گوادر: سیکورٹی کی وجہ سے لگائی جانے والی باڑ جو شہر کو شہریوں سے جدا کر دے گی


گوادر کی باڑ

باڑ جو شہریوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیے گی

کراچی سے گوادر کا سفر ڈیڑھ گھنٹے میں طے ہوا۔ پی آئی اے کے اے ٹی آر طیارے نے ساحل پر بنے رن وے کو چھوا تو کھڑکی سے باہر کے مناظر میں سادہ طرز پر بنے اس چھوٹے سے ائیرپورٹ کی حدود کے گرد لگی خاردار باڑ نے میرے ذہن میں گوادر میں باڑ لگنے کی خبر کو ایک بار پھر تازہ کر دیا۔

گوادر کی خوبصورتی، ترقی کی جھلک، ماہی گیری کی صنعت، پاکستان چین بندرگاہ، ایران سے جڑا بارڈر اور خوبصورت ساحلوں کو دیکھنے کی خواہش کے ساتھ ساتھ مجھے اس باڑ سے جڑے معمے کو بھی سمجھنا تھا۔

میں دیکھنا چاہتی تھی کہ باڑ آخر صوبہ بلوچستان کے علاقے گوادر کو کیوں اور کیسے تقسیم کر رہی ہے اور اب اس مسئلے کے حل کے لیے بلوچستان ہائی کورٹ میں سماعت کے بعد صوبائی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی کیا کر رہی ہے؟

پختہ میرین ڈرائیو کے ساتھ یہ گوادر کا مغربی ساحل ’پدیزر‘ ہے یہاں سکیورٹی چیک پوسٹ پر پاکستانی پرچم لہرا رہا ہے۔

ہمیں انتظامی امور کے سربراہ ڈپٹی کمشنر سے طے شدہ انٹرویو چینی کونسل جنرل کی آمد کی وجہ سے اگلے روز تک ملتوی کرنا پڑا۔

27 جنوری کو وہاں کی بڑی خبر بھی یہی تھی کہ چین نے گوادر پولیس کے لیے 40 موٹر سائیکلوں، 10 لیپ ٹاپ اور چیک پوسٹوں کے لیے 10 سکیورٹی کیبنیٹ دی ہیں۔ جن چیک پوسٹوں کو اب تک میں نے کراس کیا تھا ان کی تعداد تین سے چار تھی۔

یہ بھی پڑھیے

گوادر کی تاریخ پر ایک نظر

گوادر کرکٹ سٹیڈیم: جس کی تیاری کے لیے گوجرانوالا کی 90 ٹن مٹی منگوائی گئی

سی پیک: گیم چینجر یا ہوائی قلعہ؟

گوادر کی باڑ

باڑ لگانے کے کھمبوں پر صرف خار دار تار لگانا باقی ہے

قطار در قطار لوہے کے پولز

گاڑی میرین ڈرائیو سے نکل کر اب سرکاری عمارتوں سے ہوتی ہوئی شہر کے مضافات میں نیول ہاؤسنگ سکیم سے گزر رہی تھی۔ ساتھ ہی آنکاڑہ نامی علاقہ ہے یہاں سڑک کے دائیں جانب تقریباً 12 فٹ اونچے لوہے کے پولز واضع دکھائی دیے۔ یہ وہی پولز ہیں جن پر ممکنہ طور پر باڑ لگائی جائے گی۔

باڑ لگانے کا معاملہ دسمبر میں سامنے آیا جب نیشنل پارٹی کے سینیٹر میر کبیر احمد محمد شہی نے گوادر سیف سٹی کے منصوبے میں اس اقدام کی مخالفت کی۔

بلوچستان ہائی کورٹ میں درخواست میں کہا گیا کہ گوادر میں باڑ لگانے کا فیصلہ مکینوں کے بنیادی انسانی حقوق جو آرٹیکل 15 میں واضح ہیں، کی خلاف ورزی ہے۔

سورج ڈھل رہا تھا، باڑ لگائے جانے والے علاقے کو مکمل طور پر دیکھنے اور وہاں کے مقامی افراد کی اس کے بارے میں رائے لینے کے لیے میں نے صبح یہاں پھر سے آنے کا ارادہ کیا۔

آپ کون ہیں؟ شناختی کارڈ دکھایئے

مقامی لائبریری اور گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے دفتر اور دیگر ادارے اداروں کی وسیع اور بہترین بلڈنگز کے پاس سے گزرتے ہوئے ایک دیوار پر لکھا تھا ’دل دل پاکستان جان جان بلوچستان‘، میرے لیے یہ ایک نیا نعرہ تھا۔

بلوچستان نیشنل پارٹی سے منسلک ڈاکٹر عبدالعزیز بلوچ سرکاری نوکری سے ریٹائرمنٹ کے بعد نیو ٹاؤن میں اپنے گھر کے احاطے میں ہی بنے دو کمروں پر مشتمل کلینک میں مریضوں کو دیکھ رہے تھے۔

یہاں ہردوسری گلی میں آپ کو مکانات کی تعمیر ہوتی دکھائی دے گی۔ مشینوں کی آوازیں دور دور تک سنائی دے رہی ہیں۔ یہاں ایک 1000 گز کا پلاٹ ایک کروڑ روپے میں بک رہا ہے۔

لیکن ڈاکٹر عزیز اپنے گھر کی چھت سے سمندر کا منظر دکھاتے ہوئے مجھے کہنے لگے ’گھر بیچ دیا یا بلڈنگ بنا کر بیچ دی یہ ترقی تو نہیں۔ یہ چیزیں جو آپ کو نظر آ رہی ہیں یہ سطحی چیزیں ہیں اس سے معاشی ترقی کا کوئی تعلق نہیں۔‘

وہ گوادر میں سکیورٹی چیک پوسٹوں اور اب ممکنہ طور پر لگنے والی باڑ سے شدید نالاں اور مایوس دکھائی دیے۔

انھوں نے کہا ’چیک پوسٹوں کو پانچواں چھٹا سال ہے، پہلے تو لوگ آزاد تھے۔ ابھی تک تو چینی شہر میں نہیں آتے ابھی وہ حصار میں ہیں۔جن اداروں نے اس سے پہلے سکیورٹی کے انتظام کیے تھے وہ کیا کم ہے۔ ہر فرلانگ پر انھوں نے سکیورٹی رکھی ہے ہر آدمی کو پوچھتے ہیں اور چیک کرتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا ہوں کہ اس سے بڑی سکیورٹی (باڑ) ہونی چاہیے۔‘

ڈاکٹر عزیز نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اگر باڑ لگا کر اس میں بجلی دوڑائی جاتی ہے تو اگر کسی سادہ لوح دیہاتی نے اسے کراس کرنے کی کوشش کی تو اس کی زندگی کو نقصان ہو سکتا ہے۔ کلینک میں موجود ایک خاتون کہنے لگیں ’یہ ساحل سمندر، یہاں کا شاہی بازار ہم یہاں پہلے آزاد گھومتے پھرتے تھے مگر اب سب بدل رہا ہے۔‘

’میں کل اپنی تین برس کی بیٹی کو ہسپتال لے جا رہی تھی جلدی میں شناختی کارڈ بھول گئی لیکن مجھے چوکی کراس کرنے کی اجازت نہیں ملی۔‘

شام تک باہر کے دو چکر لگا کر مجھے بھی یہ اندازہ ہو چکا تھا کہ یہاں سکیورٹی کسی چھاؤنی سے بھی زیادہ ہے۔ اسے آپ ہائی ملٹری زون کہیں یا ریڈ زون، تو یہ غلط نہیں ہو گا۔

گوادر کی باڑ

سیکیورٹی کی وجہ سے مقامی آبادی کو کافی پریشانی لاحق ہیں

کہاں جا رہے ہیں، کہاں سے آ رہے ہیں، کیا کرتے ہیں آپ لوگ اپنا شناختی کارڈ دیں؟ ایک ہی سڑک پر جاتے ہوئے اگر آرمی والے چیک کریں گے تو واپسی پر اسی مقام پر مخالف سمت میں کھڑے ٹو وے روڈ پر لیویز اہلکار انہی سوالوں کے ساتھ آپ کا استقبال کریں گے۔

لیکن میں نے دیکھا کہ یہاں سکیورٹی کا جدید نظام اتنے برسوں میں بھی نہیں آ سکا نہ سکینرز ہیں نہ کیمرے نصب ہیں۔ یہ باعث حیرت ہے کہ آخر اتنی دیر ہوئی ہی کیوں اور اب چینی امداد سے ملنے والے چند موٹر سائیکل۔۔۔ کیا ہمارے پاس معاشی مرکز کے لیے اتنا بھی نہیں۔

جنوری سنہ 2016 میں کوئٹہ اور گوادر کے لیے سیف سٹی پلان کی مد میں 10 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔ تب کہا گیا تھا کہ 465 کیمرے شہر کے 136 مقامات پر لگائے جائیں گے۔ وائر لیس ٹاور لگیں گے، یہ کیمرے لیزر کیمرے ہوں گے۔ آٹو میٹک نمبر پلیٹ ریڈرز اور ریڈیو فریکوینسی آئیڈینٹیفکیشن سسٹم آر ایف آئی ڈی لگایا جائے گا۔

تحصیل گوادر کی کل آبادی 138438 افراد پر مشتمل ہے۔ یہاں فی مربع کلومیٹر 115 افراد بستے ہیں۔

زیرو پوائنٹ سے وشیں ڈور تک باڑ

اب مجھے باڑ کے لیے مختص تقریباً 25 کلومیٹر پر پھیلے اس علاقے کو شروع سے آخر تک دیکھنا تھا۔ گوادر شہر کے مرکز سے اگر آپ اس کی تحصیل پشوکان کی جانب بڑھیں تو کوئی 30 کلومیٹر دوری پر زیرو پوائنٹ آئے گا جہاں سے ایک سڑک پاکستان ایران سرحد اور دوسری جیونی کی جانب جاتی ہے اور زیرو پوائنٹ پر بنا تیسرا روڈ آپ کو واپس گوادر شہر میں لے جاتا ہے۔

اس شاہراہ جسے بلوچستان براڈ وے روڈ کہتے ہیں، پر مڑتے ہی چوکی سے چند قدم آگے ہی لوہے کے وہی پولز دکھائی دیے جو مجھے یہاں سے چند کلومیٹر دور گذشتہ شام دکھائی دیے۔

اس باڑ نے اندر اور باہر والی آبادی کو تقسیم کیا ہے۔ جیسے سرحد کسی ملک کو تقسیم کرتی ہے۔

گوادر

باڑ لگانے کا کام وقتی طور پر روک دیا گیا تھا

فوجی آئے تھے انھوں نے کہا یہاں باڑ لگانی ہے

کچھ آگے پہنچ کر پکی سڑک سے اتر کر میں ایک گھر میں گئی۔ کھلے صحن کے بیچوں بیچ لکڑیوں کے سہارے ایک سٹینڈ سا بنا ہے جس پر سٹیل کے برتن دھوپ میں چمک رہے ہیں۔ رہائش کے لیے الگ کمرے تھے۔ وہاں موجود خواتین نے میرا استقبال کیا اور مسکراتے ہوئے مجھے چاول کھانے کی پیشکش کی۔

گھر کے سامنے باڑ کے لیے لگے پولز صحن سے صاف دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کنبے کے سربراہ نے بتایا کہ ’یہ کھمبے ایک ماہ پہلے لگنے شروع ہوئے تھے لیکن چار پانچ مہینے پہلے فوجی آئے تھے اور انھوں نے ہمیں بتایا تھا کہ یہاں باڑ لگے گی اور راستہ بند ہو جائے گا۔‘

میں نے ان سے پوچھا کہ باڑ لگنا کیسا ہے آپ سب کے لیے جو اندر ہیں اور باہر ہیں؟ تو وہ کہنے لگے کہ ’مشکل ہو گی بہت تنگی آ جائے گی، بکری چرانا مشکل ہو جائے گا۔ لوگ بول رہے تھے ایک گیٹ پشوکان پر لگے گا دوسرا زیرو پوائنٹ پر۔ ایک جانب سات کلومیٹر دور ہے دوسرا دس کلو میٹر۔۔۔‘

’میں نے بھی احتجاج کیا تھا۔ میں چاہتا ہوں پیچھے پہاڑوں کی طرف باڑ لگائیں۔۔۔ جیونی، پِشوکان پلیری، نگور دشت، سر بندن سب اس کے اندر آ جائیں۔۔۔ یہ باڑ کے اندر خالی گوادر چھوٹا شہر ہے۔ میرے بھائی بہن سب باڑ کے اندر کے علاقے میں ہیں، باڑ لگ گئی تو مشکل ہو جائے گی۔‘

میں نے ان سے پھر سوال کیا کہ حکومت تو کہتی ہے کہ باڑ لگنے سے چیک پوسٹیں تو ختم ہو جائیں گی تو وہ کہنے لگے کہ ’ہو سکتا ہے کہ اندر کچھ ختم ہو جائے لیکن اس طرف تو(چیک پوسٹیں) لگے گیں۔ ابھی بھی ہم لمبی قطار میں لگے ہوئے ہوتے ہیں اگر باڑ لگ گئی تو گیٹ پر موٹر سائیکلوں، گاڑیوں سے لمبی قطاریں لگ جائیں گی۔‘

اس 25 کلومیٹر کے علاقے کا آخری مقام وشیں ڈور ہے جہاں مسجد کا امام ایک جانب تو مقتدی دوسری جانب ہے، سکول ایک جانب تو گھر دوسری جانب ہیں۔

باڑ لگانے کا کام دراصل دونوں جانب سے شروع ہوا تھا اس لیے جب عوامی احتجاج کے بعد وزیر اعلیٰ بلوچستان کے حکم پر روکنا پڑا تو بیچ کے چند کلومیٹر میں پولز نہیں لگے۔ لیکن اسی شاہراہ پر سینکڑوں پولز سڑک سے تھوڑے کنارے پڑے دکھائی دیتے ہیں۔ ساتھ واچ ٹاور میں سکیورٹی اہلکار مستعد کھڑا ڈیوٹی دیتا ہے۔

ان پولز کو دیکھ کر یہی خیال ذہن میں آتا ہے کہ کام روکا تو گیا ہے مگر باڑ لگانے کا فیصلہ ابھی واپس نہیں لیا گیا۔

گ

کل تک جس شہر کو پاکستان میں بھی بہت کم لوگ جانتے آج پوری بین الاقوامی اہمیت اختیار کر گیا ہے

کچھ کلومیٹر کے فاصلے پر اگر گوادر شہر جسے اولڈ سٹی کہتے ہیں کے بازار میں داخل ہوں تو آپ کو یہاں مچھلی کی انواع و اقسام کی خریدو فروخت ہوتی دکھائی دے گی۔ مچھلیوں کی تصاویر لیتے ہوئے میری بات چند مقامی افراد سے بات ہوئی۔

میں نے ان سے بھی باڑ کے بارے میں پوچھا کہ وہ کہاں رہتے ہیں؟ باڑ کے اندر کے علاقے میں یا باہر؟

سید محمد جذباتی انداز میں کہنے لگے ’صحیح ہے ہم نے احتجاج کیا باڑ کا کام فی الحال رکا ہوا ہے لیکن یاد رکھیں آج میں کہہ رہا ہوں یہ باڑ لگے گی، یہ لگائیں گے باڑ۔ انھوں نے جو کام بولا ہے کریں گے تو وہ کریں گے لیکن یہ ہمارا نقصان ہے ہمارے دیہات ہیں، جب باڑ لگے گی تو ہمارے دیہات گوادر سے کٹ جائیں گے۔‘

وہ کہنے لگے کہ صرف مقامی لوگ رہ جائیں گے دیہات کٹیں گے تو وہ غریب لوگ کیسے کمائیں گے۔

’وہاں ہمارے بھائی رہتے ہیں، بہن رہتی ہیں صرف میں یہاں رہتا ہوں، باقی سب لوگ باہر ہیں، آنے جانے میں بہت دشواری ہوتی ہے۔ لائنوں میں کھڑا ہونا پڑتا ہے، ایک گھنٹہ دو دو گھنٹے۔۔۔ پھر سکیورٹی چیک کرتے ہیں اور پھر آپ کو جانے دیتے ہیں۔‘

یہاں اس چھوٹے سے شہر میں لوگ میڈیا سے کم ہی بات کرنا چاہتے ہیں زیادہ تر شناخت کے بعد سکیورٹی والوں کی جانب سے ممکنہ پوچھ گچھ کی وجہ سے کتراتے دکھائی دیے۔ یہاں پبلک ٹرانسپورٹ شہر کے اندر نہ ہونے کے برابر ہے۔ رکشے چلتے ہیں اور موٹر سائیکل من پسند سواری ہے۔

اس سارے معاملے پر منتخب نمائندے ایم پی اے میر حمل کلمتی تو انٹرویو دینے کے لیے کئی بار رابطہ کرنے کے باوجود دستیاب نہیں ہوئے۔ تاہم انھوں نے بلوچستان اسمبلی میں گوادر کی صورتحال پر کھل کر بات کی اور کہا کہ ’پہلے تو آپ چیک پوسٹیں لگا کر پوچھ رہے تھے اب آپ باڑ لگا رہے ہیں۔۔۔بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے بھی اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ گوادر کے لیے قانون پاس کیا گیا تھا؟ باڑ کیوں لگائی۔۔۔۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جانور نہ آئیں۔۔۔۔۔ کیا ہم جانور ہیں۔۔۔‘

گوادر کی بندرگاہ

ماہی گیروں کی ایک چھوٹی سے بندرگاہ سے دنیا کی سب سے گہری عالمی بندرگاہ تک

دوسری جانب وزیر اعلیٰ جام کمال بھی صوبائی اسمبلی میں امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر باڑ لگانے کا حوالہ دیتے ہوئے کہ چکے ہیں کہ خلیجی ممالک میں جائیں تو آپ کو وہاں بھی الگ سسٹم ملے گا۔

بازار سے چند کلومیٹر کی دوری پر ساحل پر بنے خوبصورت پارک میں مقامی بچے کھیل رہے ہیں اور کنٹینر میں بنی چھوٹی سی لائبریری میں کچھ بچے کتابیں پڑھنے میں مشغول ہیں۔ ساتھ ہی علاقے کے منتظم ڈپٹی کمشنر کا دفتر ہے۔

آج کل اس عہدے کی ذمہ داری میجر ریٹائرڈ کبیر خان زرکون کے پاس ہے۔ عوامی احتجاج کے بعد ڈی سی گوادر نے باڑ اور دیگر مسائل سننے کے لیے کھلی کچہری کا انعقاد بھی کیا تھا۔ لوگوں کا شکوہ تھا کہ ’ہمارے گھر کے سامنے باڑ لگانے کا کام شروع ہوا اور ہمیں بتایا ہی نہیں گیا کسی نے کہا کہ یہ باڑ ہمارے امن کو خراب کر رہی ہے۔ ہمیں یہ باڑ قبول نہیں۔۔۔۔ ہم دہشت گردی نہیں کرتے۔‘

انٹرویو کے دوران ڈی سی گوادر نے مجھے بتایا کہ ’باڑ لگانے کے کام کی رفتار تو کافی اچھی تھی لیکن جیسے ہی ہمیں پتہ چلا کہ عوام کو تحفظات ہیں تو ہم نے دور کرنے کی کوشش کی پھر صوبائی حکومت کا وفد آیا اور وزیر اعلیٰ کے حکم پر ہم نے اسے روک دیا۔‘

یہاں باڑ لگائی ہی کیوں جا رہی ہے جبکہ چیک پوسٹ بھی بہت ہیں؟

ڈی سی گوادر کا کہنا تھا کہ ’جب یہاں پر لوگوں کی آمدورفت ہوتی ہے تو انھیں بہت زیادہ دشواریاں ہوتی ہیں کیونکہ انھیں چیک کیا جاتا ہے۔ اس کا حل ہم نے یہ نکالا گیا کہ باڑ کا پہلے ہی ماسٹر پلان میں ذکر ہے اور اس کی منظوری بھی ہے اس پر عمل کریں تاکہ اس علاقے میں ہم باڑ لگائیں اور اندر سے تمام سکیورٹی چیک پوسٹوں کو ختم کر دیا جائے۔‘

ڈپٹی کمشنر کے مطابق ابھی ابتدائی طور پر تو ہم صرف شہر یا اس کے تھورے سے مضافاتی علاقے کو، جو 20 سے 25 کلومیٹر کا علاقہ بنتا تھا، کو باڑ لگا رہے ہیں اور مستقبل کے پلان میں پوری تحصیل گوادر کو باڑ کے اندر ہونا چاہیے۔

’ابھی گوادر میں آنے کے صرف تین راستے ہیں جبکہ انتظامیہ نے باڑ میں گیارہ راستے تجویز کیے ہیں۔‘

گوادر کی باڑ

گوادر کا چھوٹا سے شہر عالمی توجہ کا مرکز بن گیا ہے

گوادر باڑ میں تقسیم ایک انوکھا شہر ہو گا

کیا باڑ ماسٹر پلان کے مطابق اسی مقام پر لگنی ہے جس کی تجویز کی گئی تھی؟ اس کے جواب میں ڈپٹی کمشنر نے کہا ’یہ گوادر سیف سٹی کا حصہ ہے، سب کو پتہ ہے کہ باڑ اس کا حصہ ہے، علاقے پر ہم بحث کر سکتے ہیں۔۔۔ نزدیک لگ رہی تھی دور لگ رہی تھی وہ قابلِ بحث ہے۔‘

انھوں نے تصدیق کی کہ صوبائی سٹینڈنگ کمیٹی جس نے مقامی لوگوں سے ملنا ہے اور اپنی تجاویز دینی ہیں، نے علاقے کا ابھی دورہ ہی نہیں کیا۔

انھوں نے اس کی وضاحت تو نہیں کی کہ ماسٹر پلان پر عملدرآمد کے وقت مائیکرو لیول پر کتنی ترمیم ہوئی لیکن یہ کہا کہ ’جہاں بھی آپ باڑ لگائیں گے آخر میں بھی تو جس حد تک لگائیں گے کسی نہ کسی کو تو آپ نے تقسیم کرنا ہی ہے اور ہماری توجہ گوادر سٹی ہے، چھوٹے موٹے ایک آدھ گاؤں باہر ہیں اور انھیں ایک انٹری پوائٹ مختص کر کے دیا جا رہا تھا۔‘

میرا اگلا سوال تھا کہ اگر باڑ لگ جاتی ہے تو کیا یہ ہمارے ملک کا ایک انوکھا شہر ہو گا؟

ڈپٹی کمشنر کا کہنا تھا ہاں یہ قابل بحث ہے اس پر تحفظات تھے کہ یہ روایتی نہیں بلکہ نئی چیز ہے۔ ماسٹر پلان سنہ 2017 تا 2050 کا سکرین شاٹ گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی ویب سائٹ پر تو موجود ہے لیکن اس میں باڑ کا ذکر نہیں ملتا۔

جہاں ڈی سی گوادر کی بات اشارہ دیتی ہے کہ باڑ عین اس جگہ نہیں لگائی گئی جس کی جی ڈی اے کے پلان میں منظوری دی گئی تھیں وہیں حکومتی ذرائع سے مجھے یہ بھی پتہ چلا کہ سیف سٹی جو مستقبل میں ہتیھاروں سے پاک ایک فری زون بننے جا رہا ہے، میں سکیورٹی اداروں کو باڑ لگانے کے لیے این او سی بھی باضابطہ طور پر جاری نہیں ہوا اور منصوبے میں باڑ کے علاقے میں کمی کی گئی ہے کیونکہ ماسٹر پلان میں باڑ کے اندر تقریباً دوگنا علاقہ شامل تھا۔

گوادر کی باڑ

گوادر کی باڑ کا مجوزہ پلان

اس ماسٹر پلان سے آگاہ چند حکومتی و سیاسی شخصیات سے میری بات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ معمول کی کارروائیوں میں کبھی کبھار این او سی سے پہلے فقط درخواست دینے کے بعد ہی کام شروع ہو جاتا ہے۔

میں نے پوچھا کیا یہ غلط نہیں تو جواب ملا جب سکیورٹی کے نام پر غیر معمولی اقدام کیا جائے تو آپ بتائیے اسے کون روک سکتا ہے اور ماسٹر پلان ایک چیز ہے، سکیورٹی امور کو فوج بہتر سمجھتی ہے۔

دراصل ماسٹر پلان میں باڑ کے تین فیز تھے۔۔۔ ایک پورٹ، سکول، ہپستال اور ملٹری سمیت اہم اداروں کے لیے خصوصی سکیورٹی ہوتی ہے۔

دوسرا مرحلہ جو ابھی روکا گیا اسے 2023 تک مکمل کیا جانا ہے جبکہ تیسرے اور آخری مرحلے میں پورے گوادر کے گرد باڑ لگنی تھی۔

دوسرے مرحلے کی باڑ کا جائزہ سنہ 2035 میں لیا جانا ہے۔

متعلقہ ذرائع کہتے ہیں کہ ’جب لگے گا کہ سب کچھ ٹھیک ہو رہا ہے، کیمرے اور سرویلینس ٹھیک ہو رہی ہے، دیگر امور درست ہیں امن و امان ہے تو پھر تیسرا اور آخری مرحلہ شروع ہو گا لیکن یہ باڑ جس کا کام ابھی رکا ہوا ہے، تب بھی مزید چند برسوں تک لگی رہے گی۔‘

حکومتی ذرائع کہتے ہیں کہ طے شدہ پلان کے مطابق لگاتے تو زیادہ بڑا علاقہ باڑ میں آتا چونکہ یہاں ترقی اور ڈویلپمنٹ کا عمل سست رہا ہے اور اتنی آبادی نہیں بس سکی جس کی ابتدا میں توقع کی گئی تھی اس لیے باڑ لگاتے ہوئے ماسٹر پلان کو مکمل طور پر فالو نہیں کیا گیا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس سے زیادہ لاگت آتی یعنی زیادہ کھمبے لگتے زیادہ کیمرے اور ٹیکنالوجی لگانی پڑتی۔

گوادر

بلوچستان کے ساحلی علاقے اپنی خوبصورتی اور دلکشی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے

چینیوں کی نقل و حرکت کے لیے سکیورٹی

یہ خبر بھی بہت سننے کو ملتی ہے کہ گوادر میں جہاں دو لاکھ بھی مقامی آبادی نہیں وہاں پانچ لاکھ چینی شہری بسائے جائیں گے۔

اس سوال کے جواب میں ڈی سی گوادر نے کہا کہ ایسا نہیں اور چینی شہری ابھی پورٹ تک ہی محدود ہیں۔

’وہ یہاں موجود ہیں وہ ہر پراجیکٹ میں کام کر رہے ہیں۔ گوادر کے نیو انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر زیادہ کام کرنے والے چینی ہیں۔ ابھی شہر میں ان کی اتنی موجودگی نہیں یہ اپنا کام کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔‘

کہا جا رہا ہے کہ ماسٹر پلان میں باڑ کو شامل کیا جانا دراصل یہاں چینیوں کو پیش آنے والی مشکلات کے حل کا ایک راستہ ہے کیونکہ سکیورٹی واقعی ان کے لیے ایک درد سر بنی ہوئی ہے۔

یہاں چند روز قیام کے دوران میں نے فقط جہاز میں سفر کے دوران دو چینی شہریوں کے علاوہ کوئی چینی نہیں دیکھا، ہاں پدی زر کی میرین ڈرائیو پر آپ کو دن میں کئی بار سکیورٹی سکواڈ آتے جاتے دکھائی دیتے ہیں جو پورٹ روڈ کی جانب جاتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ جس دن کوئی بڑا دورہ ہو تو پھر تو شاہراہ پر بندش ہوتی ہے لیکن عام طور پر بھی ایک چینی شہری کو کسی میٹنگ میں جانا ہو یا پھر پورٹ سے ائیر پورٹ تک یا ہسپتال تک تو سکواڈ اور درجنوں سکیورٹی اہلکاروں کی ضرورت پڑتی ہے۔ حتیٰ کہ ایکسپریس بے اور دیگر پراجیکٹس پر کام کرنے والے چینی عملے کے لیے سکیورٹی کا اردگرد موجود ہونا ضروری ہوتا ہے۔

ساحل پر آپ واک تو کر سکتے ہیں لیکن کچھ ممنوع مقامات بھی ہیں اور ایسا بھی ہوتا کہ اگر کوئی سکیورٹی ادارے کا افسر جاگنگ کرنا چاہے تو ساتھ ان کا سکواڈ ہو گا۔

اگر آپ سویلین ہیں تو دور سے آپ کو کبھی کبھار اشارہ کر کے وہاں سے ہٹنے یا گاڑی ہٹانے کو کہا جا سکتا ہے۔

پورٹ کی جانب جاتے اور پی سی ہوٹل کی طرف بڑھتے چیک پوائنٹس اور ملٹری ٹینکس اور ٹاپ پر کھڑے ہو کر تصویر بنانا منع ہے، کا انتباہ دیکھ کر آپ بھی شاید میری طرح کچھ اچھا محسوس نہیں کریں گے۔

اتنی سکیورٹی کے باوجود آپ کو نارمل سکیورٹی کی موجودگی کی کمی محسوس ہو گی، پولیس اہلکار کم دکھائی دیں گے جن کی موجودگی کسی بھی شہر میں لازم اور نارمل تصور کی جاتی ہے۔

گوادر کی باڑ

گوادر کی باڑ پر مقامی لوگوں کو پریشانی ہے لیکن ملکی سطح پر بھی اس پر بات ہو رہی ہے

تو جس سکیورٹی کی ایک سیف سٹی کو ضرورت ہوتی ہے اس کا تو شاید ابھی نصف تو کیا 10 فیصد بھی یہاں دستیاب نہیں۔ اس معاملے پر میری بات گوادر میں چیمبر اینڈ کامرس انڈسٹریز کے صدر نوید کلمتی سے بھی ہوئی۔

انھوں نے کہا ’میں سمجھتا ہوں کہ سکیورٹی ہونی چاہیے، سکیورٹی کے لیے اقدامات کرنے چاہیے مگر سکیورٹی غیر مرئی ہونی چاہیے جیسے سنگا پور میں ہے جیسے لندن، دبئی میں ہے۔ گوادر میں جو بھی نئے سرمایہ کار آتے ہیں وہ اتنی چیک پوسٹوں سے گزر کر اچھا تاثر لے کر نہیں جاتے۔ گوادر میں سکیورٹی ہونی چاہیے اور نئے وقت کے تقاضوں کے مطابق ہونی چاہیے۔‘

پراپرٹی کی قیمت 25 فیصد گر گئی

اس پورے معاملے میں ایک مسئلہ باڑ کے باہر پراپرٹی کی قیمتیں 25 فیصد گرنے کا بھی ہے۔ جس پر پراپرٹی ڈیلرز اور مقامی مالکان ناخوش دکھائی دیتے ہیں۔

گوادر سے نکلتے اور اب ایک بار پھر اس تحریر کے اختتام پر مجھے بندرگاہ اور دیمی زر پر ملنے والے ماہی گیر کمیونٹی کے افراد کے الفاظ اور بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلے کی آخری لائن یاد آ رہی ہے۔

یہاں کے لوگ کہتے ہیں کہ ’سکیورٹی فراہم کرنا سکیورٹی اداروں کا کام ہے نہ کہ شہریوں کا۔ ہم لوگوں کو سکیورٹی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اسلام آباد میں باڑ لگاؤ، کراچی میں باڑ لگاؤ، پشاور میں باڑ لگاؤ۔۔۔ یہاں گوادر میں کیوں باڑ لگا رہے ہو؟‘

جبکہ بلوچستان ہائی کورٹ نے باڑ کے خلاف درخواست نمٹاتے ہوئے لکھا:

We hope after discussion in assembly wisdom will prevail’

یعنی ’ہمیں امید ہے کہ اسمبلی میں بحث کے بعد حکمت سے کام لیا جائے گا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp