جاگتے رہو… سب جھوٹ!


اکتوبر 2020 کو وزیر اعظم کے نیشنل سیکورٹی  کے مشیر خاص اور چیئرمین سٹرٹیجک پلاننگ نے ہندوستان کے اینکر پرسن کرن تھاپڑ جو وزیر اعظم عمران خان کے دوست ہیں سے انٹرویو میں انکشاف کیا کہ ہندوستان کی جانب سے ان سے رابطے کیے گئے ہیں ۔انہوں نے بات چیت کے لئے چند بنیادی شرائط بیان کیں جیسے، ہندوستان کا یکطرفہ 5 اگست 2019 کے اقدام  کا واپس کرنا، 27 فروری 2019 کو پاکستان پر ہوائی حملے کی کوشش پر معذرت کرنا۔ انہوں نے کہا کہ امن کی خواہش کے باوجود  ہم جنگ کے لیے بھی تیار ہیں اور ہندوستان کی پاکستان میں دہشت گردی پر بات چیت کو بھی تیار ہیں۔ کشمیری اس سارے قضیے میں تیسرے فریق ہیں اور ‏ جب تک کشمیری قیادت آزاد نہیں کی جاتی، پابندیاں ہٹائی نہیں جاتیں، غیر کشمیریوں کی کشمیر میں آباد کاری کا قانون ختم کیا نہیں جاتا، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ختم نہیں کی جا تیں، آگے بڑھنا ممکن نہ ہو گا۔ دو دن بعد ہندوستان کی وزارت بیرونی امور کی جانب سے تردید آئی کہ جو کچھ معید یوسف نے کہا وہ حقائق کے منافی اور خیالی ہے ہندوستان کی جانب سے کوئی پیغام یا رابطہ نہ کیا گیا ہے۔ معید یوسف صاحب کی اپنے ذاتی ساکھ قابل اعتماد نہ ہونے کے باوجود وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ  اس پیغام کے معاملے میں غلط نہیں بول رہے تھے۔

‏ یہ ممکن نہیں کہ مودی نے دفعہ 370کو متروک کرنے اور 35 اے کا قدم اٹھانے سے پہلے متوقع رد عمل کی تیاری نہ کی ہو۔ سب سے پہلے اپنے حواری امریکہ کی آشیرباد لی ہو گی اور اس کے ذریعہ پاکستان کی غیر جانب داری یقینی بنائی ہو گی۔ جب ہی تو  وزیر اعظم عمران خان کے دورہ ٔ امریکہ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ ان کا ہاتھ تھامے ان کی ذاتی شخصیت کے قصیدے پڑھتے اور ثالثی کی پیشکش کرتے نظر آئے۔ ثالثی ہوئی ضرور مگر خفیہ۔ صدر مشرف کا کشمیر میں باڑھ لگانے کا مقصد ہی یہ تھا کہ تمہارے پاس کشمیر تمہارا ! ہمارے پاس کشمیر ہمارا!  شملہ معاہدے کی موجودگی میں کشمیر اور لد اخ کو یونین ٹیریٹری  بنا کر ضم کر لینا بھی اسی سازش کا شاخسانہ ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے  کہ ایسا قدم اٹھانے  سے پہلے یقین دہانیاں نہ دی گئی ہوں اسی لئے تو ہم آج تک شملہ معاہدے جیسے مردہ گھوڑے سے چمٹے ہوئے ہیں؟

اس سارے عرصے میں ہماری حکومت کا بیانیہ کچھ اور جب کہ عمل اس کے بالکل برعکس۔ آج تک کشمیر کے وکیل ہونے کے دعویدار وزیر اعظم عمران خان نے کشمیر کے اسٹیک ہولڈرز کا ایک بھی اجلاس نہیں بلایا نہ ہی کشمیر کے حوالے سے کسی پیشرفت میں ان کو شریک کیا۔ پچھلے ڈیڑھ سال سے حکومت وقت مسئلہ کشمیر  پر صرف زبانی جمع خرچ پر چل رہی ہے۔  اب نیا اعلان کہ ہندوستان اور پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کا ہاٹ لائن پر مروجہ طریقہ کار کے مطابق خوشگوار ماحول میں بات چیت کے ذریعے ایل او سی پر جنگ بندی کا فیصلہ ہوا اور اس بات کا بھی اعادہ  کیا گیا کہ 2003 کی جنگ بندی کے معاہدے کو قائم رکھا جائے اور باقی تمام معاہدات اور فیصلوں  پر بھی من وعن عمل کیا جائے گا۔ ساتھ ہی اسی رات 12 بجے سے اس سمجھوتے پر فوری عمل درآمد  بھی شروع کر دیا گیا۔ بات تو بہت خوش آئند ہے مگر اس اعلان نے بہت سے سوالات اور تحفظات چھوڑتے ہوئے، عوام کو ایک غیر یقینی صورتحال سے دوچار کر دیاہے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا؟ کسی کو علم نہیں۔ نہ کشمیریوں کو اور نہ ہی قوم کو اعتماد میں لیا گیا اور  کچھ لئے بغیر سب کچھ کھو کر جنگ بندی کا اعلان ہو گیا۔

ہندوستانی میڈیا اس کو معید یوسف اور ہندوستانی نیشنل سیکورٹی کے مشیر اجیت دوول کے درمیان خفیہ ملاقاتوں کا نتیجہ قرار دے رہا ہے۔ معید صاحب نے اپنی حکومت کی واحد تسلسل سے جاری پالیسی کے مطابق خبر کی تردید کرتے ہوئے ساری ذمہ داری دونوں ڈی جی ایم اوز پر ڈال دی ہے۔ ڈی جی ایم او کی ذمہ داری تو صرف دفاعی اور ملٹری آپریشن کے حوالے سے بات چیت کرنے تک  محدود ہے۔ 2003 کا معاہدہ جو کہ غیر آئینی حکومت نے کیا تھا اور سول حکومت کے معاہدات پر  بھی عملدرآمد کی ذمہ داری فوج پر کیوں ڈالی جا رہی ہے؟  دراصل اس حکومت نے ہر دفعہ اپنی ذمہ داریوں، غلطیوں اور کوتاہیوں کا بوجھ دوسروں پر ڈال کر خود کو بچایا اور اس دفعہ بھی یہی کچھ کر کے فوج کو آگے کردیا ہے۔

‏ در حقیقت معاملہ کچھ ایسے ہے کہ دفعہ 370 اور 35 اے کے متروک کئے جانے سے بہت پہلے صدر مشرف نے کشمیر کے لئے آؤٹ آف باکس حل کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیا تھا اور اس خفیہ فارمو لے کے تحت 2003 میں ایل او سی پر جنگ بندی کا معاہدہ ہوا۔ جس کے بعد ہندوستان کو ایل او سی پر باڑھ لگانے کی آزادی مل گئی۔ یہ سراسر کشمیر کا سودا تھا جو صدر مشرف نے اپنی حکومت کے دوام اور امریکہ کو راضی کرنے کے لیے  کیا۔ اس باڑھ  کا مقصد اس کو   مستقبل میں  مستقل حد میں تبدیل کرنا تھا، جس کے لیے صدر مشرف آلۂ کار بنے۔ 2019میں موجودہ وزیر اعظم نے اپنے دورہ ٔ امریکہ میں دفعہ370 ختم کرنے سے پہلے ہی پیشگی سر تسلیم خم کر دیا۔ اسکے بعد ہی مودی نے اتنا بڑا قدم اٹھانے کی جرأت کی۔ ہماری فوج نے تو کشمیر کے لئے خون کے آخری  قطرے اور آخری سپاہی تک لڑنے کے عزم کا اعلان کیا تھا مگر حکومت ناکام سفارتکاری کی آڑ میں چھپ کر وقت گزارتی رہی۔ کبھی چند منٹ کی ہفتہ وار خاموشی اور کبھی کشمیریوں کو طفل تسلیاں!

جس طرح آج ہمارے سیاستدان آپس میں عوام کے لئے نورا کشتی ڈرامہ رچائے ہوئے ہیں اسی طرح  ہمارے حکمران چاہے وہ کسی جماعت سے  ہوں اور انکے نعرے اور  بیانیہ مختلف بھی ہوں تب بھی  کام سب امریکہ کے لیے ہی کرتے ہیں۔ اگر صرف نیشنل سیکورٹی پر وزیر اعظم کے مشیر خاص معید یوسف کی ہی  مثال لیں تو سمجھ آ جائے گی کہ کیسے وہ ایک امریکی ادارے سے چھٹی لے کر جس کی فنڈنگ سی آئی اے کرتی ہے ،بغیر کسی  بیک گراؤنڈ اور پاکستان میں شناخت کے ہمارے اوپر مسلط کر دیے گئے ہیں۔ دراصل امریکہ نے ہمارے جوہری ہتھیاروں پر نگرانی کے لیے انہیں تعینات کروایا ہے۔ جیسا امریکی سیکریٹری آف سٹیٹ کونڈولیزا رائس نے کانگرس میں بتایا تھا کہ” ہم پاکستان کے جوہری انڈوں کی رکھوالی کر رہے ہیں”۔ آج جبکہ بہت سے محکموں کے سربراہ فوجی جرنیل ہیں، سب سے اہم دفاعی اور نیشنل سیکورٹی جیسے محکمے کا مشیر فوجی نہ ہونا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

اس خفیہ سمجھوتے میں صرف  دو باتیں نظر انداز ہو گئیں۔ ایک مقبوضہ  کشمیر کے کشمیریوں کا بے مثال جذبۂ  حریٔت جو ساری  سیاسی قیادت پابند سلاسل ہونے کے باوجود، ظلم و ستم، جبر و استبداد اور بنیادی انسانی حقوق کے پامال ہونے پر بھی  اپنے مؤقف پر قائم رہنا۔ دوسرا چین کا لد اخ میں داخل ہو کر بڑا رقبہ قبضہ کر لینا ۔ ہندوستان میں مودی کی ڈانوا ڈول حیثیت کہ ساری دنیا  دفعہ 370 کو متروک کرنے ،کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق معطل کرنے ،کسان تحریک ، سی اے اے  اور شہریت بل پر اسے لعنت ملامت کر رہی ہے۔ ادھر ہندوستانی عوام کا اس سے  اور اس کے” ہندوتوا” ایجنڈے سے متنفر ہونا امریکہ کے لیے قابل قبول نہیں۔ لہذا اب ہماری فرمانبردار حکومت کی ذمہ داری ٹھہری کہ ہم مودی کو  بیل آوٹ کرائیں اور مسئلہ کشمیر کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیں۔  اس کے بدلے میں ہمیں ایف اے ٹی ایف  سے جون میں عارضی چھٹکارا  مل جائے گا۔ فی الحال تو صرف زبانی کلامی تعریف  اور بس!

ہمیں اس حقیقت کا ابھی تک ادراک ہی نہیں کہ ایف اے ٹی ایف  کی یہ تلوار ہمارے سر پر ہمیشہ لٹکتی رہی گی اور اس کے خوف سے ہم بلیک میل ہوتے رہیں گے۔  خدا کی شان ہے  کہ 1962میں  بھی ہماری حکومت نے امریکہ کے کہنے پر پھنسے ہوئے ہندوستانی فوجیوں کو با حفاظت نکلنے کے لیے پاکستان سے راستہ دیا تھا اور آج مودی حکومت بچانے کے لئے ہم نے نہ صرف کسان تحریک سے اظہار یکجہتی نہ کیا بلکہ کشمیریوں اور پاکستانیوں کے مستقبل کو ڈبونے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی ہے۔ بہرحال مارنے والے سے بچانے والے کا ہاتھ مضبوط تر ہے۔ کشمیری ان  نامساعد حالات کے باوجود آزادی حاصل کریں گے اور پاکستانی قوم ان کے ساتھ کھڑی ہو گی۔

عظمیٰ گل
Latest posts by عظمیٰ گل (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments