سینیٹ انتخابات اور مہنگائی کا جن


بدترین معاشی حالات کے دوران اپوزیشن کے وہ ارکان جو غریب کی لاچاری اور معیشت کی زبوں حالی پر کم از کم بات تو کرتے تھے اب وہ سینیٹ الیکشن میں سید یوسف رضاگیلانی کی فتح کو عوام کی فتح قرار دے رہے ہیں۔ اگر اس مفروضے کو مان لیا جائے اور یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ وزیراعظم پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آنے والے وقت میں نیا وزیر خزانہ عوام کو ریلیف دے سکے گا؟ موجودہ حالات و واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسا کوئی معجزہ ہوتا نظر نہیں آتا۔

کہا جاتا ہے کہ عمران خان بطور اپوزیشن لیڈر زیادہ خطرناک ہے اور حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرتے رہے اور خود کو عام آدمی کا مسیحا قراردیتے ہوئے موجودہ نظام کو بدبودار قرار دے کر نئے پاکستان کا تصور دیا۔ جب کہ خود اقتدار پر براجمان ہونے کے بعد عام آدمی کا جینا دوبھر کر دیا۔ حقیقت حال یہ ہے کہ اپوزیشن کے زمانے میں عمران خان کی ہر کوشش اور توجہ اقتدار حاصل کرنے پر مرکوز رہی اور معیشت کو بہتر بنانے کی طرف توجہ نہ دی گئی، مفروضوں اور اقتدار کے حصول کے لئے ہر حربہ استعمال کیا گیا۔

عمران خان جمہوریت کے لئے برطانیہ کی مثالیں دیتے ہوئے یہ بھول گئے کہ برطانیہ میں ہر حکومت کے ساتھ ایک Shadow Government ہوتی ہے جو ہر پالیسی پر متبادل پالیسی تیار کرتی ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ جو لوگ عوام کے ووٹ لے کر ایوان میں جاتے ہیں وہ ایوان میں بیٹھ کر عوام کے حقوق اور عام آدمی کی بات ہی نہیں کرتے بلکہ ان کا سارا دھیان پارٹی راہنما کی غلط پالیسی کا دفاع یا چاپلوسی ہوتا ہے۔ موجودہ حکومت کے ارکان اسمبلی نے بھی ایسا ہی کیا اور اسی ڈگر پر قائم ہیں۔

سینیٹ الیکشن کے بعد ملک میں سیاسی صورتحال تبدیل ہوتی نظر آ رہی ہے، سینیٹ میں اپوزیشن اتحاد کے ممبران کی تعداد زیادہ ہو گئی ہے اور اس بنیاد پر ممکنہ طور پر اپوزیشن اتحاد چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا بدلہ لے سکتے ہیں۔ سینیٹ الیکشن کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی سربراہی میں درجن بھر مشیروں اور وزیروں نے پریس کانفرنس میں یہ اعلان کیا کہ موجودہ صورتحال کے پیش نظر وزیراعظم عمران خان نے فیصلہ کیا کہ وہ ایوان سے اعتماد کا ووٹ لیں گے اور ممکنہ طور پر رائے شماری show of hands کے ذریعے ہوگی۔

ہمارے ملک کا نظام بظاہر جمہوری ہے لیکن یہ جمہوریت سیاسی پارٹیوں کے اندر نظر نہیں آتی۔ مسلم لیگ (ن ہو یا ق) ، پاکستان پیپلز پارٹی ہو چاہے پاکستان تحریک انصاف، درحقیقت کسی پارٹی کے اندر عام ممبر پارٹی میں کھل کر اپنی رائے کا اظہار نہیں کر سکتا۔ ایک اندازے کے مطابق وزراء کی پریس کانفرنس میں شاہ محمودقریشی کے دائیں اور بائیں بیٹھے ہوئے چاروں وزراء بظاہر وزیراعظم عمران خان کے خلاف بات نہیں کرتے لیکن پارٹی کے اندر چور دروازے سے داخل ہونے والے ممبران کی وجہ سے ناراض ہیں۔

یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ وہ اپنے اپنے portfolio سے بھی خوش نہیں ہیں۔ اور حکومت کی ناکامی کی وجہ بھی شاید یہی ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق کام کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور غلط آدمی کو اس کی جگہ بٹھا دیا گیا جس کا نتیجہ معیشت کی بدحالی اور عوام دشمن پالیسی کی صورت میں سامنے آیا۔ انہی دنوں میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کی سماعت کے دوران انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہم گٹر میں رہ رہے ہیں جو براہ راست اس معاشرے اور نظام کے منہ پر طمانچہ ہے۔

گزشتہ چند سالوں کے دوران جہاں دنیا میں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں وہیں پاکستان کے اندر بھی تبدیلیاں نظر آ رہی ہیں مگر انہیں دبانے کے لئے سر توڑ کوشش کی جا رہی ہے۔ جو سیاست دان اسٹیبلشمنٹ پر براہ راست تنقید کرتے ہوئے گھبراتے تھے وہ کھلم کھلا نام لے کر نہ صرف فوج بلکہ عدالتی نظام پر تنقید کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے نظریاتی کارکنان جو ملک میں واقعی تبدیلی کے خواہش مند سے عمران خان کے ساتھ کھڑے ہوئے تھے، عمران خان کی اقتدار کی ہوس اور مفاد پرستوں کی شمولیت پر ناراض ہو کر الگ ہو گئے۔

سرمایہ دارانہ جمہوریت یا  اشرافیہ کی جمہوریت روپے پیسے اور ذاتی مفادات سے مبرا نہیں ہو سکتی۔ چاہے کوئی سیاسی جماعت کتنی ہی نیک نیتی اور اخلاقیات کا دعویٰ کرے ۔ موجودہ نظام میں ہر بار شکست عوام کی ہوتی ہے کیونکہ ان کے مفادات کا سودا ہوتا ہے۔ بھلا عمران خان کب سے اتنا با اخلاق ہو گیا۔ ماجد خان اور جاوید میانداد کے ساتھ عمران خان کا رویہ بھلا کون بھلا سکتا ہے۔ اس نے صرف اپنے اقتدار کو طول دینے اور اپوزیشن کو بدنام کرنے کے لئے یہ ڈرامہ رچایا۔

غیر جمہوری سوچ رکھنے والے عمران خان نے اپنی طاقت میں اضافے کے لئے پنجاب میں تو سودے بازی کر لی اور بلوچستان میں اے ٹی ایم مشین کو بھی سپورٹ کیا مگر مرکز میں اپوزیشن پر الزام تراشی کی جاتی رہی۔ اسی خواہش کے مدنظر ان ارکان کو ملتے رہے جن کے ساتھ وہ ہاتھ ملانا گوارا نہیں کرتا۔ ایسے میں سید یوسف رضا گیلانی کی فتح عوام کی فتح نہیں ہو سکتی بلکہ اقتدار کے نشے میں چور سیاست دانوں کی فتح ہے۔

عوام کی حقیقی فتح اس وقت ہو گی جب بانیٔ پاکستان کے خواب کی تکمیل ہو گی اور ریاست کا نظام رنگ و نسل، مذہب، فرقہ اور دیگر معاشرتی تفریق کے بغیر ترتیب دیا جائے گا اور غریب کو جینے کا حق ملے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments