پیرس کی خوبرو دوشیزہ اور لندن والا چور


ایفل ٹاور دیکھنے کے بعد میں دریائے سین کے پل پر کچھ دیر کے لئے بیٹھ گیا۔ ایفل ٹاور فولاد سے بنا ایک بلند ٹاور ہے جس کی بلندی ڈیڑھ ہزار فٹ سے بھی زیادہ ہے۔ جس کا ڈیزائن گستاؤ ایفل نے تیار کیا تھا۔ اگرچہ ابتدا میں اس کی تعمیر اور ڈیزائن کے خلاف پیرس کی اشرافیہ اور آرٹ کے دلدادہ لوگوں نے کافی مزاحمت کی لیکن آج یہ ٹاور فرانس اور پیرس کی پہچان بن چکا ہے۔

شہر بھر میں دریائے سین پر اس طرح کے کوئی چھتیس سینتیس پل ہیں لیکن جس پل پر میں بیٹھا تھا، یہ پل ٹاور کے قریب اور سامنے ہے۔ پل پر بیٹھا میں آتی جاتی دنیا کو دیکھ رہا تھا۔ اس اثناء میں میں نے منزہ سے کہا کہ تم کسی ایسے مقام اور زاویے کی تلاش کرو کہ جہاں سے مکمل ٹاور کا خوبصورت نظارہ کیمرے کی رینج میں آ سکے اور وہ اپنی فوٹو گرافی مکمل کر لے، یہ نہیں معلوم تھا کہ سب کچھ دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔

دریائے سین پیرس کے وسط میں سے گزرتا ہے اور اس کی اہمیت دنیا کے دس بڑے دریاؤں، دریائے ڈینیوب امریکہ کے دریا مس سیپی، لندن کے ٹیمز، روم کے ٹائیبر اور قاہرہ کے دریائے نیل سے کم نہیں۔ جہاں آج پیرس ہے وہاں ایک زمانے کسی انسانی آبادی کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ اگر یہاں کچھ تھا تو صرف یہی دریا تھا۔ دو ہزار سال قبل ایک پیریسی نامی قبیلہ یہاں آ کر اس کے کنارے آباد ہوا۔ وقت کے ساتھ ساتھ آبادی بڑھتی گئی، شہر پھیلتا رہا لیکن دریا کی اہمیت کم نہ ہوئی۔ یہ دریا سطح زمین سے کافی نیچے ہو کر بہتا ہے۔ اس لیے سطح زمین پر ہونے والی تمام شورشوں اور شور شرابوں سے ہمیشہ کنارہ کش رہا۔

وہ جولیس سیزر کا حملہ ہو، رومنوں کی فتح ہو، فرانس اور انگلینڈ کا سو سالہ یدھ ہو، شہر میں طاعون کے کالے سائے پھیل گئے ہوں، کیتھولک عقیدہ والوں کے جتھے پروٹسٹنٹ افراد کو ذبح کر کے ان کا خون ناحق بہا رہے ہوں۔ یہ ہر شورش اور ہر بلائے ناگہانی سے بے نیاز ہو کر اپنی دھن میں بہتا رہا۔ حتیٰ کہ احیائے علوم کا سورج طلوع ہوا، والٹیئر اور روسو کی تعلیمات پھیلیں، فرانسیسی انقلاب برپا ہوا۔ انسان کے بنیادی حقوق، شعور، مساوات اور انسانی آزادی کا غلغلہ بلند ہوا، مذہبی جبر سے نجات حاصل کر کے کلیسا اور مذہب کو ریاست سے الگ کر دیا گیا۔ سیکولر ریاست وجود میں آئی جس میں سرکار اور ریاست کا انسان کے عقیدے سے تعلق اور دخل اندازی ہمیشہ کے لئے ختم کر دی گئی۔

میں نے بہتے پانیوں سے کلام کیا کہ کہیں آگے جا کے اس میں کوئی تبدیلی تو نہیں ہو گی۔ ایک سبک سر لہر نے کہا سامنے دیکھ کر خود اندازہ کر لو، سامنے نظر پڑی تو انسانوں کے غول کے غول رنگ، نسل اور عقیدوں کی نفرتوں سے آزاد اپنی اپنی مسرتوں میں گم تھے۔ جس سے یہ تاثر واضح تھا کہ زندہ معاشروں کا ہر قدم آگے کی طرف بڑھتا ہے، پیچھے کی طرف نہیں۔

ہزاروں سال سے رنگ نسل اور مذہب کے نام پر جو لاکھوں کروڑوں انسانوں کو تہہ تیغ کیا گیا، اب ہم اس ذہنی تنگتائے سے بہت آگے نکل آئے ہیں، تم دیکھ نہیں رہے کہ یورپ کے یہود و نصاریٰ کے ملکوں میں لاکھوں مسلمان پناہ گزین سکون کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور ہم نے ان کو اس وقت قبول کیا جب ان کے ہم عقیدہ ملکوں نے ان کو سہارا دینے سے انکار کر دیا تھا، کیا اب بھی ہم یہود و نصارٰی تمہارے دشمن ہیں؟

میری نظریں دریا کی لہروں پر تھیں، میرے سامنے ایفل ٹاور تھا اور میرے اردگرد خوبصورت لوگوں کے قافلے تھے۔ چونکہ ان ایام میں چھٹیاں بھی ہوتی ہیں اور موسم بھی کھل جاتا ہے تو سیاحوں کا یورپی ممالک میں ایک سیل رواں ہوتا ہے، جن میں ایک سے ایک خوبصورت شکل آپ دیکھ سکتے ہیں۔

ہم تیسری دنیا کے لوگوں پر ظلم یہ کیا جاتا ہے کہ ہمیں بچپن میں کوہ قاف کی پریوں کے حسن و جمال کی کہانیاں پڑھائی جاتی ہیں اور جوانی میں عزت مآب طارق جمیل جیسے علما حوروں کے تخیلاتی حسن کی ایسی تصویر کھینچتے ہیں کہ ہم اپنی کم نصیبی پر تلملا کے رہ جاتے ہیں اور ہمارا دل و دماغ حسرتوں اور محرومیوں کی آماج گاہ بن جاتا ہے، پھر ہم خدا کی خوشنودی کی بجائے ان حوروں کے حصول کے لئے عبادت کی طرف رجوع کر لیتے ہیں۔

لیکن جب ایشیائی زرد سانولے اور جلے ہوئے رنگوں سے اکتائے ہوئے ہم یورپی ممالک میں حسن کی اس قدر فراوانی دیکھتے ہیں تو سب فرمودات بھول کر ان کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے رہ جاتے ہیں اور ان سے ہماری نظریں نہیں ہٹتیں۔ یہاں میرے سامنے ایک سے ایک ایسا حسین چہرہ نظر سے گزر رہا تھا جسے دیکھ کر سمجھ نہیں آتی تھی اسے چاند سے تشبیہ دوں یا ہنستے مسکراتے گلرنگ پھولوں سے۔ ان گنت روشن اور صبیح چہرے کہ دہن غنچہ سا، لب پنکھڑی گلاب سی، آنکھوں پر نظر پڑے تو چشم غزال کا خیال آئے، بدن کی تراش قیامت اور حسن ایسا جسے دیکھ کر آنکھیں نہیں بھرتی تھیں۔ میں حیرت و حسرت سے انہیں دیکھتا رہا۔

میں انہی تصورات میں بیٹھا تھا کہ ایک دوشیزہ اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوئی اور میرے اس قدر قریب آ کر کھڑی ہو گئی کہ مجھے اس کی قربت کی تپش پریشان کرنے لگی۔ ابھی میں سوچ رہا تھا کہ یہ حقیقت ہے یا میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں کہ ایک اور گوری اس کے مقابل دوسری طرف آ کر کھڑی ہو گئی۔ ایک لمحے کے لئے تو میں نے خود کو عدنان خان کاکڑ جیسا کڑیل جوان تصور کیا اور اپنی قسمت پر رشک کرنے لگا۔

پہلے والی حسینہ مجھ سے ہم کلام ہوئی۔ آپ ایشیا سے آئے ہیں، آپ کو پیرس کیسا لگا ہے، خاص طور پر ایفل ٹاور؟ آپ پہلی مرتبہ آئے ہیں یا پہلے آ چکے ہیں؟ آپ کسی اور یورپی ملک بھی کبھی گئے ہیں؟ بڑی اپنائیت سے سوال و جواب ہو رہے تھے کہ دوسری نے مجھے ایک کاغذ کی شیٹ پڑھنے کے لئے دی، میں نے ایک نظر اس پر ڈالی کسی چیرٹی ٹرسٹ کی طرف سے انگلش زبان میں امداد کی اپیل تھی جس پر ڈونرز کے نام لکھے ہوئے تھے اور ان کے سامنے وہ رقومات درج تھیں جو انہوں نے امداد میں دی تھیں۔ ان کا مقصد تھا کہ میں بھی اس سلسلے میں اپنے عطیے کا اندراج کروں، ابھی میں پڑھ رہا تھا کہ اس نے دونوں ہاتھوں سے وہ شیٹ زور سے میری آنکھوں پہ چپکا دی اور میری آنکھیں بند ہو گئیں اور اس اثنا میں دوسری نے میری جیب سے ایک سو یورو کا کرنسی نوٹ نکالا جو پاکستانی اٹھارہ انیس ہزار روپوں کے برابر تھا اور دیکھتے دیکھتے دونوں بھاگ گئیں۔

میں اٹھ کر ان کے پیچھے بھاگا، انہوں نے سوچا ہو گا کہ یہ جو دریا کنارے اقبال کی طرح بیٹھا ہے مسلم تہذیب کے زوال کے غم میں سوگوار، اپنے شاندار ماضی کے طلسم میں ڈوبا رہے گا اور ہم آرام سے پیسے لے اڑیں گی لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ یہ زمانہ ساز آدمی سائے کی طرح پیچھے لگا ہے تو انہوں نے کرنسی نوٹ پھینک دیا اور پہلے سے بھی تیز بھاگ کھڑی ہوئیں۔ میں نے نوٹ اٹھا لیا اور جب مجھے گوہر مقصود مل گیا تو مجھے مزید ان کے پیچھے بھاگنے کی کیا ضرورت تھی۔ میں واپس پل پر آ کر بیٹھ گیا لیکن یہ واقعہ دیکھ کر ایک دنیا ہمارے گرد اکٹھی ہو گئی، جن میں سیاح بھی تھے اور مقامی لوگ بھی اور ان میں کالے بھی تھے۔ ایک کالا جو یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا، اس سے نہ رہا گیا خدا جانے اس کی وجہ پردیسیوں سے محبت تھی یا گورے کالے کی نسلی چپقلش، بہرحال وہ اس دوشیزہ کے پیچھے بھاگا اور دور سے اس کو پکڑ کر لے آیا۔

ساری زندگی مجرموں سے واسطہ پڑا رہا، مجھے اچھا نہ لگا کہ ایک معصوم صورت دوشیزہ کو پولیس کے حوالے کروں یہ تو اس کی بے وقوفی تھی، ویسے مانگ لیتی تو کیا ہم نے انکار کرنا تھا۔ کسی مصیبت زدہ اور ضرورت مند کی امداد کرنا ہم مسلمانوں کا ”فرض اولیں“ ہے اور خاص طور پر صنف نازک کی مدد کے لئے تو ہر وقت تیار رہتے ہیں۔

میں ابھی اسے جانے کا اشارہ کر رہا تھا کہ منزہ نے اسے پکڑ کر جھنجھوڑا اور ایک تھپڑ رسید کر دیا، پھر دوسرا تھپڑ۔ مجمعے کا پریشر بھی تھا اور ہمارے محسن کالے کا بھی کہ اس کی تلاشی کر کے پولیس کے حوالے کیا جائے۔ میں نے منزہ کو روکا کہ تم پاکستان میں نہیں ہو، یہاں پیرس میں تو پولیس بھی جسمانی تشدد نہیں کرتی۔ جب تلاشی شروع کی گئی تو اس سے ایک موبائل نکلا اور پھر دس دس یورو کے پانچ نوٹ۔ اس نے کہا اس کے علاوہ کچھ نہیں۔

آوازیں آئیں ان کی مزید تلاشی لیں انہوں نے اندر کئی خانے بنائے ہوتے ہیں۔ میں حیران تھا کہ اس مختصر ترین شرٹ کے اندر کیا کیا رکھا جا سکتا ہے لیکن ان کی بات سچ نکلی وہاں تو خزانہ تھا۔ اس نے آہستہ آہستہ پولیس کے خوف سے مختلف مقامات سے پچاس پچاس یورو کے دو مزید کرنسی نوٹ نکالے اور منزہ کے حوالے کر دیے۔ اب منزہ کے ایک ہاتھ میں موبائل تھا اور دوسرے ہاتھ میں بے شمار کرنسی نوٹ تھے۔ میں نے منزہ کو اشارہ کیا کہ اسے یہ سب واپس کر کے جانے دو۔ گوری نے جونہی اشارہ دیکھا تو بغیر اپنی چیزیں واپس لیے لمبے لمبے ڈگ بھرتی غائب ہو گئی۔ کالا اس کے پیچھے پھر بھاگنے کی تیاری میں تھا، میں نے اسے روک دیا۔

مجمع آہستہ آہستہ چھٹ گیا، میں ایک طرف بیٹھ گیا۔ منزہ موبائل اور کرنسی نوٹوں کا مال غنیمت لے کر پریشان کھڑی تھی کہ یہ سب کچھ کیا ہو گیا۔ میرے ہنسنے پر اس نے پوچھا آپ کیوں ہنس رہے ہیں۔ میں نے کہا مجھے ایک چور یاد آ رہا ہے وہ کسی مکان میں چوری کرنے کے لئے داخل ہوا تو مالک مکان جاگ رہا تھا۔ چور نے ایک کمرے میں چادر بچھائی کہ چوری کا مال لے آ کر اس پر رکھے۔ مالک نے چادر اٹھا کر چھپا دی، وہ سامان لے کر آیا تو چادر غائب تھی۔ اس نے قمیض اتار کر اس پر سامان رکھا واپس آیا تو قمیض غائب تھی، پھر اس نے دھوتی اتار کر کچھ سامان رکھا اور ساتھ والے کمروں سے باقی سامان لے کر آیا تو مالک مکان نے دھوتی چھپا کر شور مچا دیا چور چور۔ چور نے دل میں کہا بڑے افسوس کی بات ہے ابھی بھی چور میں ہوں۔ میں نے کہا موبائل اور دگنی رقم سے محروم ہونے کے بعد وہ مظلوم بھی یہی سوچ رہی ہو گی کہ کیا ابھی بھی چور میں ہی ہوں!

اور ادھر لندن میں بیٹھا ’تاحیات نا اہل‘ قرار دیا گیا شخص بھی سوچ رہا ہو گا کہ میرے جانے کے بعد جو ملک کی حالت کر دی گئی ہے کہ مخلوق خدا روٹی کو ترس گئی ہے، ملک میں بیروزگاری اور مہنگائی کا طوفان ہے، یہ کورونا سے پہلے کی تصویر ہے، اس کے بعد تو دن بہ دن غربت کے سائے بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ ملک کو غیر یقینی معاشی حالات کا سامنا ہے۔ نا اہلی کا یہ عالم ہے کہ پانچ سال صوبے میں اور وفاق میں آدھی مدت حکومت ختم ہونے پر اور 23 سال کی جدوجہد کے بعد ہمارے یونانی دیوتا کی طرح حسین فرمانروا فرماتے ہیں کہ اب تک ہمیں حکومت کی کوئی سمجھ نہیں تھی، اپنے ہی پائلٹوں کے خلاف بیان دے کر امریکہ، یورپ اور دوسرے ممالک میں پی آئی اے کی پروازیں بند کرا دیں اور ائرلئین کو مزید مالی تباہی سے دوچار کر دیا۔

بے عزتی کی انتہا یہ ہے کہ ایک دوست ملک نے ہماری ائر لائن کا طیارہ مسافروں سمیت روک کر کھڑا کر دیا ہے، کبھی گندم سکینڈل، کبھی چینی سکینڈل اور کبھی ادویات سکینڈل۔ وزراء اور مشیر کرپشن کر رہے ہیں، کوئی باز پرس نہیں اور عوام کو آئے دن ٹیکسوں کی بھر مار کا سامنا ہے، ہر ماہ کئی کئی مرتبہ پٹرول اور بجلی کی قیمتیں بڑھائی جاتی ہیں۔ ان سے مہنگائی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ عام انسان کا جینا دوبھر ہو گیا ہے۔ یہ سارے حالات دیکھ کر لندن میں بیٹھا معزول شخص بھی سوچتا ہو گا کہ
”اب بھی میں چور ہوں“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments