ہمارا تصور ذات کیسے بنتا ہے؟(قسط سوم)


اب تک ہم یہ جان چکے کہ ہماری ذات کے دو حصے ہوتے ہیں۔ ایک تصور ذات یعنی ”Self Concept“ اور دوسرا ”Self Esteem“ ۔ تصور ذات سے مراد یہ ہے کہ ہم اپنی ذات کے متعلق کیا جانتے ہیں؟ جبکہ ”Self Esteem“ سے یہ مراد ہے کہ ہم اپنی ذات کے متعلق کیا سوچتے ہیں؟ یا کیسا محسوس کرتے ہیں؟ ہم پچھلی اقساط میں ذکر کر چکے ہیں کہ ہم اپنی ذات کے تصور ”Self Concept“ کی تعمیر میں کن کن عوامل اور ذرائع کا سہارا لیتے ہیں۔

ان عوامل میں اپنے رویوں کا مشاہدہ اپنے خیالات اور محسوسات کا علم، دوسرے لوگوں کا ہمارے ساتھ سلوک اور معاشرتی تقابل شامل ہیں۔ یہاں ایک سادہ مگر دلچسپ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جن عوامل کی مدد سے ہم اپنا تصور ذات تشکیل دیتے ہیں۔ کیا یہی عوامل دوسرے لوگوں کی ذات کے متعلق ہمارے تصور کا حصہ ہوتے ہیں؟ یا یوں کہیے کہ ہم اپنی ذات سے ہٹ کر دوسروں کے متعلق جو سوچتے ہیں، اس میں کون سے عوامل کردار ادا کرتے ہیں؟

اس قسط میں ہم اسی سوال کا جواب تلاش کرنے کی کو شش کریں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم اس مظہر پر تھوڑا سا غور کر لیں تو ہمارے معاشرے میں عدم برداشت جیسے رویوں کا سرے سے خاتمہ ہو سکتا ہے۔

جی تو بات یہ ہے کہ ہم دوسروں کے متعلق بھی اپنا تصور اسی طر ح بناتے ہیں جس طرح ہم اپنی ذات کا تصور بناتے ہیں۔ ہم ان کے اعمال کا مشاہدہ کرتے ہیں، ان کا رویہ دیکھتے ہیں اور یوں ان کی ذات کا تصور ہمارے دماغ میں نقش ہو جاتا ہے۔ لیکن یہاں کچھ دلچسپ پہلو ہیں جو کہ دونوں مظاہر میں فرق پیدا کرتے ہیں۔

سب سے پہلا فرق یہ ہے کہ ہم اپنی ذات کے متعلق دوسروں کی نسبت زیادہ جانتے ہیں۔ ہم نے اپنا رویہ مختلف حالات میں دیکھا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ کو یقیناً علم ہو گا کہ والدین کی موجودگی میں آپ اپنی گفتگو میں گالیوں کا کم استعمال کرتے ہو یا یہ کہ جب آپ کے دوست آپ کے گرد ہوتے ہیں تو آپ کا رویہ اور ذہنی حالت کس طرح کی ہوتی ہے۔ صبح اٹھ کر آپ ناشتے میں کیا کھانا پسند کرتے ہو اور کون سا موسم ہے جو آپ کو اداس کر دیتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

اس کے برعکس دوسروں کے متعلق آپ اس قدر علم نہیں رکھتے۔ آپ صرف خاص حالات میں ان سے ملتے ہو ، مثال کے طور پر کلاس روم میں یا کھیل کے میدان میں ، لہٰذا آپ ان کے متعلق زیادہ کچھ نہیں جانتے لیکن مصیبت یہ ہے کہ دوسروں کے متعلق ان تھوڑی سی معلومات کی بدولت ہی ہمارا ”تصور“ ضرور بن جاتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ دفتر میں اپنے باس (Boss) کا مشاہدہ کرتے ہیں اور اس خاص دفتر کی صورت حال میں یہ تصور قائم کر لیتے ہیں کہ وہ ایک جذباتی اور غصے سے بھرا شخص ہے جبکہ آپ اس کی نجی زندگی کے معاملات کے متعلق بالکل بھی نہیں جانتے۔

شاید وہ دفتر کے ماحول کو ایک خاص طرز پر لانے کے لئے سخت رویہ اختیار کرتا ہو۔ اس سب کی ہی بدولت جب ہم اپنی ذات کو دیکھتے ہیں تو لچکدار (Flexible) دیکھتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ٖفلاں صورت حال میں آپ مذاق کرنا چاہتے ہیں جب کہ فلاں صورت حال میں آپ بہت سنجیدہ ہوتے ہیں ، لیکن دوسروں کے متعلق جب ہم رائے بناتے ہیں تو یہ مختلف حالات ہمارے سامنے نہیں ہوتے۔ لہٰذا انہیں ہم ایک ہی رنگ میں دیکھتے ہیں۔ یا تو سخت یا پھر نرم۔ درمیانی کوئی راہ نہیں ہے۔

لیکن غور کریں کہ آپ اپنے بہت قریبی دوستوں، بہن بھائیوں اور قریبی رشتہ داروں کو یوں ایک ہی رنگ میں نہیں دیکھتے کیونکہ آپ نے ان کا مختلف حالات میں مشاہدہ کیا ہوتا ہے۔ تو سیکھنے کو یہ ملا کہ کسی کے متعلق ہم رائے تو فوراً قائم کر لیتے ہیں لیکن عمومی طور پر وہ غلط ہوتی ہے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہم ان کے ساتھ اچھا خاصا وقت گزاریں، مشاہدہ کریں کہ وہ مختلف حالات میں کس طرح کا رویہ اختیار کرتے ہیں اور پھر اس سب کے بعد ان کے متعلق رائے قائم کریں۔ اس سب کے بعد آپ کے سامنے یقیناً ان کی جو ذات آئے گی وہ لچکدار ہی ہو گی۔ یقین نہ آئے تو آزما کر دیکھ لیں۔

دوسرا فرق یہ ہے کہ ہم جب بھی کچھ کرتے ہیں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے دماغ میں کیا چل رہا ہے یعنی ہمیں اس عمل کے محرکات کا علم ہوتا ہے۔ مثال کے طور پہ آپ اپنے کسی دوست کے ساتھ غصے سے پیش آئے ہیں آج۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ آپ کو نوکری سے نکال دیا گیا ہے اور آپ نے اپنا غصہ اس دوست پر نکال دیا ہے۔ اب آپ کو اس غصے کی وجہ معلوم ہے لیکن دوسروں کو علم نہیں ہے تو بات یہ سامنے آئی کہ ہمیں جو کام دوسرے لوگ کر رہے ہوتے ہیں اس کا تو علم ہوتا ہے لیکن اس کام کے پیچھے محرکات یا سو چ کا علم نہیں ہوتا۔ اسی لیے ہم اس کے متعلق غلط رائے قائم کر لیتے ہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ یہاں بھی وہی نکتہ سامنے آتا ہے کہ جو لوگ آپ کے بہت قریب ہوں اور آپ سے اپنے جذبات اور خیالات سانجھے کرتے ہوں آپ اس قابل ہوتے ہیں کہ یہ جان سکیں کہ ان کے دماغ میں کیا چل رہا ہے فلاں کام کرتے ہوئے۔ اس فرق سے بھی ہمیں سیکھنے کو بہت اہم نکتہ ملتا ہے اور وہ یہ کہ جب آپ کو کس دوسرے کا رویہ برا یا عجیب لگے تو ایک دفعہ اپنی ذات کو اس کی جگہ پر رکھ کر دیکھیں اور سوچیں کے یہ بندہ اس طرح کی حرکتیں کیوں کر رہا ہے۔

تیسرا فرق جو کہ سب سے اہم بھی ہے وہ یہ ہے کے عمومی طور پہ ہم اپنے اعمال کی وجہ حالات کو سمجھتے ہیں جبکہ دوسروں کے رویوں اور اعمال کی وجہ داخلی سمجھتے ہیں۔ مثال کے طور پہ اگر آپ کسی سے جھگڑا کرتے ہیں اور بعد میں آپ سے اس کی وجہ پوچھی جاتی ہے تو آپ کہیں گے کہ اس بندے نے فلاں حرکت کی تھی تو مجھے غصہ آ گیا یعنی آپ خارجی پہلو کا حوالہ دیں گے۔ لیکن اس کے برعکس اگر کسی دوسرے کے متعلق پوچھا جائے کہ بھلا فلاں بندہ جھگڑے میں پڑا ہی کیوں؟ تو آپ کا جواب ہو گا کہ اجی وہ ہے ہی ایسا۔ اس کی طبعیت ہی ایسی ہے وغیرہ وغیرہ۔ ہم اس مظہر کو Actor Observer Effect کہتے ہیں۔

تو یہ تھا اس سوال کا جواب جو مضمون کے شروع میں کیا گیا تھا۔ اگر آپ مذکورہ بالا گزارشات پہ عمل کرتے ہیں تو آپ دیکھیں گے کس طرح آپ کی معاشرتی زندگی بہتر ہوتی ہے۔

اس مضمون کی پہلی اور دوسری قسط یہاں پڑھیں

(جاری ہے۔۔۔۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments