دو پوپ: ایک منفرد ڈراما فلم


’’ہماری آج کی دنیا ہر گزرتے دن ظلم میں دھنستی جا رہی ہے۔ یہ ظلم صرف دہشت گردی جبر اور نا انصافی ہی نہیں۔ اس کا سب سے بڑا ہتھیار وہ معاشی نظام ہے جس میں دنیا کی بیس فیصد آبادی کرۂ ارض کے وسائل پر قابض ہو کر باقی انسانیت اور آئندہ نسلوں سے جینے کا حق بھی چھین رہی ہے۔ جیسا کہ فرمان خداوندی یسوع ہے کہ کسی انسان کو ہرگز قتل نہ کرو۔ یہ حکم واضح حد قائم کرتا ہے کہ پیش قیمت انسانی جان کو حرمت اور تحفظ ملے۔ اس دور میں ہمیں اجتماعی طور پر ایک نئے فرمان کو اپنے اوپر لاگو کرنا ہو گا۔ ”انسان کا معاشی قتل بند کرو“ محرومیت اورعدم مساوات کو فروغ دیتا یہ استثنائی اقتصادی بندوبست، جس کی کل غائت صرف سرمایہ اب اسے متروک کر کے، بدل کر ہمیں انسانیت کے راستے کے اگلے پڑاؤ کا سامان کرنا ہو گا۔‘‘

یہ تقریر کسی انقلابی فلسفی کی نہیں بلکہ آرچ بشپ برگوگلیو کا خطاب جو انھوں نے 2007 میں بشپ شپ عطا ہونے پر کیا۔ حقیقت یہی کہ گزرتے وقت نے کھلی منڈی اور جمہوریت کے تضادات کو برہنہ کر دیا ہے۔ ”بہترین کی بقا“  (the survival of the fittest) ایک مسلمہ فطری قانون ہے؟ سردی کی شدت سے انسان ہلاک ہو جاتا ہے، یہی ایک قدرتی حیاتیاتی حقیقت ہے تو کیا وہ افراد جو اس ٹھنڈک سے بچاؤ کی اہلیت نہیں رکھتے، انسانی معاشرہ انہیں فطرت کے ہاتھوں موت کے لئے چھوڑ دے گا یا کوئی اجتماعی بندوبست کی کاوش کرے گا؟ بہترین اقلیت کے مرتکز شدہ ارضی وسائل و سرمائے کو ہمیں ہی کسی نظام کے تحت محروم اکثریت تک پہچانا ہو گا۔ یہ ہمارے عہد کی اجتماعی ناکامی ہے کہ سرمائے نے جمہوریت کو بھی یرغمال بنا رکھا ہے۔ سرمائے اور احساس کی یہ جنگ دراصل امن، انصاف، آزادی اور آسودگی کی جنگ ہے۔

آئیں واپس پلٹتے ہیں فلم کی جانب۔ یہ اک نیم آب بیتی نما ہے جو موجودہ پاپائے روم پوپ فرانس کے گرد گھومتی ہے۔ دوسرا اہم کردار ان کے پیشرو، پوپ پاپائے بینی ڈیکٹ جوزف ریٹینبز گر ہیں ، جنہیں انتھونی ہاپکنز نے اپنی سکہ بند مہارت سے ادا کیا ہے۔ دونوں کردار متضاد شخصیات کے حامل ہیں اور یہی تضاد ان کے مکالمہ جات کو دلچسپ اور بامعنی بناتا ہے۔ فلم ڈائریکٹر نے بہت عرق ریزی سے باریک اور مہین نکتے بہت عمدہ طریقے سے اٹھائے ہیں اور کچھ مناظر تو گویا دعوتِ دید ہیں۔

ابتداء میں پوپ کے لئے کارڈینلز(Cardinals) کا اکٹھ اور الیکشن اس خوبصورتی سے بیان ہوئے۔ چرچ کی روایتی عمارت دروازے کا ایک مخصوص کنڈا، خاص قسم کے دھاگے سے سوئی کی مدد سے کاغذی ووٹوں کو پرونا، ووٹرز کی گنتی کے لئے کلیسائی عہد (Christianic Vows) سے کندہ شدہ پتھر جو کہ گول ہے ، کو ایک خاص انداز سے ایک کلاسیکل برتن میں پھینکنا اور پوپ منتخب ہونے کی نوید بیرونی دنیا کو دینے کے لئے چمنی سے دھویں کا اخراج ، تمام تر روایات کو احسن طریقے سے فلمایا گیا۔ فلم کا مزاج پر مزاح ہے کہ دو بوڑھے پادری اپنی اپنی دلیل سے لیس ہو کر مکالمہ آراء ہیں۔

پوپ فرانس نسبتاً کھلے ڈھلے مزاج کے خوش دل انسان ہیں، جو آرجینٹزبن کلچر کے مطابق فٹ بال اور ٹینگو ڈانس کے شائق، لوگوں میں گھلنا ملنا پسند کرتے جبکہ پوپ بٹینڈیکٹ گھٹے ہوئے آدمی جو حد سے زیادہ رکھ رکھاؤ کے قائل ہیں۔ Palace of Castel Ganflo جو کہ پوپ بٹینڈیکٹ کی موسم گرما کے لئے مختص رہائش گاہ ہے۔ جھیل کنارے آباد پہاڑوں میں گھرے ہوئے اسی مقام پر دونوں کرداروں کی پہلی ملاقات کو دکھایا گیا ہے۔

پوپ بینیڈیکٹ، برگوگلیو کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ ہم چرچ کی روایت جو دو ہزار سے چلی آ رہی ہے، عوامی دباؤ کے تحت ہرگز بدل نہیں سکتے تو برگوگیلو برجستہ جواب دیتا کہ ہم نے اپنے آخری برس صرف اس بات پر صرف کر دیے کہ چرچ سے اگر کوئی اختلاف کرے تو اس تادیب ہو ، خواہ وہ طلاق کا مسئلہ ہو یا ضبط تولید کا معاملہ ۔ جب ہمارے سیارے کو تباہ کیا جا رہا تھا، جب عدم مساوات اور معاشی نابرابری سرطان کی طرح پھیل رہی تھی تو ہمیں بس یہ فکر تھی کہ درس صرف لاطینی میں دینا ہی افضل ہے؟ اور کیا خواتین کو Altar Service میں شرکت کی اجازت ہونی چاہیے؟

بینیڈیکٹ جو کہ طبعاً قنوطی ٹھہرا، لوگوں کو مذہب اور خدا سے دوری کا ذمہ دار قرار دیتا ہے۔ ادھر بھی برگوگیلو اپنی روشن فکر سے اجالا دیتا کہ مذہب نے خود اپنے آپ کو لا تعلق بنایا، بدلتے دور کے بدلتے تقاضے اور سوالات کبھی مذہب اور چرچ کا مخاطب نہیں بنے۔ ہم ہمیشہ دیوار کھڑی کرتے رہے جبکہ ہمیں پل بنانے تھے اور ہمدردی (Empathy) ہی وہ ڈائنامائٹ ہے جس سے ہم یہ دیواریں گرا سکتے ہیں۔ لکھاری میکارٹن کو داد کہ ایک اہم نکتہ کس غیر محسوس طریقے سے ہمیں پڑھا گیا۔

ایک دلچسپ منظر یہ کہ پوپ بینیڈیکٹ، برگوگلیو کو قائل کرنے کے لیے اس کے پرانے دور جوانی کے نظریات جو کہ قدامتی ہیں، کا حوالہ دیتا ہے اور کہتا ہے تم اب سمجھوتا کر چکے ہو۔ جس ادا سے اداکار پیئرس (John Pyrce) (جنہوں نے برگوکیلؤ کا کردار نبھایا اور سر سے پاؤں تک نبھایا) گہری سنجیدہ مسکراہٹ کے ساتھ کہتے ہیں: میں بس بدلا ہوں۔ یہ منظر سمجھوتے اور ارتقا کا فرق اٹھا گیا ہے۔

فلم کے آخری حصے میں جب دونوں کردار باہم دوست ہو چکے اور بینیڈیکٹ، برگوگلیو کو پاپائیت قبول کرنے کی پیش کش کرتا ہے تو معلوم ہوتا کہ برگوگیلؤ کی حیات تو پچھتاوے اور پیشمانی کا پلٹاوا ہے۔ اپنی جوانی میں وہ اختیار اور انا کے دام میں اپنے ساتھیوں سے دغا کر کے عسکری آمریت (Junta) کا نہ چاہتے ہوئے بھی ساتھ دیتا ہے ، ساتھی پادری گرفتار کیے جاتے ہیں،انہیں سزائیں دی جاتیں ہیں، وہ تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ برگوگلیو اب کاوش کے باوجود ان کی کوئی مدد نہیں کر پاتا۔

پھر جمہوریت بحال ہوتے ہی اسے وطن بدر کیا جانا ، جہاں وہ دو سال شفاء خانے میں خادم کی حیثیت سے گزارتا ہے اور اپنی فکری اصطلاح کے راستے پر چل پڑتا ہے۔ برگوگلیو کا وہ دوست جسے اس سے زک پہنچی تھی ، جب 5 سال بعد اسے معاف کرتا ہے اور وہ بغل گیر ہوتے ہیں ، یہ جذباتی منظر راقم الحروف کے دل کو بھی پسیج گیا۔ دوسرا پچھتاوا جو ہمارے مرکزی کردار کو لاحق ہے ، وہ اپنی محبت کو پادری بننے کے اچانک فیصلے کی وجہ سے یک لخت ترک کرنا ہے۔ ماضی کی خطاؤں کو درست کرنے کے لئے وہ اپنی محبت کو وسعت دے کر انسانیت کو افق بنا لیتا ہے۔

فلم ایک فکری تجربہ ہے ، جس کی دیکھت ذہن میں کئی درکھولتی ہے۔ مذہب، سیاست، معیشت، محبت، دوستی، ذات کے سفر جیسے موضوعات کو چھیڑتی یہ فلم اس سال کا تحفہ ہے۔

آخری بات یہ کہ متنازع اورحساس موضوع یعنی چرچ کی (Pedophilia) بچے بازی جیسے مسئلے کو بھی بہادری سے بیان کیا گیا ہے۔ ہمارے یہاں تو زندگی ہی تماشا بنا دی جاتی ہے اگر کوئی ایسے مسئلے کی طرف اشارہ بھی کرے۔ پوپ فرانس کا اس بارے بے لچک موقف یوں بیان ہوا۔ ”اعتراف جرم صرف گناہ گار کو سکون دیتا ہے ، یہ مظلوم کی کوئی مدد نہیں کرتا! یہ گناہ ایک داغ نہیں زخم ہے ، جس کو دھونے چھپانے سے کچھ حاصل نہیں، زخم کا علاج کرنا ہو گا کہ مندمل ہو سکے ، اس بارے میں صرف معافی، کافی نہیں“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments