شادی پر بے جا اخراجات عقل مندی نہیں!



معاشی طور پر کمزور طبقے کی زندگی میں چند موقعے بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں جس کے لئے وہ کئی سال منصوبہ بندی کرتے ہیں اور پھر اس خواب کو پورا کرنے کے لئے مختلف قسم کے جتن کرتے ہیں۔ ان چند موقعوں میں ایک موقع شادی کا ہے۔ شادی مطلب بہت ساری محافل ۔ برات، ولیمہ، مایوں، منگنی اور اس کے علاوہ ڈھولکی، قوالی نائٹ، چوتھی اور بھی درجنوں چھوٹی تقریبات بھی اس سلسلے میں شامل ہیں۔

زندگی کے خاص موقعے کو یادگار بنانے کے لئے اس طرح کی تقریبات برپا کرنے میں قطعی کوئی قباحت نہیں لیکن اگر ان تقریبات کے بعد آپ کئی سال تک پریشان رہیں تو اس طرح کی خوشیاں کس بات کی بھلا؟ دو تین دن کو یادگار بنانے کے لئے اگلے تین چار سال تک پریشانی میں رہنا کہاں کی عقلمندی ہے؟ آج کل کی شادیوں کا خرچہ اتنا بڑھ چکا ہے کہ اگر ہاتھ بہت روک کر بھی کریں تو 6 سے 8 لاکھ روپے تو لگنے ہی لگنے ہیں اور اگر لڑکی کی ہو تو خرچہ مزید بڑھ جاتا ہے۔

یہ خرچہ وہ ہے جو بہت کھینچ تان کر ہے ورنہ اگر تھوڑا سا بھی ہاتھ کھولیں تو ہزاروں لاکھوں روپے اوپر لگ جائیں گے اور خرچہ بھی کنٹرول میں نہیں آئے گا۔ جس کے پاس اچھی خاصی رقم ہے اس کے لئے مسئلہ نہیں وہ جیسے چاہے ہلہ گلہ کرے مگر مڈل کلاس اور مزدور پیشہ طبقے کے لئے اتنی بڑی رقم جمع کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اور وہ لامحالہ اس کے لئے رقم ادھار لیتا ہے۔ دولہا خود ہو یا دلہن کا باپ وہ اس سسٹم میں اتنا مجبور ہو جاتا ہے کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی لاکھوں روپے ادھار لے کر یہ فنکشن کرتا ہے کیونکہ معاشرتی طور پر جکڑا ہوا ہے۔ شادی کی تقریب ہو جاتی ہے اور اگلے ہی ہفتے سے ادھار دینے والا گھر کے باہر آنا شروع کر دیتا ہے۔ اس طرح کبھی ڈیکوریشن والا تو کبھی پکوان والا، کبھی کسی کی کال تو کبھی کسی کا چکر گھر پر لگتا رہتا ہے جس سے اہل خانہ اذیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔

یہ کیسی خوشی ہے جو اگلے کئی سالوں تک آپ کو ذہنی و مالی پریشانی کا شکار کر کے رکھتی ہے؟ جس دن کو یادگار بنانے کے لئے یہ عمل کیا وہ تو گزر گیا مگر اگلے سینکڑوں دن عذاب بنا گیا۔ ذرا سمجھیے معاشرے میں برائیوں کے بڑھنے کی ایک بڑی وجہ یہ مہنگی اور دکھاوے کی شادیاں بھی ہیں۔ تین گھنٹے کی تقریب، تین لاکھ کا خرچہ اور تیس مہینے کا درد سر آخر کیوں؟ یہ معاشرے کا کریہہ چہرہ ہے جس پر میک اپ کر دیا جاتا ہے اور لوگ اسے بہت حسین سمجھتے ہیں۔

دولہا دلہن ہوش مندی سے کام لیں اور اگر آپ کو اختیار ہے تو اس قسم کے خرچوں سے بچیے، فضول خرچ سے بچیے، یادگار بنانا ہے تو اپنے آنے والے وقت کو یادگار بنائیں، پیسے خرچ کرنے ہیں تو اپنے اوپر کریں، گھومیں، پھریں، شاپنگ واپنگ کریں، پاکستان ٹور پر جائیں، اچھے سے اچھے ریسٹورینٹ میں کھانا کھائیں، ایک دوسرے کو تحفہ دیجیے، جو پیسے 3 گھنٹے میں لگنے ہیں انہیں آپ تین مہینے میں خرچ کیجیے۔ یاد رکھیے سب لوگ تیار ہو کر آتے ہیں ، 1، 2 ہزار روپے سلامی دیتے ہیں، کھانا کھاتے ہیں، طنز کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، ان کو بلا کر بھی مسئلہ رہے گا اور نہ بلا کر بھی، تو پھر ایسا کام کریں جس میں آپ کی نئی زندگی پرسکون میں ہو۔

آخر میں ایک واقعہ سنیے، گزشتہ دنوں ایک قریبی عزید کی شادی ہوئی۔ شادی کیا تھی 5 دن کا ٹیسٹ میچ تھا، ایک مایوں پھر شادی پھر چوتھی پھر ولیمہ۔ تازہ نوشہ میاں ماضی کے تجربوں کے مطابق انتہائی کنجوس رہے ہیں اور گزشتہ کئی برس سے اس مقصد کے لئے اچھے خاصے پیسے بھی جمع کیے مگر دھچکا مجھے اس وقت لگا کہ جب معلوم ہوا کہ دولہا میاں نے اس مقصد کی تکمیل کے لئے ادھار لے رکھا ہے۔ 5 روزہ تقریبات میں سے تین میں 8 لاکھ لگ گئے۔ اب اگلے دو سال تک وہ اپنی محدود سیلری سے پیسے کاٹ کر یہ قرض بھرتا رہے گا اور جب اس کے انجوائے کرنے، گھومنے پھرنے کے دن ہیں وہ ادھار والوں سے چھپتا پھر رہا ہو گا۔ کیا فائدہ ایسے یادگار دن کا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments