شہزادی لطیفہ: متحدہ عرب امارات میں خواتین کو کتنی آزادی حاصل ہے؟


لطیفہ کا ویڈیو پیغام ان کے فرار کی کوشش کے بعد جاری کیا گیا تھا

دبئی کی شہزادی لطیفہ کے کیس نے دنیا کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔

شہزادی لطیفہ دبئی کے حکمران کی بیٹی ہیں۔ خفیہ طور پر بنائی گئی ایک ویڈیو، جو انھوں نے بی بی سی کے ساتھ شیئر کی ہے، کے ذریعے شہزادی نے الزام عائد کیا ہے کہ سنہ 2018 میں ان کی جانب سے دبئی سے فرار ہونے کی کوشش کے بعد سے اُن کے والد نے انھیں یرغمال بنا کر رکھا ہوا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اُن کی جان کو خطرہ ہے۔

اس ویڈیو کے سامنے آنے کے بعد اقوام متحدہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ شہزادی لطیفہ کے معاملے کو متحدہ عرب امارات کے حکام کے سامنے اٹھائیں گے۔

شہزادی لطیفہ اپنے خاندان کی پہلی رکن نہیں ہیں جنھوں نے دبئی سے فرار ہونے کی کوشش کی ہے۔

جون 2019 میں شہزادی حیا بنت حسین، جو کہ شہزادی لطیفہ کے والد کی سابقہ اہلیہ ہیں، دبئی سے جرمنی فرار ہونے میں کامیاب ہوئی تھیں جس کے بعد انھوں نے وہاں پناہ لے لی تھی۔

شہزادی لطیفہ کی بہن شمسہ نے بھی ماضی میں فرار کی کوشش کی تھی جو ناکام رہی تھی۔

یہ ایک پریشان کن داستان ہے جو کہ خلیجی خطے کے مضبوط ترین شخص کے ظلم و جبر اور خاندان پر کنٹرول کی عکاسی کرتی ہے۔

یہ تو شاہی خاندان کی بات ہے تو ان لاکھوں دوسری خواتین کے ساتھ کا کیا ہوتا ہے جو دبئی اور متحدہ عرب امارات میں بستی ہیں۔ ان کی زندگیوں میں موجود مرد اُن کے بنیادی حقوق اور ان کے لیے موجود امکانات کے بارے میں کیسے فیصلہ کرتے ہیں؟


متحدہ عرب امارات میں عورتوں کو ووٹ دینے، کام کرنے اور جائیداد خریدنے کا حق حاصل ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم نے دبئی کو مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقی (ایم ای این اے) خطے میں صنفی مساوات کے حوالے سے دوسرا بہترین ملک قرار دیا ہے۔

مگر یہ درجہ بندی کن بنیادوں پر کی گئی اس کے سیاق و سباق کو جاننا بہت ضروری ہے۔

پہلی بنیادی بات یہ ہے کہ ورلڈ اکنامک فورم کی صنفی مساوات سے متعلق رپورٹ میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقی خطہ دنیا کے دیگر خطوں کے مقابلے میں صنفی مساوات میں سب سے کمتر درجے پر ہے۔ اس پورے خطے میں اسرائیل کے علاوہ کوئی بھی ملک صنفی مساوات کے حوالے سے بہتر قرار دیے گئے پہلے سو ممالک کی فہرست میں شامل نہیں ہے۔

متحدہ عرب امارات 153 ممالک کی فہرست میں 120ویں نمبر پر ہے۔

یہ بھی پڑھیے

دبئی کے امیر کی بیٹی شیخہ لطیفہ کہاں گئیں؟

’لاپتہ‘ اماراتی شہزادی کی تصاویر شائع کر دی گئیں

شیخہ لطیفہ: ’مجھے گولی مار دیں، گھر واپس نہیں جاؤں گی‘

اگرچہ متحدہ عرب امارات میں جنس کی بنیاد پر امتیازی سلوک کے خلاف قانون موجود ہیں تاہم اس میں صنف کی تفریق نہیں رکھی گئی۔

Princess Latifa bint Mohammed Al Maktoum and Sheikh Mohammed bin Rashid Al Maktoum

Getty Images / Princess Latifa

اگرچہ خواتین کو ’پرسنل سٹیٹس لا‘ کے تحت کچھ حقوق حاصل ہیں تاہم ان حقوق کو حاصل کرنے کے لیے کسی خاتون کو گھر کے مرد سربراہ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ گھر کا سربراہ خاتون کا شوہر یا کوئی اور مرد رشتہ دار ہو سکتا ہے جو کہ خواتین کو کچھ مخصوص چیزوں کے حصول کے لیے اجازت دیتا ہے۔

متحدہ عرب امارات میں گارڈین شپ کا قانون اتنا سخت نہیں ہے جتنا کہ سعودی عرب میں ہے۔

لیکن دوسری جانب جہاں خواتین کے پاس حقوق ہیں ان کے لیے عملی طور پر عدالت میں اپنا دفاع کرنا مشکل ہوتا ہے۔

عورت کی زندگی کا یہ ایک رخ جو اس کو متاثر کرتا ہے وہ اس کی شادی ہے۔ خاتون کو شادی کے لیے مرد گارڈین کی اجازت درکار ہوتی ہے۔

ایسا ہی معاملہ بچے کی کفالت اور وراثت کے حق کا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کے ساتھ بطور محقق منسلک حبہ ضادین کہتی ہیں کہ اس کے علاوہ غیر سرکاری قسم کی گارڈین شپ بھی یہاں اپنا وجود رکھتی ہے جو قانون میں تو نہیں واضح کی گئی لیکن وہ عملی طور پر معاشرے میں نافذ ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہاں بالکل ایسے مواقعات پیش آتے رہتے ہیں جہاں خواتین کو نوکری کی درخواست دینے یا رہنے کے لیے گھر حاصل کرنے سے قبل گارڈین کا اجازت نامہ دکھانے کو کہا جاتا ہے۔‘

اور یہ کیسز اس وقت زیادہ سامنے آتے ہیں جہاں بات شادی اور طلاق کے معاملات کی ہوتی ہے۔

خواتین کے لیے طلاق حاصل کرنا بھی ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ اس معاشرے میں مرد تو عورت کو خود طلاق دے سکتے ہیں لیکن جب کسی عورت کو طلاق دینی ہو تو اسے عدالتی حکم نامہ حاصل کرنے کے لیے درخواست دینی ہوتی ہے۔

گھریلو تشدد ایک اور معاملہ ہے جس میں خواتین مسلسل امتیازی سلوک برداشت کرتی ہیں۔

گذشتہ چند برسوں میں قانونی سطح پر کچھ مثبت تبدیلیاں سامنے آئی ہیں۔ مثال کے طور پر متحدہ عرب امارات کے قانون میں مردوں کو خواتین پر تشدد کی اجازت کو سنہ 2016 میں ختم کیا گیا۔ اسی طرح سنہ 2019 میں اس قانون کو بھی ختم کیا گیا جس کے تحت خواتین پر قانوناً پابند تھیں کہ وہ اپنے شوہروں کی ’تابعدار‘ بن کر رہیں۔

گذشتہ برس مارچ میں ایک نیا قانون آیا تھا جس میں خواتین کو پروٹیکشن آرڈر تک رسائی دی گئی جبکہ چند دیگر قانونی تبدیلیاں بھی لائی گئیں۔

اس نئے قانون میں گھریلو تشدد کی وضاحت کچھ ایسے کی گئی ہے کہ ’اس میں وہ دھمکی یا بدسلوکی بھی شامل ہے جو گارڈین شپ، اتھارٹی یا ذمہ داری کی حد سے آگے ہو۔‘ اس قانون کا مطلب یہ ہے کہ اب یہ جج کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ اس کے خیال میں جس شخص پر الزام لگا ہے اسے گھریلو تشدد کی بنا پر سزا دی جائے یا نہیں۔

چنانچہ عملی طور پر بدسلوکی کا شکار ہونے والوں کی حفاظت کے لیے قوانین اب بھی کمزور ہیں۔

ڈیون کینے خلیج میں ایمنسٹی انٹرنیشنل میں بطور محقق ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جو ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے وہ یہ ہے کہ ریاست ایسی متفرق چیزوں کو ختم کر رہی ہے جو اس نے قانون میں اپنے حساب سے لکھی ہوئی تھیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ صنفی مساوات کے حوالے سے رویہ کتنا بُرا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ انھیں ان امتیازی قوانین کی وجہ سے رپورٹ شائع کیے جانے پر سنہ 2014 کے بعد سے اب تک متحدہ عرب امارات میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ہمیں اس لیے اسی پر انحصار کرنا پڑتا ہے کہ ریاست اپنے قوانین میں کیا لکھتی ہے اور یہ ان کے صنفی مساوات سے متعلق رویوں کو بھی ظاہر کرتا ہے۔

ڈیون کینے نے کہا کہ اب بھی ان میں ظاہری اصلاحات کے بعد بھی ان قوانین میں امتیاز موجود ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس لیے ہم اس بارے میں شک و شبہ میں مبتلا ہیں کیونکہ اس سے ضروری نہیں یہ پتہ چلے کہ سماجی اور حکومتی رویوں میں کوئی بڑی تبدیلی آئی ہے۔

ہر انسان جو کہ متحدہ عرب امارات میں رہتا ہے یا وہاں جاتا ہے وہ ان قوانین کا پابند ہوتا ہے، اس میں سیاحوں کے لیے بھی کوئی چھوٹ نہیں ہے۔

ایسے کیسز بھی سامنے آئے ہیں جن میں دبئی میں چھٹیاں گزارنے کے لیے جانے والے سیاحوں کی ایسے ہی قوانین کی بنیاد پر گرفتاریاں بھی کی گئیں۔

سنہ 2017 میں ایک برطانوی عورت کو ایک سال کی سزا اس لیے سنائی گئی کیونکہ انھوں نے اپنی مرضی سے ایک شخص سے جنسی تعلق قائم کیا تھا۔

انھیں گرفتار کیا گیا تھا۔ خاتون کی جانب سے حکام کو بتایا تھا کہ یہ شخص انھیں دھمکی آمیز پیغامات بھجواتا ہے اور جب اس معاملے کی تفتیش کی گئی تو پولیس کو پتا چلا کہ خاتون کے ماضی میں اس شخص سے جنسی تعلقات تھے اور اسی بنیاد پر انھیں گرفتار کیا گیا اور سزا دی گئی۔

لیکن کیا یہ قوانین مختلف معاملات میں مساوی طور پر لاگو ہوتے ہیں۔

ایک خاص قانونی تبدیلی حال ہی میں نافذ کی گئی ہے۔ اس قانونی تبدیلی سے قبل خواتین کو کیٹگریز میں بناٹا گیا تھا جس کے تحت پہلے نمبر پر دولت مند غیرملکی خواتین کو رکھا گیا تھا، دوسرے نمبر پر اماراتی خواتین اور تیسرے درجے پر بیرون ملک سے تعلق رکھنے والی ایسی خواتین جو امارات میں بطور گھریلو ملازم کام کرتی ہیں۔

مسٹر کینے کا کہنا ہے کہ بظاہر لگتا ہے کہ متحدہ عرب امارات اب اس تقسیم کو ادارتی بنیادوں پر کر رہا ہے۔

’گذشتہ برس کے آخر تک انھوں نے دیگر چیزوں کے علاوہ پرسنل لا سٹیٹس میں اصلاحات کا پیکج متعارف کروایا تھا۔‘

یہ بات کھل کر رپورٹ کی گئی کہ اس کا مقصد سرمایہ بڑھانا ہے تاکہ ملک بیرون ملک سے آنے والوں کو سرمانہ لگانے کے لیے توجہ حاصل کرے۔

دبئی

ملکی پریس میں یہ بھی برملا کہا گیا کہ وراثت اور طلاق کے معاملے کے قوانین کو تارکین وطن کے لیے بدلا گیا ہے اماراتی عورتوں کے لیے نہیں۔

انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن، آئی ایل او کے کم اجرت حاصل کرنے والے تارکین وطن مزدوروں کے لیے سنہ 2017 میں سامنے آنے والے قانون کے مطابق سب سے زیادہ نقصان کا شکار ہیں۔ یہ لوگ متحدہ عرب امارات کی آبادی کا 80 فیصد ہیں۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ خواتین تارکین وطن کو بطور خاص جو کہ گھروں میں ملازمہ کی حیثیت سے کام کر رہی ہیں جنوب سے جنوب مشرقی ایشیا میں ہیں کے ساتھ سخت برتاؤ کیا جاتا ہے۔

کینے کا کہنا ہے کہ ان کام کرنے والے تارکین وطن کے پاس بہت کم حقوق ہیں۔ انھوں نے پینل کوڈ کے ایک آرٹیکل کا حوالہ دیا اور کہا کہ غیرت کے نام پر اتفاق رائے سے کی گئی خلاف ورزی پر کارروائی ہو سکتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ عملی طور پر یہ اتفاق رائے سے ہونے والے جنسی عمل کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال ہو رہا ہے خاص طور پر اگر یہ صنفی معیارات کو توڑ رہے ہوں۔

خاتون تارکین وطن جو کہ متحدہ عرب امارات کے ہسپتالوں میں حمل کے ساتھ آتی ہیں۔ جب وہ اپنے شوہر کو سامنے پیش نہ کر سکیں جو کہ اس حمل کا ذمہ دار ہے ان کے خلاف قانونی کارروائی ہوتی ہے۔

جو عورت شادی کے بغیر حاملہ ہو جائے اسے ایک سال سے زیادہ قید کی سزا ہوتی ہے اور بیرون ملک سے آنے والی خواتین کو یہ سزا ملک چھوڑنے سے پہلے پوری کرنی ہوتی ہے۔

متحدہ عرب امارات کے حکام کے حوالے سے گارڈئین کی رپورٹ متیں گذشتہ برس بتایا گیا ہے کہ چند ہزار ایسی تارکین وطن خواتین موجود ہیں جنھوں نے شادی کے بغیر بچے پیدا کیے ہیں۔

اسی طرح ریپ کا نشانہ بننے والی خواتین کو بھی شادی کے بغیر جنسی تعلقات رکھنے کے خلاف موجود قوانین کے مقدمہ چلایا جاتا ہے۔

سنہ 2015 میں بی بی سی عربی ایک تحقیق میں یہ پتہ لگایا تھا کہ سینکڑوں خواتین بشمول ریپ کا شکار ہونے والی خواتین کو ہر سال اس قانون کے تحت جیل جانا پڑتا ہے۔ اس میں سب سے زیادہ گھروں میں کام کرنے والی خواتین شامل ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp