مسلسل بڑھتی ہوئی آبادی، ہمارا کیا بنے گا؟


میرا خیال تھا پورے پاکستان میں فقط میں ہی وہ دکھیاری غموں کی ماری ہوں جسے وطن عزیز کی روز بروز بڑھتی ہوئی آبادی کے خیال سے ڈراؤنے خواب آتے رہتے ہیں۔ یہ سوچ کر ڈر لگتا ہے کہ آبادی کا جن تو سچ مچ اب بوتل سے باہر آ چکا ہے اور باہر نکل کر سوچ رہا ہے کہ جاؤں تو جاؤں کہاں۔ اس ملک پاکستان میں تو تل دھرنے کو بھی جگہ نہیں بچی۔ ننھے منے بلا مقصد پیدا کیے گئے کروڑوں بچے کاکروچوں کی طرح کونوں کھدروں سے نکل کر سب کچھ ہڑپ کرتے جا رہے ہیں۔

نہ روٹی ہے نہ پانی ہے، روندی ساڈی نانی ہے۔ بجلی گیس بھی کم کم دستیاب ہے۔ رقبہ سکڑ رہا ہے، سیمنٹ کے جنگل پھل پھول رہے ہیں۔ رہنے کے قابل صرف ڈی ایچ اے رہ گیا ہے۔ لوگ بھوک کے بازار میں ایمان، دھرم، آدرش، فلسفے عقیدے سبھی کچھ بیچ رہے ہیں، آخر میں کھانے کو کچھ نہیں بچے گا اور ڈر ہے کہ کسی دن ایک دوسرے کو ہی نہ چیر پھاڑ کر کھا جائیں۔ یقین جانیے یہ سب اس جن نے مجھ سے ہمکلام ہو کر خود کہا ہے۔ جھوٹ نہیں بول رہی۔

شکر ہے کہ مجھے اپنی ہی طرح کی ایک باولی دیوانی آبادی کے مسئلے پر پریشان اور فکرمند ڈاکٹر طاہرہ کاظمی مل گئی ہیں، جنہیں بھی یہی اندیشے ستاتے ہیں اور وہ بھی میری طرح تلقین شاہ بننے سے باز نہیں آتیں۔

ڈاکٹر صاحبہ کے ’ہم سب‘ میں تسلسل سے چھپنے والے کالم پڑھ کر میں اکثر سر دھنتی ہوں اور واہ واہ کی تسبیح پھرولنے لگتی ہوں کہ وہ ہمیشہ میرے دل کی بات کہتی ہیں۔ ان کے کالم ایک گہری سوچ لیے ہوئے ہوتے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے مطربہ شیخ کے ساتھ مل کر اسی موضوع پر ایک لائیو پروگرام بھی کیا جس میں کئی متعلقہ مسائل پر روشنی ڈالی۔ مستند ہے ان کا فرمایا ہوا کیونکہ وہ ایک ماہر ڈاکٹر ہیں۔ امراض نسواں اور زچگی کے معاملات خوب سمجھتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس آنے والی یا لائی گئی اکثر حاملہ خواتین اپنی صحت اور حمل کے معاملات کے بارے مین کچھ زیادہ علم نہیں رکھتیں۔ ساتھ آنے والے شوہر یا ساس صاحبہ ہی ڈاکٹر سے بات چیت کرتے ہیں۔ یوں جیسے ان کے جسم و جان اور کوکھ کے مالکان بس وہی بلکہ پورا خاندان ہو۔ عورت کو بیاہ لانے کے بعد وہی اس کے جملہ جسمانی حقوق پر قابض نظر آتے ہیں۔

جب ڈاکٹر صاحبہ اس بے زبان گائے سے آنے والی نئی روح کے بارے میں پوچھتی ہیں کہ بہن آٹھ عدد بچوں کے بعد اس نو نمبر کی آخر کیا ضرورت تھی تو وہ ہونقوں کی طرح اپنے گھر والے یا ساس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتی ہے کہ اس سلسلۂ بارآوری میں بھلا میرا کوئی عمل دخل اور حصہ داری کب بنتی ہے۔ میں نے تو ملن کے سمے ڈھنگ سے منازل مسرت بھی طے نہیں کیے تھے، جس کا صلہ مجھے اس ذمہ داری کی صورت مل رہا ہے۔

تو اس خاتون کا شوہر یا ساس صاحبہ کچھ یوں جواب دیتے ہیں کہ جی نئے بچے کا آنا تو اللہ کی مرضی سے ہے۔ ہمارا اس سے کیا لینا دینا۔ ڈاکٹر صاحبہ کی جگہ وہ جواب دینے کو پھر میرا جی کرتا ہے کہ اللہ کے بندے اگر پے در پے سہاگ رات منائے چلے جاؤ گے تو بیوی تو ہمیشہ مٹر کی پھلی کی طرح سے بھری پری ہی رہے گی۔

ڈاکٹر طاہرہ صاحبہ یہ سب سن کر سر پیٹ لیتی ہیں۔ پھر کہتی ہیں کہ بھئی اس عورت کی صحت تو دیکھو۔ یہ کوئی کاٹھ کی گڑیا نہیں گوشت پوست کا ایک انسان ہے۔ اس کا کچھ خیال کرو۔ اس کو بار بار مال بردار بنانے کی بھلا کیا تک ہے۔ مگر ایسی باتوں پر دھیان کون دیتا ہے۔ ایسی خواتین کے جسم اور کوکھ کے مالکانہ حقوق اس کے شوہر، ساس نندوں بلکہ پورے خاندان کے پاس ہوتے ہیں۔ وہ اس کو بیاہ لانے کے بعد اس کے جملہ جسمانی معاملات پر اپنی رائے کو ہی مقدم جانتے ہیں۔ ایسے سوالات پر وہ عورت ڈاکٹر صاحبہ کی طرف دیکھتی ایک بے بس اور کوئی ہونق مخلوق لگتی ہے جسے یہ شعور نہیں ہوتا کہ بارآوری کے اس عمل میں اس کی بھی کوئی حیثیت ہے۔

پاکستان کے حکم رانوں اور جاگیرداروں نے جان بوجھ کر عوام کو اب تک جاہل رکھا ہے تاکہ انہیں کبھی سمجھ اور شعور نہ آئے۔ وہ گدھے کے گدھے رہیں اور ان پر آسانی سے حکومت کی جا سکے۔ آبادی بڑھتی ہے تو بڑھے ان کی بلا سے۔ ان کے پاس وسائل ہیں۔ موج میلہ جاری ہے۔ ملک فقیر ہوتا جا رہا ہے۔ اور آج آبادی کا بم ملک کے چیتھڑے اڑا رہا ہے۔ بہت کچھ سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر صاحبہ کہتی ہیں مردوں کو ان کی بیویوں کے مسلسل بچے پیدا کرنے پر اس لیے اعتراض نہیں ہوتا کیونکہ وہ عورت کی زچگی کے مسائل سے قطعاً لاتعلق ہوتے ہیں۔ وہ اندر اندر سے اسی بات پر اتراے پھرتے ہیں کہ شکر ہے ابھی تک ان کی مردانگی کے قائم رہنے کے ثبوت مل رہے ہیں۔ بے نیازی کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ مالی دا کم پانی دینا اے، پھول آئیں نہ آئیں ان کا اس سے کیا لینا دینا۔ ان کو خبر بھی نہیں ہوتی کہ اس عمل میں ان کی نسل کی آبیاری کرنے والی کی اپنی ہڈیوں کی کتنی فاسفورس گھل رہی ہوتی ہے۔

بچے کو نشوونما کے لیے ہر نوع کی غذائیت اس ناتواں بدن سے مل رہی ہوتی ہے۔ بچے کے ابا جان اس حقیقت سے قطعی طور پر لاعلم ہوتے ہیں کہ کسی بھی انسانی شکم میں قریباً چالیس پونڈ وزنی ایسا پانی کا مٹکا فٹ ہو چکا ہو تو کیسا محسوس ہوتا ہے۔ اور اس مٹکے میں صرف پانی ہی نہیں ہوتا۔ ایک جیتا جاگتا وجود بھی ہوتا ہے جو گاہے بگاہے دولتیاں بھی مارنے سے باز نہیں آتا۔

حاملہ عورت کو کسی کل چین نہیں آتا۔ لیٹے کس رخ سوئے کس سمت۔ کھانا کھاتی ہے تو کلیجے پر دھرا رہتا ہے۔ کھٹی ڈکاروں سے طبیعت مکدر رہتی ہے۔ باتھ روم کے طواف کرتے کرتے عمریا بیتتی محسوس ہونے لگتی ہے۔ اور کلائمیکس سین کے سمے کی تکلیف کا تو مرد حضرات تصور بھی نہیں کر سکتے۔ درد کی محض ایک لہر کے آزار کا اگر ان کو ادراک ہو جائے تو وہ تو رسیاں تڑا کر بھاگ نکلیں۔ لیڈی ڈیانا نے کہیں فرمایا تھا۔ اگر مردوں کو بچے جننا پڑ جاتے تو دنیا کی آبادی اس بے ہنگم طریقے سے نہ بڑھنے پاتی۔

سچ کہا تھا۔ پاکستان مین زچہ عورتوں کی تعداد اور اموات غالباً سب ملکوں سے زیادہ ہے۔ دس بارہ بچے پیدا کرنے کے کار خیر میں اگر عورت بے چاری کام بھی آ جاتی ہے تو آخر کیا فرق پڑتا ہے۔ ابا جان ایک اور نئی عورت لے آتے ہیں۔ اپنے پیارے مغل بادشاہ کو ہی دیکھ لیں۔ وہی جنہوں نے اپنی لاڈلی ملکہ کے لئے تاج محل بنوایا تھا۔ اور ہم غریبوں کا دل جلایا تھا۔ نہ اس بے چاری کرم جلی ملکہ سے چودہ بچے جنواتے نہ ہی وہ راہ عشق میں جان سے ہاتھ دھوتی۔ سنتے ہیں کہ بادشاہ کو اس سے شدید محبت تھی مگر بعد از مرگ ملکہ میاں مجنون مزید شادیاں کرنے سے پھر بھی باز نہ آئے، وفا کیسی کہاں کا عشق۔

آج کے مشکل دور میں مردوں کو سوچنا اور خود اپنے حال پر رحم کھانا چاہیے۔ ورنہ وہ کولہو کے بیل کی طرح چکر کاٹتے۔ کما کما کر ختم ہوجائیں گے اور بچوں کی فوج کا پیٹ بھرنے والی آٹے کی بوری سکڑتی چلی جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments