خواتین کی لڑائی اور آئس کریم والا


ویمن میڈیکو لیگل افسر (WMLO) کا عنوان پڑھتے ہی آپ کی چشم تصور نے ایک منظر کشی کر لی ہو گی۔ زخمی، لاش، پوسٹ مارٹم وغیرہ وغیرہ۔ عام طور پر لوگ میڈیکو لیگل افسر کو کٹھور اور احساس سے عاری گردانتے ہیں کیونکہ وہ زخموں کا حساب کتاب اور لاشوں کی چیر پھاڑ ایسے کرتے ہیں جیسے خاتون خانہ باورچی خانے میں آلو بینگن کے ساتھ کرتی ہیں۔

درحقیقت میڈیکو لیگل افسر جان جوکھم میں ڈال کر اپنے فرائض منصبی انجام دیتے ہیں، خطرناک مجرم اور ان کے حواری اپنی مرضی کی رپورٹ کے لئے ہر قسم کا دباؤ ڈالتے ہیں اور کبھی تو آتشیں کھلونے کے استعمال سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ لیکن خاطر جمع رکھیے، آج ہم ایسی کوئی بات نہیں کرنے جا رہے جو آپ کی طبع نازک کو مکدر کر دے۔

میں اس وقت کراچی کے سب سے بڑے ہسپتال میں بطور ویمن میڈیکو لیگل افسر کام کر رہی تھی۔ دن کے یہی کوئی گیارہ بجے تھے۔ میں اور ڈاکٹر آصف ایمرجنسی وارڈ کے پہلو میں بنے ایم ایل او کے چھوٹے سے دفتر میں چائے کی چسکیاں لے رہے تھے۔

”چائے کا بل آج آپ دیں گے ناں ڈاکٹر آصف“ میں نے ڈاکٹر آصف کو چھیڑا۔

جب کبھی بل دینے کی بات آتی تو ڈاکٹر آصف طرح دے جاتے۔ ڈاکٹر فرحت کہتے ”نوٹ ان کی جیب میں ایلفی سے چپکا کے رکھے جاتے ہیں، فرار نہیں ہو سکتے۔

”بھئی آج تو کوئی کمائی نہیں ہوئی، کہاں سے بل دیں بھائی“ ۔ ڈاکٹر آصف نے حسب توقع ڈھٹائی سے کہا۔ اب اس کمائی کا مطلب وہی سمجھ پائیں گے جن کا کبھی ایم ایل او سے سابقہ پڑا ہو اور جن کا نہیں پڑا، وہ زیادہ بدمزہ نہ ہوں، سو فیصد ایم ایل او ایسے نہیں ہوتے جیسا کہ آگے چل کر آپ کو اندازہ ہو گا۔

ہاں تو میں کہی رہی تھی کہ ہم ادبی خوش گپیوں میں مصروف تھے کہ چپراسی دیدار نے فیمیل کیس کے آنے کی اطلاع دی۔ سپریم کورٹ کے تازہ حکم کے مطابق لیڈی ایم ایل او ہی خواتین کا معائنہ کرنے کی مجاز تھیں لہٰذا ڈاکٹر آصف کیس کی شمع میرے آگے سرکا کر اٹھ گئے۔

دو خواتین کا آپس میں جھگڑا ہوا تھا اور ہاتھا پائی کے بعد دونوں نے تھانے میں رپٹ درج کروائی تھی۔ جھگڑا معمولی بات پر شروع ہوا تھا مگر یہ تو کوئی خاص بات نہیں، سارے ہی جھگڑوں کی ابتدا معمولی بات سے ہوتی ہے، بس ایک چنگاری بڑھ کر دہکتی آگ بن جاتی ہے۔

دونوں خواتین کے بچے آپس میں کھیل رہے تھے۔ اب کھیل میں ایک ہارتا ہے اور ایک جیت پاتا ہے۔ جیتنے والے بچے نے ہارنے والے بچے پر پھبتی کسی۔ لوزر، لوزر ( looser)۔ ہارنے والا بچہ تلملاتا ہوا ماں کے پاس پہنچا اور دہائی دی۔ ماں فوراً ہی جنگلہ پھلانگ کر پڑوسن سے مناظرہ کرنے پہنچ گئی۔ جیتنے والے بچے کی ماں نے اپنے لاڈلے کو شہ دیتے ہوئے کہا

”ہاں تو گیم لوز کیا تو لوزر ہی ہوا نا“

”اماں یہ بے ایمانی سے جیتا ہے“ ہارنے والے بچے نے خفت مٹائی۔ اماں تو پہلے ہی پڑوسن کے کرارے جواب پر جلی بیٹھی تھی بھڑک کے بولی

”یہ تو ہیں ہی بے ایمان لوگ۔ بے ایمانیوں سے تو یہ بنگلے بنائے ہیں۔‘‘

بس پھر کیا تھا دونوں جانب سے ایک دوسرے کی خاندانی حیثیت اور نجابت پر وہ لاف زنی اور دشنام طرازی کی گئی کہ الامان۔ نوبت نوچ کھسوٹ اور ہاتھا پائی تک پہنچی۔ ایک نے دوسری کا ہاتھ مروڑ کر جو دھکیلا تو وہ اوندھے منہ جا گری۔ بھاری بھرکم جثے کے نیچے دبا بازو گویا چٹخ گیا۔ درد سے چلانے کے ساتھ ساتھ وہ پڑوسن کے اگلے پچھلوں کو بد دعائیں بھی دیتی جا رہی تھی ۔ بچے دوڑ کر باپوں کو بلا لائے۔ شوہران اپنی اپنی مضروبہ بیویوں کو لے کر فیروزآباد تھانے پہنچے اور رپٹ درج کروائی۔

پولیس کے آئی او ( investigating officer ) کی معیت میں دونوں خواتین اسپتال اور اب ہمارے دفتر لائی گئیں۔ میں نے دونوں خواتین کا معائنہ کیا۔ ایم ایل فارم پر ان کے زخم، خراش، نیل اور سوجن کا اندراج کیا اور ایکسرے کروانے بھیج دیا۔ دیدار نے قریب آ کر رازدارانہ لہجے میں کہا ”ڈاکٹر صاحبہ آپ کو پتہ ہے زخمی بازو والی لیڈی کون ہے“ ۔ اور پھر میرے سوال پوچھنے سے پہلے ہی بتا دیا۔

”شہر کے مشہور آئس کریم پارلر کے مالک کی بیگم ہے۔ صاحب بہادر آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔‘‘
”بھیج دو“

سفید قمیض اور نیلی پتلون میں ملبوس لمبا پتلا آدمی اندر آیا، اس کی انگلیوں میں موٹی موٹی کئی انگوٹھیاں تھیں۔ ان ہی میں سے ایک کو گھماتے ہوئے بولا ”ایکسرے میں کیا آیا ہے“

”ابھی نہیں دیکھا“
”میں چاہتا ہوں آپ ایم ایل رپورٹ میں فریکچر لکھیں“ ۔
”اگر ہو گا تو ضرور لکھوں گی“
”او جی ہو نہ ہو آپ نے فریکچر لکھنا ہے تاکہ وہ رات حوالات میں رہے۔ سبق سکھانا چاہتا ہوں اس عورت کو۔‘‘

کسی خاتون کے لئے یہ انداز تکلم ناقابل برداشت تھا، میں نے اپنے اندر اٹھنے والے غیظ و غضب پر قابو پا کر صرف اتنا کہا ”ایکسرے تو آنے دیں“

”ڈاکٹر صاحب! میں نے سنا ہے 29 تاریخ کو آپ کی شادی ہو رہی ہے“ ۔
میں نے دروازے پہ کھڑے ہوئے خبر کے اس منبع کو خشمگیں نظروں سے دیکھا

”کتنے مہمان ہوں گے آپ کے؟ پانچ سو، ہزار، دو ہزار۔ آئس کریم میری طرف سے ہو گی۔ آپ کو تو پتہ ہو گا سارے شہر میں ہم سے اچھی آئس کریم کوئی نہیں بناتا۔ بس آپ رپورٹ میں فریکچر لکھ دیں۔‘‘

اس لن ترانی کے جواب میں میں نے صرف اتنا کہا ’’آپ باہر بیٹھ کر رپورٹ کا انتظار کریں۔ ”

سوچیں ڈاکٹر صاحب آپ کا صرف قلم چلے گا اور براتیوں کا منہ میٹھا بلکہ ٹھنڈا میٹھا۔ جاتے جاتے اس نے کہا۔

”ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے“

جو رشوت لینا نہیں چاہتا، اسے مجبور کیا جاتا ہے اور جو مجبور ہوتا ہے، اسے رشوت کے بغیر انصاف نہیں ملتا۔ سر میں درد ہو گیا تھا ۔ میں نے دیدار سے چائے لانے کو کہا۔

”گرمی ہے ڈاکٹر صاحبہ! چائے چھوڑیں آئس کریم منگوائیں۔ وہ دانت نکالتے ہوئے بولا
”آئس کریم کون کھلا رہا ہے بھائی“ ڈاکٹر آصف اندر آتے ہوئے بولے۔ دیدار نے انہیں ماجرا سنایا
”پھر کیا خیال ہے“

ابھی میں کوئی سنسناتا ہوا جواب دینے لگی تھی کہ پولیس والے ایک زخمی مرد کو لیے داخل ہوئے۔ چہرے اور گردن سے رستا ہوا خون، سوجے ہوئے ہونٹ، چاک گریباں۔ آئی او نے بتایا کہ موصوف ڈاکہ مارنے کسی دکان میں گھسے تھے کہ دھر لیے گئے، عوام کے ہاتھ لگے تو خوب خاطر داری ہوئی۔ ڈاکٹر آصف معائنہ کرنے گئے۔ وہ ڈاکٹر صاحب کے چھوتے ہی کراہ اٹھا۔

”ڈاکو صاحب بہت درد ہو رہا ہے“ ڈاکٹر آصف کے ”ڈاکو صاحب“ کہنے پر آنے والی ہنسی کو میں نے بمشکل روکا۔
”جی ڈاکٹر صاحب بہت مارا ہے“
”تو ڈاکو صاحب آپ ڈاکہ ڈالنے نہیں جاتے ناں“
”میں ڈاکو نہیں ہوں“

”او بکواس کرتا ہے جی“ آئی او نے لقمہ دیا۔ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے، پولیس مداخلت نہ کرتی تو عوام لیاری کی طرح زندہ جلا دیتے۔‘‘

”میں تو جی چھوٹا موٹا چور ہوں، ڈاکو تو وہاں بیٹھتے ہیں ایوانوں میں۔“
”بس کر، بڑی زبان چل رہی ہے تیری“ پولیس والے نے گھرکا۔
”بس یہی سلامت چھوڑی ہے ظالموں نے“ ڈاکو صاحب بھی خوب بذلہ سنج تھے

دیدار ایکسرے لے کر آ گیا تھا لہٰذا ڈاکو صاحب کو چھوڑ کر میں اپنے کیس کی طرف متوجہ ہوئی۔ ایکسرے میں کوئی فریکچر نہیں تھا۔ میں نے صاحب بہادر کو طلب کیا۔ میں ایم ایل فارم میں ایکسرے کی رپورٹ درج کر رہی تھی کہ وہ اپنی انگوٹھیاں گھماتا داخل ہوا اور میرے مقابل کرسی پر بیٹھ گیا، اس کے انداز میں نخوت تھی جیسے یقین ہو ایم ایل فارم پر چلنے والے میرے قلم کو خرید لیا ہو ۔ جانے یہ گمان اسے کیسے ہو گیا تھا۔

”الحمدللہ آپ کی بیگم کا ایکسرے بالکل ٹھیک ہے کوئی فریکچر نہیں۔
” الحمدللہ۔ لیکن رپوٹ تو آپ فریکچر کی دیں گی“
”نہیں“ سپاٹ لہجے نے اس کا بھرم میں نے مسمار کر دیا۔
”ڈاکٹر صاحب آپ جو کہیں گی خدمت ہو جائے گی“

میرے جوتے کا تسمہ ٹوٹ گیا ہے۔ ہسپتال کے صدر دروازے کے ساتھ ایک موچی بیٹھا ہے میرا جوتا مرمت کروا کے لا دیجیے”

غصے کی تمازت سے صاحب بہادر کا چہرہ سرخ ہو گیا۔

”لگتا ہے نئی آئی ہیں اس فیلڈ میں۔ بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے ابھی آپ کو۔ وہ جھٹکے سے اٹھا اور کمرے سے نکل گیا۔

میں نے ایم ایل فارم پر دستخط کر کے دیدار کے حوالے کیا تاکہ اے پی ایس (additional police surgeon) کے دفتر میں دے آئے۔ ڈیوٹی کا وقت پورا ہو چکا تھا میں گھر جانے کے لیے اٹھ گئی۔ سوچ رہی تھی کہ شادی کے مینو میں سے آئس کریم کا آئٹم ہی نکال دیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments