گھبرانے کا وقت ہوا چاہتا ہے



پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں بدھ کی روز ہونے والے انتخابات خاصی اہمیت بنا چکے تھے، کیونکہ اس دفعہ تمام مخالف جماعتوں نے ایک دوسرے کے امیدوار کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا تھا، اور یہ بات حکمران جماعت پی ٹی آئی کے لیے پریشان کن تھی۔ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے اسلام آباد کی ہاٹ سیٹ پر اپنا مشترکہ امیدوار، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو بنایا، جو کہ حکومتی امیدوار، وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ عبدالحفیظ شیخ کے مد مقابل لڑ رہے تھے۔

سپریم کورٹ کا صدارتی ریفرنس پہ ایک دو دن پہلے جوں ہی فیصلہ آیا کہ سینیٹ انتخابات خفیہ بیلٹ سے ہوں گے، تو اپوزیشن جماعتوں کے ٹھٹ ہو گئے، ساتھ ہی صدارتی ریفرنس خارج ہونا پی ٹی آئی کے لیے اخلاقی شکست کا باعث بنا۔ عمران خان نے اپنے اسمبلی ممبران کو مدعو کر کے خاص ہدایات بھی جاری کیں، لیکن اس دفعہ جو اعتماد بلاول بھٹو اور مریم نواز کی میڈیا بریفنگ میں تھا اس کی بات ہی نرالی تھی، اور یہ تأثر مل رہا تھا کہ کوئی بڑا اپ سیٹ ضرور ہونے والا ہے۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور شریک چیئرمین، مسلم لیگ نون کی نائب صدر نے قبل از انتخابات کہہ دیا تھا کہ اس دفعہ حکومتی ممبران بھی ہمیں ووٹ دیں گے، جس سے واضح ہو گیا تھا کہ کوئی کھچڑی ضرور پک رہی ہے، جس سے عمران خان کے کچن میں رولا پڑ سکتا ہے۔ سینیٹ انتخابات میں نوٹوں کا چلنا اور خرید و فروخت کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ پاکستان کی عمر ہے لیکن اس دفعہ بولی لگانے والی اپوزیشن جماعتیں تھیں اور بکنے والے حکومتی اراکین تھے، اور اسی ڈر سے عمران خان نے سپریم کورٹ میں ریفرنس جمع کروایا اور اوپن بیلٹ الیکشن کا مطالبہ میڈیا پر کرتے رہے اور اس کے فوائد بتاتے رہے۔

اس بار سینیٹ انتخابات میں وہی کھیل کھیلا گیا، جو سابق سینیٹ انتخابات میں عمران خان نے کھیلا تھا، اور راتوں رات پیسوں سے بھرے بریف کیس ادھر سے ادھر ہوئے تھے، جس کا ثبوت ایک وائرل ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے۔  آئین اور قانون کے مطابق ووٹ کے تقدس قائم رکھتے ہوئے خفیہ ووٹنگ کرنا ہوتی ہے، سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے دلائل سننے کے بعد  آرٹیکل 226 کے تحت خفیہ ووٹنگ کے حق میں فیصلہ دے دیا۔

شہر اقتدار سے عمران خان کے امیدوار کا شکست سے دوچار ہونا، کوئی عام بات نہیں بلکہ اب یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ عمران خان کے لیے گھبرانے کا وقت آ گیا ہے، جو تمام چیزوں کی قیمتیں بڑھا کر عوام سے اپیل کرتے تھے کہ گھبرانا نہیں ہے۔ اب کم سے کم ان کو یہ پتا چل جائے گا کہ جب شکست ملتی ہے تو مجبوراً گھبرانا پڑتا ہے۔ جوں ہی تین مارچ کی شام کو اسلام آباد کی سیٹ کا بڑا نتیجہ آیا، یوسف رضا گیلانی نے پانچ ووٹوں کی برتری سے فتح حاصل کر لی اور اسی رات کو حکومتی وفاقی وزراء نے پریس کانفرنس کی، ان کی باڈی لینگوئج انتہائی مایوس کن لگ رہی تھی، ان کے چہروں کے پیچھے چھپا غصہ بھی چھپائے نہیں چھپ رہا تھا۔

وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے الیکشن کمیشن کو غیر ذمہ دار ٹھہرانے کے ساتھ یہ اہم اعلان بھی کر ڈالا کہ عمران خان قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ ضرور لیں گے اور کچھ خبروں کی مطابق، عمران خان کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے، وہ تو اسمبلی توڑنے کے حق میں بھی تھے لیکن منتیں کر کے انہیں راضی کیا گیا کہ وہ اعتماد کا ووٹ لے لیں۔ اگلے دن جمعرات کو وزیراعظم عمران خان نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید سے اہم ملاقات کی، جس میں زیر بحث یقیناً گزرے ہوئے دن کے سینیٹ الیکشن کے نتائج ہی ہوں گے، جن نے حکومتی اراکین کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔

اور پھر شام کو قوم کو خطاب میں وزیراعظم نے اعلان کیا کہ وہ ہفتے کے دن قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیں گے، جس سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائےگا اور جو ان کے ناراض اراکین ہیں،  وہ کھل کر سامنے آئیں۔ ویسے تو عمران خان کو سینیٹ انتخابات میں برتری حاصل ہوئی ہے لیکن ایک نشست پر شکست نے انہیں اتنا گھبرانے پر مجبور کر دیا کے وہ اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کرنے تک آن پہنچے ہیں۔

مکافات عمل تو فطری عمل ہے، جس طرح سابق سینیٹ انتخابات میں عمران خان نے منتخب اراکین کے ووٹ بھاری داموں میں خرید کر اپنے سینیٹرز منتخب کروائے تھے اسی کے بدلے کل انہیں منہ کی کھانی پڑی۔ خیبرپختونخوا میں تمام سیٹیں جیتنے کے باوجود اسلام آباد سے بڑا معرکہ ہار جانا کسی صدمے سے کم نہیں۔  اوپر سے ستم یہ کہ پچھلے دنوں ہونے والے ضمنی الیکشن میں بھی ان کے امیدوار ہارے ہیں اور ڈسکہ میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں نتائج کو الیکشن کمیشن نے کالعدم قرار دے دیا، جو نتائج دھند کا بہانا بنا کر دیر سے جاری کیے گئے تھے۔

عمران خان خود کو کافی اکیلا محسوس کر رہے ہیں۔ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کا اکتیس مارچ کو اسلام آباد تک لانگ مارچ کر کے دھرنا دینے کا اعلان بھی پریشانی بڑھانے کا سبب ہے۔ عمران خان اشیائے خورونوش کے نرخ بڑھا کر جس طرح سے عوام کو کہتے تھے کہ گھبرانا نہیں ہے، اب وہ خود گھبراہٹ اور بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئے ہیں، کیونکہ اب تو اسٹیبلشمنٹ بھی اپنا منہ پھیرتی نظر آ رہی ہے، اور اگر یہ سرد مہری جاری رہی تو عمران خان زیادہ دیر اپنی وزیراعظم کی کرسی پر نہیں رہ پائیں گے کیونکہ جنہوں نے سہارا دے کر اس مقام پہ پہنچایا، ان کے بغیر عمران خان اور ان کی جماعت کچھ بھی نہیں کر پائے گی۔

عمران خان کی جماعت نے اب تو الیکشن کمیشن سے بھی پنگا لے لیا ہے، جس کی وجہ سے ان کو آنے والے وقت میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ عمران خان شاید اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو بھی جائیں، ان کے پارٹی ارکان شاید کھل کر ان کی مخالفت نہ کریں لیکن یہ تو طے ہے کہ کپتان خان کے لیے گھبرانے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ سات ووٹوں کا ضائع ہونا اور پانچ ووٹ پی ڈی ایم کے حق میں ڈالے جانے سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ حکومتی صفوں میں عمران خان کے خلاف ہلچل شروع ہو چکی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments