پھیلایا۔ انتھروپالوجی کے پروفیسر جولیو سیزر کہتے ہیں، ’زرد بخار افریقہ میں پیدا ہونے والی بیماری ہے۔ غلاموں کی تجارت سے پہلے یہ دنیا کے اس خطے میں نہیں پائی جاتی تھی۔‘

وہ کہتے ہیں، ’افریقی انسانوں اور بندروں میں اس بیماری کے خلاف قدرتی مدافعت ہے، کیونکہ یہ اسی خطے کا وائرس ہے، جبکہ ہمارے پرائیمیٹس میں ایسا بالکل نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انھیں اس بیماری سے کہیں زیادہ خطرہ ہے اور وہ اس وائرس سے بہت آسانی سے مر جاتے ہیں۔‘

زرد بخار تب پھیلتا ہے جب مادہ مچھر اس بیماری میں مبتلا انسانوں یا دیگر پرائیمیٹس کو کاٹنے کے بعد دوسروں کو کاٹتی ہیں۔ روئیز میرانڈا کہتے ہیں، ’ایک بار وبا شروع ہو جائے تو پرائیمیٹس کی نسلوں میں چار سے چھ دن ایسے ہوتے ہیں جب وہ ’وائیرینک‘ ہوتے ہیں، یعنی اس دوران وائرس فعال ہوتا ہے اور اگر انھیں مچھر کاٹے تو یہ بیماری پھیل سکتی ہے۔‘

ایسے میں ہوتا یہ ہے کہ بندر اس بیماری کو پھیلانے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ آج کل کی دنیا میں جنگلات کو بیدردی سے کاٹے جانے کی وجہ سے یہ خطرہ مزید بڑھ گیا ہے۔

برازیل کا اٹلانٹک جنگل ایک لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے، لیکن ایک زمانے میں یہ اس سے 12 گنا وسیع تھا۔ پانچ صدی پہلے جب پرتگالیوں نے برازیل پر قبضہ کیا، اس کے بعد سے جنگلات کا بہت بڑا حصہ کاٹا گیا ہے۔ جنگلات کے ختم ہونے سے ان میں رہنے والی نسلوں اور انسانوں کے رابطے میں اضافہ ہوا ہے، جس سے بیماریوں کے پھیلنے کا خطرہ بھی بڑھا ہے۔

ایک زمانے میں جنگلات کاٹنے کی سب سے بڑی وجہ درختوں سے حاصل کی جانے والی لکڑی تھی۔ آج کل اس کی سب سے بڑی وجہ گوشت ہے۔

برازیل کے ایمازون جنگلات میں اب دو سو ملین سے زیادہ گائیں چرائی جاتی ہیں۔ ایمازون میں کاٹے جانے والے جنگلات میں 80 فیصد انہی گائیوں کے لیے میدان بنانے کے لیے کاٹے جاتے ہیں۔

لیکن قصور صرف برازیل کا ہی نہیں ہے۔ برازیل میں پیدا ہونے والا زیادہ تر گوشت امریکہ جیسے امیر ممالک میں فروخت کیا جاتا ہے۔ جنگلات کا اس پیمانے پر تباہ ہونا صرف جنگلی حیات کے لیے ہی نہیں بلکہ انسانوں کے لیے بھی خطرناک ہے۔

روئیز میرانڈا کہتے ہیں، ’حیاتیاتی تنوع بیماریوں کے خلاف ایک رکاوٹ کا کام کرتا ہے۔ اگر آپ ایک وبا کو باہر سے آنے والی نسل کی طرح تصور کریں تو ماحول جتنا خراب ہو گا اس کے لیے اپنی جڑیں مضبوط کرنا اتنا ہی آسان ہو گا۔‘

اٹلانٹک جنگل کے چھوٹے ہوتے حصوں میں محدود ہو کر رہ جانے والے ان بندروں کے پاس ایک سے دوسرے علاقے میں جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا، جس کی وجہ سے وہ انسانوں کے قریب سے گزرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، اور اس طرح بیماری کی زد میں آ جاتے ہیں۔

روئیز میرانڈا کہتے ہیں، ’بندر اور انسان ایک ساتھ ان علاقوں کے بہت قریب رہتے ہیں جہاں لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ جس سے دونوں کے درمیان روابط بہت بڑھ جاتے ہیں۔‘

وبا پھوٹنے کے لیے ایسی صورتحال بالکل موافق ہے۔ اس سے بھی زیادہ پریشانی کا باعث یہ بات ہے کہ اٹلانٹک جنگل کا ایک کنارہ ریو ڈی جنیرو کے نواح سے متصل ہے۔ اس شہر کی آبادی 12 ملین ہے جن میں سے تقریباً چھ ملین کو ویکسین لگ چکی ہے۔ مجموعی طور پر 148 ملین سے زیادہ لوگ برازیل کے اٹلانٹک جنگل سے متصل علاقوں میں رہتے ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس خطے میں زرد بخار کی وبا پھوٹتی ہے تو وہ بہت تیزی سے پھیل سکتی ہے۔ بندر تو زیادہ دور نہیں جاتے، لیکن انسان گھنٹوں میں وسیع فاصلے طے کر سکتے ہیں۔

سنہ 2017 کی وبا سے یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ انسان بہت جلد اس بیماری کو ملک کے ایک حصے سے دوسرے حصے تک پہنچا سکتے ہیں۔

صف اول کے سپاہی

ماہرین صحت کہتے ہیں کہ زرد بخار کی اگلی وبا کو پھوٹنے سے روکنے کے لیے سب سے موثر طریقہ کار یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ افراد کو اس کے خلاف ویکسین دی جائے۔

بندر

لیکن سائنسدان یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک اور راستہ بھی ہے اور وہ ہے برازیل کے جنگلات کی تباہی کو روکنا اور حیاتیاتی تنوع کا تحفظ کرنا اور اسے فروغ دینا۔ تاہم ایسا کرنا وہاں رہنے والے کسانوں اور چرواہوں کے لیے آسان نہیں ہو گا۔

اینا بیئٹریز کورڈیرو ایک 53 سالہ خاتون ہیں جو کہ ماحول دوست سیاحت کے شعبے سے منسلک ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’لوگ دیہی علاقوں میں نہیں رہنا چاہتے، تو وہ انھیں ویران چھوڑ کر شہر آ جاتے ہیں۔ جب ایسا ہوتا ہے تو ان ویران علاقوں کا ماحول بہتر ہو جاتا ہے۔‘

خود کورڈیرو ریو جیسا بڑا شہر چھوڑ کر جنگل کے قریب سلوا جارڈم نامی شہر میں بس گئیں جہاں وہ آرکیڈ پھول اگاتی ہیں اور خالی پڑی زمین پر مقامی درختوں کے بیج بوتی ہیں، اور شہر سے آنے والے بچوں اور بڑوں کے لیے تعلیمی دورے منعقد کرتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ 15 سال پہلے کے مقابلے میں آج جانوروں کی تعداد زیادہ ہے، اور اس میں ٹامارن بندر بھی شامل ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر انسان چاہیں تو وہ حیاتیاتی تنوع کے نگہبان بھی بن سکتے ہیں۔

کورڈیرو کہتی ہیں، ’یہاں ان سنہری ٹامارن بندروں کو پیار کیا جاتا ہے۔ یہ ایک خوبصورت جانور ہے۔‘

خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ یہ فائدہ مند بھی ہے۔ یونیورسٹی آف وسکانسن میڈیسن میں اینتھروپالوجی کی پروفیسر کیرن سٹائیر کہتی ہیں، ’یہ بندر زرد بخار اور دیگر بیماریوں کے بارے میں ہمیں متنبہ کرتے ہیں۔‘

تاہم سبھی لوگ ٹامارن بندروں کی عزت نہیں کرتے۔ سنہ 2017 کی وبا کے دوران برازیل میں درجنوں بندروں کو پتھروں اور گولیوں سے مارا گیا، انھیں آگ لگائی گئی۔ ایسا کرنے والے وہ لوگ تھے جو یہ سمجھتے تھے کہ اس مہلک بیماری کی وجہ یہی بندر ہیں۔

روئیز میرانڈا کہتے ہیں، ’جنوبی برازیل میں ماضی کی وباؤں کے دوران حکومت کا ردعمل ہمیشہ یہ ہوتا تھا کہ بندروں کو مار دیں۔ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آیا کہ وزارت صحت زرد بخار کو بندروں کی بیماری کہنے لگی تھی۔‘

وہ مزید کہتے ہیں، ’لیکن یہ بندر ہمارے محافظ ہیں ۔۔ ان کی وجہ سے ہمیں اس بیماری کے آنے کی پیشگی اطلاع ملتی ہے۔‘

روئیز میرانڈا کہتے ہیں کہ سنہ 2017 کے پھیلاؤ کے دوران انھوں نے اور ان کے ساتھ کام کرنے والوں نے جنگل کے قریب رہنے والے افراد کے پاس جا جا کر ان سے درخواست کی کہ وہ بندروں کو نہ ماریں۔

’کچھ لوگ انھیں خوبصورت اور قابل ستائش تصور کرتے ہیں۔ کچھ لوگ بیماری کی وجہ سے ان سے ڈرتے ہیں۔ لیکن اب لوگوں کے ذہن تبدیل ہو رہے ہیں۔ انھیں اس بات کا احساس ہو رہا ہے کہ یہ بندر بھی اسی طرح اس بیماری کا شکار ہیں جیسے کہ انسان۔‘

صحت سے متعلق حکام کا کہنا ہے کہ جب تک مزید بندروں اور انسانوں کو ویکسین نہیں لگائی جاتی تب تک زرد بخار کا پھیلاؤ بڑھتا جائے گا۔ ایک اندازے کے مطابق برازیل کو سنہ 2026 تک انسانی ویکسین کی 226 ملین خوراکیں درکار ہوں گی۔

کووڈ 19 کے برعکس ایک بڑے پیمانے پر دستیاب اور موثر ویکسین ہونے کی وجہ سے زرد بخار کے خلاف جنگ میں ہم آگے ہیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وسائل کے صحیح استعمال سے برازیل میں اسے دوبارہ پھوٹنے سے پہلے ہی روکا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp