یہ عائشہ کی نہیں محبت کی موت ہے



’’ہیلو۔ السلام و علیکم۔ میرا نام ہے عائشہ عارف خان اور میں جو بھی کچھ کرنے جا رہی ہوں اپنی مرضی سے کرنا چاہتی ہوں۔ اس میں کسی کا زور یا دباؤ نہیں ہے۔ یہ سمجھ لیجیے کہ خدا کی دی ہوئی زندگی اتنی ہی ہوتی ہے اور مجھے اتنی ہی زندگی بہت سکون والی ملی، وی آرڈیڈ۔ کب تک لڑیں گے اپنوں سے۔ کیس ود ڈرال کر دوں، نہیں کرنا۔ عائشہ لڑائی کے لئے نہیں بنی۔ پیار کرتے ہیں عارف سے ، اسے پریشان تھوڑی میں کریں گے۔ اگر اسے آزادی چاہیے تو ٹھیک ہے وہ آزاد رہے۔

چلو! اپنی زندگی تو یہی تک ہے۔ میں خوش ہوں کہ میں اب اللہ سے ملوں گی۔ ان سے کہوں گی کہ میرے سے غلطی کہاں رہ گئی۔ ماں باپ بہت اچھے ملے، دوست بھی بہت اچھے ملے۔ بس شاید کہیں کمی رہ گئی مجھ میں یا شاید تقدیر میں۔ میں خوش ہوں سکون سے جانا چاہتی ہوں۔ اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ اب دوبارہ سے انسانوں کی شکل نہ دکھائے۔ ایک چیز ضرور سیکھ رہی ہوں کہ محبت کرنی ہے تو دو طرفہ کرو، یک طرفہ میں کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ چلو کچھ محبت تو نکاح کے بعد بھی ادھوری رہتی ہے۔

یہ پیاری سی ندی، پرے کرتے ہیں کہ یہ مجھے اپنے آپ میں سما لے۔ اور میرے پیٹھ پیچھے جو بھی ہو پلیز زیادہ بکھیڑا کھڑا مت کرنا۔ میں ہواؤں کی طرح ہوں بس بہنا چاہتی ہوں اور بہتے رہنا چاہتی ہوں۔ کسی کے لئے نہیں رکنا ، میں خوش ہوں آج کے دن جو مجھے جن سوالوں کے جواب چاہیے تھے وہ مل گئے اور مجھے جس کو جو سچائی بتانی تھی وہ بتا چکی ہوں۔ بس کافی ہے تھینک یو۔ اور مجھے دعاؤں میں یاد کرنا ، کیا پتا مجھے جنت ملے یا نہ ملے۔ چلو الوداع!‘‘

یہ کسی افسانے کا اقتباس نہیں ہے نہ کوئی من گھڑت فلمی و ڈرامائی کہانی کا کوئی سین۔ یہ ایک ہنستی ہوئی پڑھی لکھی مضبوط لڑکی کی خودکشی سے پہلے کے وہ الفاظ ہیں ۔ یہ احمد آباد کی 23 سالہ لڑکی عائشہ ہے۔ یہ الفاظ ایسے تکلیف دہ ہیں کہ دنیا کے کسی کونے میں بھی سنیں جائیں گے تو ہر باضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیں گے۔ ہر باضمیر حساس مرد ہو یا پھر عورت وہ ان لفظوں کو عائشہ کے لبوں سے سماعت فرمائیں گے تو روح کانپ اٹھے گی اور آنکھیں بھیگ جائیں گی۔ میں کراچی میں بیٹھ کر سن رہا ہوں میری آنکھوں میں بھی آنسو ہے۔ کبھی کبھی الفاظ ختم ہو جاتے ہیں اور جملے بے روح ہو جاتے ہیں۔ آج ہر قسم کے الفاظ اور جملے بے روح اور بے جان ہیں۔

کوئی اس واقعہ کو لے کر کہتا ہے کہ سسرال والے ظالم ہے انہیں سزا دو، کوئی کہتا ہے حالات جیسے بھی ہوں عائشہ کو خود کشی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ کوئی کہتا ہے موت مسئلے کا حل نہیں اس سے بڑی بڑی مصیبت لوگ جھیلتے ہیں اور زندگی جیتے ہیں اور یہ تو بس شوہر کا ایک مسئلہ ہے جو عام ہے۔ جتنے لوگ اتنی باتیں اور تکرار ہے ۔ عائشہ کے دل میں جھانک کر دیکھا جاتا تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کسی کرب میں ہے ، ایسے کرب میں ہے جس سے چھٹکارے کے لئے اس نے موت کو چن لیا۔

کوئی کہہ رہا ہے جہیز کا مسئلہ ہے اور پولیس یہ بھی کہہ رہی ہے کہ کسی دوسری لڑکی کا چکر ہے۔ یعنی عائشہ اپنے شوہر سے بے تحاشا محبت کرتی ہے اور اتنی محبت کرتی ہے کہ اس نے اپنے شوہر کی آخری خواہش بھی پوری کردی کہ ”مرنے سے پہلے ویڈیو بنا کر بھیج دینا“ ۔

عائشہ اپنے آخری بیان میں کہتی ہے کہ ”ایک چیز ضرور سیکھ رہی ہوں کہ محبت کرنی ہے تو دو طرفہ کرو، یک طرفہ میں کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ چلو کچھ محبت تو نکاح کے بعد بھی ادھوری رہتی ہے“ یعنی وہ محبت کی شادی کرنے کے بعد بھی محبت سے محروم رہی۔ عائشہ پر ظلم تو شادی کے چند دنوں بعد ہی شروع ہو گیا تھا مگر وہ سہتی رہی اور پلٹ کر مزید پیار کرتی کہ شاید محبوب کے دل میں میرے لئے کچھ جگہ بن جائے اور وہ مسلسل اسی تگ و دو میں رہی مگر محبت یک طرفہ ہی رہی اور پھر ندی میں بہہ کر امر بھی ہو گئی۔

مرنے سے پہلے 70 منٹ عائشہ نے اپنی محبت سے بات کی مگر اس کو دھتکارا گیا، اس پر طنز کیا گیا، کمزور عائشہ اتنی مضبوط ہو گئی کہ اس نے مرنے کا فیصلہ کر لیا کیونکہ موت عائشہ کے لئے زندگی سے آسان ہے یعنی جو زندگی وہ گزار رہی تھی وہ موت سے بدتر تھی۔ اس کو اپنے شوہر سے محبت تھی اور وہ نبھاتی رہی اور اس کا شوہر بہانے بہانے سے اسے نفرت کرتا کہ شاید اسے بھی نفرت ہو جائے مگر وہ محبت کرتی رہی مگر آخر میں سب سے کہہ گئی کہ محبت کرنا تو دو طرفہ کرنا ورنہ نہ کرنا۔

لوگ اسے جہیز کا مسئلہ کہہ رہے ہیں تو کوئی اسے سسرال والوں کا ظلم کہہ رہا ہے ، کوئی اسے لڑکی کی بے وقوفی سے تعبیر کر رہا ہے۔ مگر مجھے یہ محبت کی ناکامی لگتی ہے۔ اس واقعے کو لوگ جو بھی نام دیں مگر یہ محبت کی رسوائی ہے یہ موت عائشہ کی نہیں بلکہ محبت کی موت ہے اور اس موت نے اس خوبصورت احساس پر سوال اٹھا دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments