ڈونلڈ ٹرمپ مواخذے سے بچ گئے لیکن ری پبلکن پارٹی میں سیاسی کردار غیر واضح


امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو سینیٹ نے عوام کو بغاوت پر اکسانے کے الزامات سے تو بری کر دیا ہے لیکن ری پبلکن پارٹی میں ان کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے اب بھی کئی سوالات موجود ہیں۔

ری پبلکن پارٹی کے کئی رہنما ٹرمپ کی پالیسیوں کا دفاع کرتے ہیں جب کہ بعض ان پالیسیوں سے اختلاف رکھتے ہیں۔

امریکی سینیٹ نے ہفتے کو سابق صدر ٹرمپ کو کانگریس کی عمارت کیپٹل ہل پر حملے کے لیے اپنے حامیوں کو اکسانے کے الزام سے بری کیا تھا۔

سینیٹ میں صدر ٹرمپ کے ٹرائل کے لیے 100 میں سے 67 اراکین کی حمایت درکار تھی لیکن 57 سینیٹرز نے الزامات کے حق میں ووٹ دیا جب کہ 43 نے ٹرائل کی مخالفت کی۔

مواخذے کی کارروائی سے بریت کے بعد سابق صدر نے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ وہ 2024 کے صدارتی انتخاب میں حصہ لیں گے یا نہیں۔ تاہم وہ گزشتہ ماہ اس طرح کے خیالات کا اظہار کر چکے ہیں۔

ری پبلکن جماعت کے سینیٹر لنڈسے گراہم نے اتوار کو ‘فاکس نیوز’ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹ میں مواخذے کی کارروائی ختم ہونے کے بعد انہوں نے سابق صدر سے بات کی ہے۔ اُن کے بقول ٹرمپ ری پبلکن جماعت کو دوبارہ اکٹھا کریں گے اور کانگریس کے دونوں ایوانوں میں دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔

مواخذے کی کوشش ناکام، امریکی سینیٹ نے ٹرمپ کو الزامات سے بری کر دیا

انہوں نے کہا کہ “اگر آپ کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو آپ کو صدر ٹرمپ کے ساتھ کھڑا ہونا ہو گا۔”

لنڈسے گراہم کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کی تحریک اب بھی زندہ ہے اور مضبوط ہے۔ ری پبلکن جماعت میں سب سے طاقت ور شخص ڈونلڈ ٹرمپ ہیں۔

ریاست میری لینڈ کے ری پبلکن گورنر لیری ہوگن نے، جو ٹرمپ کے ناقد بھی ہیں، نشریاتی ادارے ‘سی این این’ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کی انتخابات میں ناکامی اور صدارت کے غیر روایتی اختتام کے بعد ہم ری پبلکن جماعت کی تجدید کے لیے آئندہ چند برسوں میں ایک عظیم جنگ لڑنے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ سوال موجود ہے کہ کیا ری پبلکن وہ جماعت بننے جا رہی ہے جو قومی انتخاب نہیں جیت سکتی؟

امریکہ میں قومی سطح پر رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق ری پبلکن پارٹی کے بیشتر ووٹرز بدستور ٹرمپ کے حامی ہیں۔ تاہم ہوگن کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں وقت کے ساتھ یہ رائے تبدیل ہو جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کا آخری باب اور ری پبلکن پارٹی کی پوزیشن کے بارے میں ابھی نہیں لکھا گیا۔

اقوامِ متحدہ میں امریکہ کی سابق سفیر اور ساؤتھ کیرولائنا کی سابق گورنر نکی ہیلے 2024 کے صدارتی انتخابات میں ری پبلکن پارٹی کی جانب سے ممکنہ امیدوار ہو سکتی ہیں۔

نکی کا کہنا ہے کہ “ہمیں یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے ہمیں شرمندہ کیا ہے اور انہوں نے اس راہ کا انتخاب کیا جس جانب انہیں نہیں جانا چاہیے تھا۔”

نکی کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں ٹرمپ کو نہ ہی سننا چاہیے اور نہ ہی ان کی پیروی کرنی چاہیے۔ اُن کے بقول ہم وہ کچھ دوبارہ نہیں ہونے دیں گے جو ٹرمپ کی مدتِ صدارت کے آخری ایام کے دوران ہوا تھا۔

دوسری جانب ڈیموکریٹک سینیٹر ایمی کلوبچر نے ‘فاکس نیوز’ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ ٹرمپ ری پبلکن جماعت کے اب اہم کھلاڑی نہیں رہیں گے۔ “اس شخص نے جو کچھ کیا وہ سب امریکی عوام نے دیکھ لیا ہے۔”

سینیٹر لنڈسے گراہم کا کہنا تھا کہ ری پبلکن جماعت کے 50 میں سے سات سینیٹرز نے ایوانِ بالا میں ٹرمپ کے مواخذے کی کارروائی کے دوران سابق صدر کے خلاف ووٹ دیا۔ لیکن ٹرمپ ری پبلکن جماعت کے اپنے حامیوں کی سپورٹ کے ساتھ بھرپور جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔

گراہم کے بقول ان کے خیال میں ٹرمپ چھ جنوری کو کیپٹل ہل پر حملے کے ذمے دار نہیں ہیں۔ حملے سے قبل وائٹ ہاؤس کے باہر ان کی حامیوں سے تقریر سیاسی تھی۔

ٹرمپ کا مواخذہ: میری توجہ کرونا کے خاتمے پر ہے، بائیڈن

تاہم بعض ری پبلکن سینیٹرز گراہم کی اس رائے سے متفق نہیں۔

سینیٹ میں ری پبلکن پارٹی کے رہنما مچ مکونل نے ٹرمپ کے ٹرائل کے حق میں ووٹ تو نہیں دیا کیوں کہ ان کے خیال میں سینیٹ کو کسی سابق صدر کے مواخذے کا اختیار حاصل نہیں۔ لیکن مواخذے کی کارروائی کے اختتام پر انہوں نے کہا کہ ٹرمپ چھ جنوری کو ہونے والے واقعے کے اخلاقی طور پر ذمہ دار تھے۔

ان کے بقول وہ لوگ جنہوں نے کیپٹل ہل پر حملہ کیا، انہیں یقین تھا کہ وہ صدر کے حکم اور خواہش کے مطابق ایسا کر رہے ہیں۔

ٹرمپ کے مواخذے کے حق میں ووٹ دینے والی سات ری پبلکن سینیٹرز میں شامل سینیٹر لیسا مرکوسکی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ چھ جنوری کو ہونے والے پرتشدد واقعے اور “بغاوت” کے لیے صدر ٹرمپ کے اقدامات کو آزادیٔ اظہار کا تحفظ حاصل نہیں ہے۔

اُن کے بقول “آئین آزادیٔ اظہار کا حق دیتا ہے لیکن یہ حق امریکہ کے صدر کو تشدد بھڑکانے کی اجازت نہیں دیتا۔”

یاد رہے کہ چھ جنوری کو سابق صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے باہر اپنے سیکڑوں حامیوں سے خطاب کے دوران اُنہیں کیپٹل ہل کی طرف مارچ کرنے کی ترغیب دی تھی۔

سابق صدر کا کہنا تھا کہ انہیں امریکہ کو بچانے کے لیے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ ٹرمپ نے یہ خطاب اس وقت کیا تھا جب کیپٹل ہل میں جو بائیڈن کی انتخابات میں کامیابی کی توثیق کا عمل جاری تھا۔

وائس آف امریکہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وائس آف امریکہ

”ہم سب“ اور ”وائس آف امریکہ“ کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے مطابق ”وائس آف امریکہ“ کی خبریں اور مضامین ”ہم سب“ پر شائع کیے جاتے ہیں۔

voa has 3331 posts and counting.See all posts by voa

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments